ایک بار پھر ٹرمپ…
دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا میں حالیہ الیکشن جیت کر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار صدر بن گئے۔ انھوں نے اس بار ۲۰۱۸ء الیکشن سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
گویا اب ان کی عوامی سیاسی طاقت بھی ماضی کی نسبت زیادہ ہے۔ ماہرین کی رو سے مہاجرین کے معاملے اور معیشت …ان دوامور نے ٹرمپ کو صدر بنوانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی فتح انہی امور کے باعث ممکن ہوئی۔
پہلی وجہ
امریکا میں ۶۰ فیصد تعداد سفید فام باشندوں کی ہے۔مگر ان کی تعداد رفتہ رفتہ گھٹ رہی ہے کیونکہ ان میں کُل شرح افزائش (Total fertility rate)خاصی کم ہو چکی۔ جبکہ ایشیا، جنوبی امریکا اور افریقہ سے آنے والے مہاجرین اور پناہ گزیں زیادہ کل شرح افزائش رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ سفید فاموں کو خطرہ ہے کہ اگر یہی عمل جاری رہا تو ساٹھ ستر سال بعد وہ امریکا میں اپنی قوت کھو بیٹھیں گے کیونکہ غیر سفید فام اپنی عددی برتری کے باعث طاقت پا لیںگے۔
اسی لیے امریکی سفید فاموں کی اکثریت چاہتی ہے کہ دنیا بھر سے مہاجرین کم سے کم لیے جائیں اور پناہ گزینوں کا بھی امریکا میں داخلہ روکا جائے۔ ڈیموکریٹک پارٹی ان مطالبات کے بارے میں ابہام رکھتی ہے۔ جبکہ ٹرمپ خود بھی چاہتے ہیں کہ امریکا میں بہت کم مہاجرین کو داخلہ دیا جائے اور پناہ گزینوں کی آمد روکی جائے۔ وہ امریکا کے گرد دیواریں تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔نیز ان کا منصوبہ ہے کہ لاکھوں غیر قانونی مہاجرین ملک بدر کر دئیے جائیں۔ اسی لیے حالیہ الیکشن میں سفید فاموں کی اکثریت نے انھیں ووٹ دئیے اور ان کو کامیاب کرا دیا۔
دوسری وجہ
امریکا کی بیشتر آبادی سمجھتی ہے کہ ملک میں پھیلی بیروزگاری کی وجہ مہاجرین اور پناہ گزین ہیں۔ وہ آتے ہی ہر قسم کی ملازمتیں کرنے لگتے ہیں۔ یوں مقامی لوگوں کو ملازمتیں نہیں مل پاتیں۔ لہذا کروڑوں امریکی معاشی طور پر بھی چاہتے ہیں کہ مہاجرین کی آمد روکی جائے۔ اس معاشی وجہ سے بھی ایسے کئی لاکھوں ووٹروں نے بھی ٹرمپ کو ووٹ دیا جو کسی نہ کسی باعث انھیں پسند نہیں کرتے۔
مذید براں ٹرمپ بیرون ممالک سے آئی اشیا پر زیادہ ٹیکس لگانا چاہتے ہیں تاکہ امریکی مصنوعات کو فروغ دیا جائے۔ کئی امریکی باشندے اس استدلال کی وجہ سے بھی انھیں پسند کرتے ہیں۔ جب ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ وہ امریکا کو پھر عظیم بنائیں گے تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ امریکی مصنوعات کو مقامی اور عالمی سطح پر فروغ دیا جائے گا۔ مگر بیرون ممالک سے آئی اشیا پر ٹیکس لگانے سے تجارتی جنگ چھڑ جاتی ہے کیونکہ وہ ملک بھی امریکی مصنوعات پہ ٹیکس بڑھا دیتے ہیں۔
اخلاقیات نظرانداز
امریکی باشندوں میں مہاجرین سے ناپسندیدگی کا عنصر اتنا زیادہ پھیل چکا کہ انھوں نے ٹرمپ پر لگے بدکرداری کے الزامات کو نظرانداز کر دیا۔ ٹرمپ کو امریکی عدالتوں میں ٹیکس چوری، کاروبار میں ہیرا پھیری اور خواتین کی تذلیل جیسے الزامات کا سامنا ہے اور عمومی تاثر یہ ہے کہ و ہ بیشتر معاملات میں قصوروار ہیں لیکن امریکی عوام نے اس کے باوجود انہیں ووٹ دیا۔
ان ووٹروں میں لاکھوں قدامت پسند عیسائی ووٹر بھی شامل ہیں جو زنا، شراب نوشی ، فراڈ وغیرہ کو گناہ سمجھتے ہیں۔ مگر مہاجرین سے نفرت کی بنا پر انھوں نے ٹرمپ صاحب کی اخلاقی کمزوریوں کو نظرانداز کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اپنے ووٹروں کی توقعات پوری کر پائیں گے۔ بہت سے قدامت پسند ووٹر تو یہ بھی چاہیں گے کہ وہ امریکا کو سیکولر ملک نہ رہنے دیں اور اس کو بنیاد پرست عیسائی مملکت میں بدل دیں۔ بھارت میں بھی لاکھوں ہندو ووٹر بعینہ یہی توقع نریندر مودی سے رکھتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کا رخ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ یوکرین اور چین کے بارے میں سخت رویّہ اختیار کریں گے اور ان کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ میں مزید غیر متوقع صورتحال پیدا کرنے کا امکان ہے۔ انہوں نے اپنی "امریکہ فرسٹ" خارجہ پالیسی واپس لانے کا اشارہ بھی دیا ہے جس سے امریکا کی زیادہ تنہائی پسندی اور کم بین الاقوامی تعاون جنم لے گا۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے یہ شاندار دعوی بھی انتخابی مہم کے دوران کیا کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے 24 گھنٹوں کے اندر یوکرین کے خلاف روس کی جنگ ختم کرا دیں گے، مشرق وسطیٰ میں امن قائم کریں گے اور امریکا کے سب سے بڑے جغرافیائی سیاسی حریفوں میں سے ایک ،چین پر تسلط قائم کریں گے۔
اس وقت دنیا کو موسمیاتی بحران سے لے کر یوکرین، غزہ اور لبنان کی جنگوں تک لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے اور اس ضمن میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ خارجہ پالیسی کیسی ہو گی، اس بابت کچھ کہنا قابل از وقت ہے۔ تاہم ذیل میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اہم امور میں منتخب صدر کہاں کھڑے ہیں۔
اسرائیل کا بہترین دوست
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بار ٹرمپ کو "وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کا سب سے اچھا دوست" قرار دیا تھا۔ ماضی میں صدارتی دفتر میں رہتے ہوئے ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا جس کی فلسطینیوں اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے بڑے پیمانے پر مذمت کی۔ انہوں نے شام میں مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے دعوے کو بھی تسلیم کیا۔ ان کی انتظامیہ نے معاہدوں کے سلسلے، نام نہاد ابراہم ایکارڈز کی ثالثی کی تھی جس نے اسرائیل اور مٹھی بھر عرب ممالک کے درمیان سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو باقاعدہ بنایا۔
سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی تھنک ٹینک کی صدر اور سی ای او نینسی اوکیل کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ "مسائل پر پیسہ پھینکنا" مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو حل کرنے کا جواب ہے۔ لیکن ٹرمپ کے ان دعوؤں کے برعکس کہ وہ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں خطے میں امن لائیں گے، ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا "امن کے لیے ہتھیار" کا فریم ورک ناکام رہا ہے -
جیسا کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی تباہ کن فوجی مہمات سے ظاہر ہوتا ہے، جس نے مشرق وسطیٰ کو ہمہ گیر جنگ کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔
بہت سے لوگوں نے نوٹ کیا ہے کہ امریکہ نے پہلے ہی بڑی حد تک اپنے ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی اور اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت کے ذریعے ان تنازعات کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے،۔اوکیل کہتی ہے " ہم دیکھتے ہیں کہ قواعد پر مبنی عالمی نظام اور امریکی مقامی قانون کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کا تحفظ ، ان سب کو پہلے ہی توڑا اور کمزور کیا جا چکا ہے۔"
اوکیل کا مزید کہنا ہے:’’ ٹرمپ کے دفتر میں پچھلے دور کی تعریف ان کی غیر متوقع صلاحیت سے کی گئی تھی۔ اب وائٹ ہاؤس میں مزید چار سال کے اتار چڑھاؤ سے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تنازع پہلے سے ہی بھڑک رہا ہے۔ اب ان کی صدارت چیزوں کو پھاڑ دینے میں تیزی لا سکتی ہے۔‘‘
ایران سے دشمنی
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے اندر اور باہر ایران کے خلاف ہمیشہ سخت گیر موقف اپنایا۔ ٹرمپ کے پچھلے صدارتی دور میں امریکا یک طرفہ طور پر 2015ء کے معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا جس کی رو سے ایران نے اپنی معیشت کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں ہٹانے کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو کم کر دیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے تہران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کیں اور اعلیٰ ایرانی جنرل ،قاسم سلیمانی کے قتل کی اجازت دے دی، ایک ایسا حملہ جس نے پورے خطے میں کشیدگی کو ہوا دی۔
"جب میں صدر تھا، تو ایران مکمل طور پر قابو میں تھا۔ وہ نقدی کے لیے بھوکے تھے، مکمل طور پر میری مٹھی میں تھے اور معاہدہ کرنے کے لیے بے چین تھے۔" ٹرمپ نے اکتوبر کے شروع میں انتخابی مہم کے دوران یہ دعوی کیا تھا۔ اوکیل کہتی ہے کہ ٹرمپ کی ایک اور مدت "خطرناک جوہری پھیلاؤ" پر تشویش کو ہوا دے سکتی ہے۔
واشنگٹن میں "کنٹرولڈ اسکیلیشن" کا ایک مروجہ افسانہ بھی ہے یعنی لبنان اور ایران تک جنگ کی موجودہ توسیع، جو ایک سطح تک کی جائے گی۔ ’’تاہم یہ ایک بہت ہی تنگ نظریہ ہے کیونکہ کسی کو نہیں معلوم یہ رہنما دراصل مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے تمام لوگوں اور گروہوں پر کتنا کنٹرول رکھتے ہیں۔‘‘اوکیل وضاحت کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکی کانگریس کی تشکیل بھی جنگ پھیلانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ واشنگٹن، ڈی سی میں "عقابی آوازیں" ہیں، جو ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر سکتی ہیں کہ وہ ایران کے خلاف مزید سخت رویّہ اختیار کر لیں۔
مثال کے طور پر وہ لوگ جو مانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کا راستہ ایران کی موجودہ حکومت سے چھٹکارا پانا ہیں، وہ ہمیشہ عام طور پر کسی بھی مسئلے کے لیے فوجی جواب کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ساتھ کچھ امریکی قدامت پسند مداخلت کے مخالف ہیں، جو ٹرمپ کے "امریکہ فرسٹ" کے نظریے کو اپناتے ہیں۔ اوکیل کہتی ہے کہا کہ اس معاملے سے حساب کتاب کا عنصر جڑا ہوا ہے۔
یوکرین اور روس
ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران بارہا کہا کہ وہ اقتدار میں واپسی کے 24 گھنٹوں کے اندر یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کا حل نکال لیں گے۔ "اگر میں صدر ہوں تو میں اس جنگ کو ایک دن میں ختم کر دوں گا،" انہوں نے گزشتہ سال بھی یہ دعوی کیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ یہ کیسے کریں گے، ٹرمپ نے کچھ تفصیلات پیش کیں لیکن کہا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ "ان دونوں میں کمزوریاں ہیں اور دونوں کی طاقتیں ہیں اور 24 گھنٹوں کے اندر یہ جنگ طے ہو جائے گی۔‘‘انہوں نے کہا۔
ٹرمپ جنھوں نے مبینہ طور پر پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں، زیلنسکی کی یوکرین کے لیے اضافی امریکی امداد کی درخواستوں پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ "ان کے مطالبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔‘‘ٹرمپ نے جون میں ایک تقریب میں کہا، ’’میں وائٹ ہاؤس کا صدر منتخب ہونے سے پہلے یہ طے کرلوں گا کہ یوکرین کو امداد دینی ہے یا نہیں۔‘‘
لندن میں تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس میں یو ایس اینڈ امریکز پروگرام کی ڈائریکٹر لیزلی ونجاموری کا کہنا ہے ’’ہمیں ٹرمپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ ان کو یقین ہے کہ وہ بہت جلد امن معاہدہ کرا سکتے ہیں اور یہ کہ وہ ممکنہ طور پر یوکرین کے لیے مزید امداد کو روک دیں گے۔ "
مثال کے طور پر اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ پوٹن کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچ جائیں جس میں زیلنسکی کے ان پٹ کو شامل نہیں کیا گیا ہے - اور وہ ممکنہ طور پر یوکرین اور اس کے علاقے کے معاملے میں بہت کچھ تسلیم کر سکتے ہیں۔ ونجاموری وضاحت کرتی ہے۔ ’’یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ پوٹن اور روس کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھے گے ، اور کیا اس سے عام طور پر یورپی تناظر میں روس کی حوصلہ افزائی ہوگی ؟ میرے خیال میں یہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک حقیقی تشویش ہے۔"
چین سے مقابلہ
برسوں سے امریکا اور چین دنیا کی دو بڑی سپر پاورز کے طور پر معاشی، جغرافیائی اور سیاسی مقابلے میں محو ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت، تائیوان اور ایشیا پیسفک خطے پر تسلط سمیت متعدد مسائل پر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ (آئی سی جی) کا تھنک ٹینک کہتا ہے، چین کے بارے میں ٹرمپ کا نقطہ نظر زیادہ تر تجارت پر مبنی ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ سابق صدر چین کے ساتھ امریکا کے اقتصادی تعلقات کو انسانی حقوق جیسے دیگر مسائل سے بالاتر رکھتے ہیں۔
2018 ء میں مثال کے طور پر ٹرمپ انتظامیہ نے آتے ہی 250 بلین ڈالر کی چینی درآمدات پر ٹیرف لگا دئیے تھے۔ ان کو لگانے کے بعد واشنگٹن نے بیجنگ کے ساتھ تجارتی جنگ کو بھڑکا دیا۔ نیز امریکی وار نے چینی حکومت کی طرف سے جوابی اقدام کو بھی جنم دیا۔
اس کے باوجود ٹرمپ نے چین کے مضبوط رہنما صدر شی جن پنگ کے لیے اپنی محبت کا اظہار بھی کیا ۔ اگست میں فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ صدر شی کا احترام کرتے ہیں اور "ان کے چینی صدر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں"۔ لیکن ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ان کے "بڑے پیمانے پر محصولات" لگانے سے بیجنگ امریکا کو اربوں ڈالر دینے پر مجبور ہو گیا۔ گویا انھوں نے چینی اشیا پر ٹیکس لگانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا۔
ٹرمپ نے مذید کہا’’ انہوں (چینیوں )نے ہم سے خوب مالی فائدہ اٹھایا۔ اور وہ کیوں نہ اٹھاتے؟ ہم اتنے بیوقوف تھے کہ انہیں ایسا کرنے دیا۔ کسی امریکی حکومت کو چین سے کوئی پیسہ نہیں ملا۔ لیکن (میرے اقدامات کی وجہ سے )مجھے چین سے کئی بلین ڈالر ملے۔‘‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ دوبارہ منتخب ہونے پر اپنی ٹیرف پالیسی کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم تمام درآمدات پر یکساں 10 فیصد ٹیرف عائد کر دیا جائے گا۔ لیکن خاص طور پر چین کے لیے انھوں نے اشیا پر 60 فیصد تک ٹیرف کی شرح عائد کرنے کی دھمکی بھی دی۔
اس سلسلے میں کونسل آن فارن ریلیشنز تھنک ٹینک میں جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے لیے ایک سینئر فیلو جوشوا کرلانٹزک کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران چین پر "زیادہ جارحانہ" رہے ہیں۔ تاہم وہ خبردار کرتے ہیں کہ ٹرمپ اکثر مفادات پورے کرنے کے لیے کوئی بیان دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، اگر مفاد تبدیل ہو جائے تو ان کا بیان بھی بدل جاتا ہے۔
عالمی اداروں کی تضحیک
جوشوا کرلانٹزک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ پہلی مدت میں شی جن پنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث دنیا کو متاثر کرنے کے قابل تھے، لیکن ہم واقعی نہیں جانتے کہ اب کیا ہو گا۔ یاد رہے، پچھلے دور میںٹرمپ نے بین الاقوامی اداروں جیسے اقوام متحدہ اور نیٹو اتحاد کا مذاق اڑایا، اور کثیرالجہتی معاہدوں سے دستبردار ہو گئے۔
بشمول موسمیاتی تبدیلی پر پیرس معاہدہ۔انہوں نے واشنگٹن کے نیٹو اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلاک کے اجتماعی دفاع کے لیے اپنا منصفانہ حصہ ادا نہیں کر رہے اور انہیں متنبہ کیا کہ اگر روس نے ان پر حملہ کیا تو امریکی حکومت ان کی حفاظت نہیں کرے گی۔ نیٹو کے چارٹر میں تمام ممبران کے لیے باہمی دفاعی شق موجود ہے۔
چیتھم ہاؤس کی ونجاموری کا کہنا ہے ’’ٹرمپ ان لوگوں کے لیے ایک موقع فراہم کرتے ہیں جو کثیر الجہتی ترتیب کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اسی لیے یورپی ممالک ٹرمپ کی دوسری میعاد کے بارے میں "گہری گھبراہٹ" محسوس کر رہے ہیں۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ براعظم یورپ کے پاس معاشی تعاون کے ساتھ ساتھ "سیکیورٹی کے حوالے سے کھونے کے لیے بہت بڑی رقم" موجود ہے۔
انہوں نے کہا "اس بات کے حقیقی خدشات ہیں کہ ٹرمپ انہیں چین پر محصولات لگانے کے سلسلے میں سختی سے آگے بڑھا سکتے ہیں اور G7 کے لیے ایک انتہائی خلل ڈالنے والی طاقت بن سکتے ہیں، جس کے بارے میں بہت سے یورپیوں کا خیال ہے کہ اقتصادی اور سلامتی کے معاملات پر تعاون کے لیے یہ ایک بہت ہی مثبت مقام ہے۔ انہیں تشویش ہے کہ اب شاید ہم G6 کو دیکھ رہے ہیں G7 کو نہیں۔"
پاکستان اور صدر ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب سے پاک امریکا تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ جاننے سے پہلے سمجھ لیجیے کہ یہ بات درست نہیں جب ٹرمپ صدر تھے تو پاکستان کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔ دراصل وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان سے مدد مانگی تاکہ طالبان سے بات چیت ہو سکے۔ چناں چہ خان کو واشنگٹن کے دورے اور ٹرمپ کی جانب سے غیر معمولی عوامی تعریف سے نوازا گیا۔ لیکن جب طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو ٹرمپ نے پاکستان کی طرف سے منہ موڑ لیا۔
ٹرمپ صرف اعلیٰ عوامی مفاد کے مسائل کو نوٹ کرتے ہیں، جن میں سیاسی کشش موجود ہو۔ پاکستان اور امریکا تعلقات کی موجودہ حالت ان میں سے نہیں اور نہ ہی عام امریکی اس سے متاثر ہے۔ اس لیے یہی امکان ہے کہ ٹرمپ اسلام آباد کے ساتھ جو بائیڈن کی کم شدت والی پالیسی جاری رکھیں گے، جس میں نہ تو ہمیں امداد میں ترجیح حاصل ہوگی۔ نہ سخت پابندیاں لگیں گی، یہ تعلق دو انتہاؤں کے درمیان ہے جن کے درمیان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اپنی تاریخ کے بیشتر حصّے میں گھومتے رہے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات دراصل ایک نئے توازن کی تلاش میں ہیں، ایسا توازن جو مکمل طور پر بدلے علاقائی اور جغرافیائی سیاسی منظر نامے اور بدلتی ہوئی امریکی خارجہ پالیسی کا بہترین جواب بن سکے جسے اندرون اور بیرون ملک چیلنجز کا سامنا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ابھرتی ہوئی طاقتیں عالمی اقتصادی اور تزویراتی ترتیب کو دوبارہ ترتیب دینے میں اپنا کردار ادا کر کے امریکا کی عالمی برتری کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں امریکی حکمران طبقے کی کوشش ہے کہ پاکستان اسی کے کیمپ میں رہے۔ مگر پاکستان کے مفادات چین اور روس سے بھی وابستہ ہیں اور وہ انھیں پس پشت نہیں ڈال سکتا، خصوصاً ایسے وقت جب امریکا اور بھارت کے مابین عسکری و معاشی تعاون تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
امریکا مگر اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی پارٹنر ہے ۔لہذا حکومت پاکستان کو تدبر و حکمت سے ٹرمپ انتظامیہ کو ڈیل کرنا ہو گا تاکہ وہ پاکستانی مفادات کے خلاف نہ جائے اور کم از کم یہ پالیسی بنا لے کہ پاکستان کی کھلے عام حمایت و مدد نہیں کرنی تو اس کو نقصان بھی نہ پہنچایا جائے۔ یہ دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کر کے پاکستان کے مفادات کو تحفظ دینا ممکن ہو گا۔