ماحول ایک وسیع دنیا کا نام ہے جو صرف انسانوں سے نہیں بلکہ چرند پرند ، پہاڑوں ندیوں نالوں ، خشکی تری یہاں تک کے درختوں پھلوں اور پتوں کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
ماحول ایک وسیع دنیا کا نام ہے جس میں حیاتیاتی تنوع کا بقاء ناگزیر ہے۔ مختلف انسانی سرگرمیوںکی وجہ سے ماحول بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر ہوتا ہے اور اس کی سب سے بڑی اور حولناک صورت آلودگی کی شکل میں واضح ہوتی ہے۔انسان نے دنیا میںمختلف تجربات کر کے ترقی حاصل کی ، صنعتیں لگائیں، بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر ڈالیں صحراؤں میں شہر بسا ڈالے اور زمین کا نقشہ تک بدل کر رکھ دیا۔ لیکن انسان اپنی ترقی کی اس دوڑ میں فطرت سے بہت دور ہوگیا جس کا خمیازہ ہمیں آلودگی کی مختلف اقسام کی صورت میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔
وہ پلاسٹک بیگز اور دیگر چیزوں کی صورت میں ماحولیاتی آلودگی ہو یا گاڑیوں، فیکٹریوں اور کمرشل سائٹس سے نکلنے والے دھوئیں کی شکل میں فضائی آلودگی۔ نقصان انسانی صحت کو ہی پہنچتا ہے۔ اور اس سب میں المیہ یہ ہے کہ انسان نے آلودگی کو کم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کی زخمت کرنا چھوڑ دی ہے۔جس میں جنگلات اور درخت سر فہرست ہیں۔جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے درختوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ مختلف انداز میں درختوں کا صعنتی اور گھریلواشیاء ، خام مال کی صورت استعمال اس کی بڑھتی ہوئی مانگ کا ثبوت ہے۔ درخت آکسیجن کا ذریعہ ہوتے ہیںجو سانس لینے کے لیے درکار ہوتی ہے۔یہ ہوا میں موجود فضائی آلودگی کو فلٹر کرتے ہیں اور صاف ماحول فراہم کرتے ہیں۔
دنیا نے درختوں سے کیسے فوائد حاصل کئے؟
یوں تو درختوں یا جنگلات کے بے تحاشا فوائد ہیں لیکن یہ طوفانوںکو آنے سے روکتے ہیں ، آبی گزرگاہوں میں کٹاؤ اور سیلاب کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ماحول کے لئے بے حد ضروری ہیں کیونکہ جنگلی حیات کی زندگی اور رہائش درختوں پر منحصر ہے۔
یہ مختلف پرندوں اور جانوروں کے لئے خوراک اور بسیرا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔پھر یہ صرف چرند پرند کے لئے ہی نہیں بلکہ انسانوں کے لئے بے حد فائدہ مند ہیں ہوا کو صرف کرنے ،جو پانی ہم پیتے ہیںا سے فلٹر کرنے میں ، دنیا کے اسی فیصد سے زائد حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے، ایندھن فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرتے ہیں۔ادویہ سازی کی صنعت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اسپرین کی گولی جو کہ مشہور زمانہ ہے وہ بھی ایک خاص قسم کے درخت کی چھال سے بنتی ہے۔
ایک تحقیق کی گئی جس کے نتائج انتہائی حیران کن ہیں کہ وہ مریض جن کے ہسپتال کے کمروں سے درخت نظر آتے ہیں وہ بند کمروں میں روبہ صحت مریضوں کی نسبت تیزی سے صحت یاب ہوتے ہیں۔صبح سویرے درختوں اور ہریالی کے بیچ چہل قدمی کرنے سے ذہن کو آسودگی اور سکون ملتا ہے۔کیونکہ درختوںسے خارج ہونے والے کیمکلز تناؤ اور اضطراب کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔
اس وقت پاکستان میں شجر کاری کی ضرورت؟
پاکستان کو قدرت نے میدانی نیم میدانی پہاڑی علاقوں اور ریتیلے علاقوں کے ساتھ متنوع ماحول فراہم کیا ہے۔
پاکستان اس وقت جنگلات کے حوالے سے غریب ملکوںمیں شامل ہوتا ہے کیونکہ اس کا صرف چھ فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر رقبہ نیم خشک اور بنجر علاقوں پر مشتمل ہے سو ذرائع آب کی کمیابی جنگلات کی نشوونما میں روکاوٹ بنتی ہے۔
درختوں کی غیر قانونی کٹائی، ایندھن اور چارکول کے لئے لکڑی کی کٹائی، بڑھتی آبادی کے ساتھ مختلف ضرویات کی مد میں ہر سال ہزاروں درختوںکو کاٹ کر صنعتی اور دیگر سرگرمیوں کے لئے استعمال کی جاتا ہے۔ درختوں کو کاٹ کر ہم اپنے لئے موجود اس خاموش مگر طاقتور فورس کو اپنے ہی ہاتھوں مار دیتے ہیںجو مختلف طرح کی آلودگی کو خصوصاً فضائی آلودگی کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
فضائی آلودگی کے نقصانات کیا ہیں؟
آلودگی کی بہت سی اقسام ہیں ان میں فضائی آلودگی کو عموماً قابل اعتناء نہیں جانا جاتا۔ لیکن یہ آلودگی کی خوفناک اقسام میں سے ایک ہے۔یہ ماحول کو خاموشی سے متاثر کرتی ہے اور امراض قلب، پھیپھڑوں کے کینسر،فالج، سانس کے وبائی اور موزی امراض کا باعث بنتی ہے جن میں دمہ سرفہرست ہے ۔ہر برس ستر لاکھ لوگ فضائی آلودگی سے متاثر ہوکر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق فضائی آلودگی سے متاثرہ خطوں میں جنوب مشرقی ایشیائی خطہ اور مغربی بحرالکاہل سے منسلک علاقے جہاں بیس بیس لاکھ سے زائد آبادی کی شرح موجود ہے۔ افریقی خطہ بھی متاثرہ علاقوں میں شامل ہے جہاں قریباً دس لاکھ پر مشتمل آبادی فضائی آلودگی کے زہر سے آلودہ ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے فضائی آلودگی میں سموگ کا اضافہ ہوا ہے جس کی شدت لاہور اور گردونواح میں بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ لاہور کا ائیر انڈیکس ڈیرھ ہزار پوائنٹس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق AQIآئر کوالٹی انڈیکس ہوا کا معیار اور انسانی صحت کے لئے اس کے اثرات کو جانچنے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ AQIکی قدر جتنی بڑھتی جائے گی فضائی آلودگی کی سطح اتنی ہی زیادہ ہو گی اور یہ صحت کے لئے اتنی ہی نقصان دہ ثابت ہوگی۔اس کے چھ مدارج ہیں ۔
پہلا درجہ سبز ہوتا ہے جس میں انڈیکس 50تک ہوتا ہے اور یہ ہوا کی قابل قبول صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسرا درجہ پیلا ہوتا ہے جو 51سے 100 تک ہوتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ چند حساسیت رکھنے والے لوگوں کو چھو ڑ کر یہ قابل قبول حد تک ٹھیک ہے۔
تیسرا نارنجی جس میں انڈیکس ویلیو 101 سے 150تک ہوتی ہے جس سے عام عوام کی نسبت حساسیت رکھنے والے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چوتھا سرخ ہے اور یہ 151سے200 تک ہوتا ہے۔ اس سے عام عوام متاثر ہو سکتی ہے۔اور حساس افراد کو سنگین صحت کے مسائل سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔
پانچواں درجہ جامنی ہے جو 201سے 300تک جاتا ہے جہاں ہیلتھ الرٹ کی نوبت آجاتی ہے۔
چھٹا اور آخری درجہ قرمزی رنگ یا میرون رنگ ہے جہاں انڈیکس 301 سے تجاوز کر جاتا ہے اور یہ صورتحال ہر کسی کی صحت کے لئے خطرناک ہوسکتی ہے۔
اور یہاں پاکستان میں تو ریکارڈز ہی ٹوٹ گئے ہیں۔انڈیکس کے بڑھنے سے خوفناک حد تک بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ معاملات زندگی شدید متاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔
بچوں کو صحت کے ممکنہ مسائل کے پیش نظر چھٹیاں دے دی گئی ہیں جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی اور سیکھنے کا عمل شدید متاثر ہوتا ہے۔پھر خواہ وہ آن لائن کلاسسز ہی کیوں نہ لے رہے ہوں وہ سکول میں فیزیکل کلاس لرننگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ کوئی چند دنوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو دور اندیشی سے حل کرنا ضروری ہے کیونکہ آنے والے وقتوں میں اس مسئلے نے بڑھتے ہی چلے جانا ہے۔
اس کو روکنے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں صحت، تعلیم، روزگار اور کاروباری سرگرمیوں کے لئے لوگوں کو اپنے قریبی علاقوں میں سہولیات مہیا کرنا اہم ہے تاکہ وہ ان چیزوں کے لئے میٹرو پولیٹن سٹیز یعنی بڑے شہروں کا رخ نہ کریں۔ جس سے آبادی کا دباؤ بھی تناسب میں رہے گا اور آلودگی کا مرکز بھی ایک نہیں رہے گا۔ حکومت کو پبلک ٹرانسپور ٹ سسٹم کی رسائی اتنی آسان کر دینی چاہیئے کہ لوگ اپنی ذاتی سواری کو انتہائی ضرورت کے علاوہ عام نقل وحمل کے لئے استعمال ہی نہ کریں ۔
ایسی صورت میں سڑکوں پر ٹریفک کا رش بھی کم سے کم ہوگا اور یوں فضا میں دھواں بھی کم ہوگا۔ فیکٹریوں اور صنعتی تجارتی اداروں کو شہروں سے دور لگایا جائے اور جو فیکٹریاں پرانی ہو چکی ہیں جن کی مشینریاں خراب ہو چکی ہیں انھیں فوراً بند کیا جائے، تاکہ ان کے مضرِ صحت دھوئیں سے فضائی آلودگی کم سے کم پھیلے۔کسانوں کو فصلوں کی کٹائی کے بعد باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لئے سہولیات فراہم کرنا تاکہ وہ آگ نہ لگائیں۔
لوگوں میں فضائی آلودگی کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے اور سب سے اہم چیز جنگلات کے کٹاؤ کو ہر ممکن کوشش کر کے روکا جائے اورپودے لگانے کی اجتماعی اور انفرادی سطح پر ترویج دی جائے۔ زرخیز علاقوں پر شہر نہ بسائے جائیں بلکہ نیم بنجر علاقوں کو شہری آبادیوں میں تبدیل کیا جائے اور زرخیز علاقوں پر کاشت کاری کی جائے۔ دنیا میں کئی ممالک نے جنگلات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ آنے والی نسلوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے ۔
اس کی بہت بڑی مثال چین ہے جس نے گریٹ گرین وال کے منصوبے کے تحت صحرائے گوبی کی توسیع کو روکنے کے لئے اپنے شمالی، شمال مشرقی اور شمال مغربی حصہ میں 4,500کلو میٹر کے علاقے میں درخت لگائے ہیں۔پاکستان میں بھی ایسے اقدامات کر کے سخت پالیسیاںبنا کر لوگوں کی زندگیوںکو بچایا جاسکتا ہے۔ اور اگر اس وقت بھی کوئی اہم اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یقیناً آنے والے وقتوں میں فضائی آلودگی سب سے بڑی قاتل ثابت ہوگی۔