’نقّاشِ پاکستان ‘چودھری رحمت علیؒ
ہوگا آخر بارگاہِ حق میں اِک دن باریاب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
(شاعر: چودھری رحمت علی آزادؔ)
’’پاکستانی گوئبلز نے قوم کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے جسےCredulity=Willingness to believe کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں محو شخص اپنے ناپسندیدہ شخص کے خلاف اور اپنے پسندیدہ شخص کے حق میں، ہر بات فوراً ماننے پر آمادہ ہوجاتا ہے‘‘۔
کئی سال پہلے کسی شخص کا یہ قول (بعض دیگرمواد کے علاوہ) میرے محترم فیس بک /واٹس ایپ دوست پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ صاحب نے مجھے ارسال کیا تھا۔ (ویسے جرمن تلفظ گوء۔بلز ہے: س ا ص۔Paul Joseph Goebbelsکے نام کی طرف اشارہ ہے) یہ قول بہت واضح ہے، لیکن وطنِ عزیز کی موجودہ نازک سیاسی صورت حال کے پیشِ نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی شخصیت کے کور مقلّدین کی تفہیم کے لیے یہاں لغات کے اقتباس پیش کردیے جائیں:
Credulity: willingness to believe that something is real or true, especially when this is unlikely: Cambridge Dictionary
:Credulityزُوداِعتقادی ، خوش فہمی
:Credulously نادانی سے ، کہے میں آکر (یعنی کسی کے ورغلانے سے۔یا۔بہکاوے میں آکر : س ا ص)
:Credulousnessبہکائے میں آنے کی عادت
(آکسفرڈ اِنگلش اُردو ڈکشنری مرتبہ شان الحق حقی: گیارہویں اشاعت2017ء)
یہ تمہید باندھنے کی نوبت یوں آئی کہ 2011ء میں شروع ہونے والی اس مذموم تحریک یا منفی پرچار کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں، جب ایک صاحب نے یہ شوشہ چھوڑا کہ اسم ’پاکستان‘ کے خالق چودھری رحمت علی نہیں، بلکہ (اُنہی کی تحریک، پاکستان نیشنل موومنٹ کے ایک کارکن اور اُن کے منصوبے کے پرچارک) علامہ غلام حسن شاہ کاظمی صاحب تھے۔
اس دعوے کی تکذیب اور رَدّتحقیق کے لیے خاکسار نے قلم اُٹھایا اور میرا جوابی مضمون بعنوان ’لفظ پاکستان کا خالق کون: چند معروضات‘، روزنامہ ایکسپریس میں 5 جون2011ء کو شایع ہوا اور اسے بعض اخبارات نے بطور قندمکرر بھی شایع کیا۔ مضمون نگار موصوف آج تک اس مضمون کا جواب نہیں لکھ سکے۔
بات ختم ہوگئی تھی یا ہوجانی چاہیے تھی، مگر آزاد کشمیر میں مقیم کسی صاحب نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے لیے ایم فِل کا مقالہ لکھ کر اِسی انکشاف کو اِس قدر نمایاں کردیا کہ باقاعدہ منظم تحریک بہ سُرعت تمام چلا کر، آزاد کشمیر میں، مطالعہ پاکستان کی درسی کتب سے چودھری رحمت علی کا نام خارج کرکے علامہ کاظمی کا نام شامل کردیا گیا۔ ہَیہات، ہَیہات! راقم کے علاوہ لاہور میں مقیم معروف محقق پروفیسر زید بن عُمر اور پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ سمیت متعدد اہل ِ علم علامہ کاظمی والی حکایت کو بالتحقیق رَد کرچکے ہیں، مگر یہاں لوگ فقط اپنی بات کرتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں نہ پڑھتے ہیں اور ڈٹے رہتے ہیں کہ بس مستند ہے ہمارا ہی فرمایا ہوا۔
1915ء میں بارہویں جماعت کے طالب علم چودھری رحمت علی نے علامہ شبلی نعمانی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ، بزم شبلی کی بنیاد رکھی تھی ; تأسیسی اجلاس میں ، موصوف نے ہندوستان کی آزادی اور ایک الگ، آزادوخودمختار مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ (بحوالہ ’’کاروان ِ شوق‘‘ از حکیم محمد حسن قرشی، ادارہ ٔ تحقیقاتِ پاکستان، جامعہ پنجاب، لاہور۔ صفحہ نمبر 44)۔ چودھری موصوف نے فرمایا تھا کہ ’’ہندوستان کا شمال، مسلم علاقہ ہے اور ہم اسے مسلم ہی رکھیں گے۔
صرف یہی نہیں، ہم اسے ایک مسلم ملک بنائیں گے، لیکن ہم ایسا اُسی وقت کرسکتے ہیں جب ہمارا اور ہمارے ’شمال‘ کا تعلق (باقی) ہندوستان سے ٹوٹ جائے۔ چونکہ یہ شرط اولین ہے، اس لیے جتنی جلد ہم ’ہندوستانیت‘ (یعنی ہندومسلم و دیگر ایک قوم) کا طوق اُتار پھینکیں، اتنا ہی ہم سب کے لیے اور اسلام کے لیے بہتر ہوگا‘‘۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس دور میں ہر طرف ہندومسلم اتحاد کے نعرے گونج رہے تھے، (ماسِوائے اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اوراُن کے خلفاء، تلامذہ و ہم مَسلک علمائے کرام کے، جنھوں نے ’السّوادِاعظم‘ جیسے منفرد علمی واَدبی جریدے سے دو قومی نظریے کا عَلَم بلند کررکھا تھا)۔
16 نومبر 1897کو ضلع ہوشیارپور (موجودہ ریاست پنجاب، ہندوستان) کی تحصیل گڑھ شنکر کے ایک موضع، موہر (موہراں) میں پیدا ہونے والے چودھری رحمت علی کو ہم نے یوں فراموش کردیا جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ ایسی محسن فراموشی بلکہ محسن کُشی کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے کہ جس شخص کے تصورات اور طویل جدوجہد کے بعد، ایک نئی مسلم ریاست کا ظہور ممکن ہوا (یہ الگ بات کہ اُسے کسی کونے میں ڈال کر سہرا دوسروں کے سر باندھ دیا گیا)۔ چودھری رحمت علی کے سوانح نگار اور معروف مؤرخ پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹرخورشید کمال (K.K) عزیز نے برملا اور برحق یہ رائے دی کہ ’’قیام پاکستان، چودھری رحمت علی کے تخیّل اور دُوراَندیشی کا اُتنا ہی مرہونِ منت ہے جتنا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کا‘‘۔
Rehmat Ali :A Biography by K.K Aziz, Sang-e-Meel Publications,25-Lower -Mall,Lahore,Ph:042-37220100,37228143)- اردو تر جمہ۔ ''چو دھری رحمت علی: سوانح حیات‘‘۔ مترجم بیرسٹر سیّد اِقبال الدین احمد، مقیم لندن و پروفیسر زید بن عمر، مقیم لاہور، ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل حسن مارکیٹ، اردو بازار لاہور )
چودھری رحمت علی نے اپنی مساعی ٔ جمیلہ کا آغاز کیا تو اُسے اپنے ہندو اور مسلمان دوستوں اور ساتھیوں سے مسلسل بحث مباحثے کے بعد، نوجوانوں کی ایک انقلابی سوسائٹی سے یہ کہہ کر الگ ہونا پڑا:’’دوستو! اگر آپ کو میرے خیالات (نظریات) سے اتفاق نہیں تو بہتر ہے کہ ہم علیٰحدگی اختیار کرلیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہم اس عہد پر قایم رہیں کہ ہم انقلاب کے نصب العین پر، اپنے اپنے عقائد (ونظریات) کے مطابق جنگ ِآزادی لڑیں۔ آپ اپنی راہ لیں اور میں اپنا راستہ اختیار کروں گا۔ آپ ہندوستانی انقلاب کے لیے سرگرم عمل رہیں، مگر مَیں اپنے (تصور کے مطابق) اسلامی انقلاب کے لیے کام کروں گا۔ بالآخر ہم یہ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں کون سب سے زیادہ متحرک وتخلیقی انقلاب برپا کرتا ہے‘‘۔
ایک طویل مدت کے بعد جب چودھری موصوف نے باقاعدہ تحریک کی ابتداء کی تو اُنھیں یہ احساس ہو ا کہ گویا اللّہ کی رحمت تھی (انگریزی کے لحاظ سےA Blessing in disguise)، جس نے اُن کے نصب العین کو ایک خالص اسلامی جہت عطا کرتے ہوئے ’پاک پلان‘ کی طرف موڑدیا، ’’جس کا پہلا حصہ پاکستان ہے‘‘ یعنی چودھری رحمت علی کے نزدیک پاکستان منزل کے حصول کی اوّلین سیڑھی تھی جسے سب نے منزل قراردے کر یہ باب ہی ختم کردیا۔
{یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ چودھری رحمت علی نے اس خطے میں کئی دیگر ریاستوں کے قیام اور بعدازآں، برّاعظم ایشیا میں متعدد ممالک نیز اسلامی حصہ ایشیا بعنوان ’’پاکیشیا‘‘ یا پا ک ایشیا کی تشکیل کا منفرد تصور بھی پیش کیا تھا جسے اُن کے حِینِ حیات، عوام النّاس اور بعض معاصرین کے حلقے میں تو پذیرائی ملی، مگر مشاہیرِ سیاست نے اُن کی، اپنے اپنے ذہن کے مطابق، خوب تذلیل و تضحیک کی۔ آج بھی ایسے ’’بڑوں‘‘ کے بعض کور مقلد، یہ سمجھتے ہیں کہ چودھری رحمت علی نے ماسوائے ناقابل عمل تصورات پیش کرنے کے، کچھ نہیں کیا، حالانکہ تحریک پاکستان برائے حصول پاکستان میں اُس ایک شخص کا عملی حصہ اُس دور کے تمام مسلم قائدین پر بھاری تھا}۔
ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے عظیم رہنما نے محض پاکستان کا نام ہی تجویز نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح بھرپور جدوجہد کی، حتیٰ کہ جب کالج کے دور طالب علمی میں اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے، بطور جُزوَقتی مضمون نگار، مشہور اخبار، ’’پیسہ اخبار ‘‘ سے منسلک ہوئے اور پھر منشی محمد دین فوقؔ کشمیری کے معروف اخبار ’’کشمیر‘‘ میں بطور نائب مدیر ملازم ہوئے تو اپنے مقصد کے لیے ہمہ وقت مستعد، پُرجوش دانش ور نے ہندوستانی تاریخ و سیاست پر خامہ آرائی کرتے ہوئے متعدد مضامین میں اپنا یہ نظریہ پیش کیا کہ چونکہ ہند کا شمالی اور شمال مغربی حصہ، مسلم اکثریت کا حامل ہے، لہٰذا اسے اُن کا حق سمجھتے ہوئے آزاد مسلم ریاست کا حق دے دیا جائے۔ اُن دنوں اسی قسم کے ایک ’باغیانہ ‘ مضمون بعنوان ’’مغرب کی کورانہ تقلید‘‘ [The blind immitation of the West] لکھنے کی پاداش میں چودھری رحمت علی کو اخبار کی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔
یہاں معروف محقق پروفیسر زید بن عمر کی ایک نگارش کا یہ اقتباس بھی چشم کُشا معلوم ہوتا ہے:’’چودھری رحمت علی نے اپنے پمفلٹوں پر پاکستان کا جو جھنڈا شائع کیا اس میں سبز پس منظر پر ہلالی چاند اور پانچ ستارے دکھائے گئے تھے۔ پانچ ستاروں سے اُن کا مطلب پاکستان کے کشمیر سمیت پانچ صوبے تھے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کو انہوں نے ’پاک‘ زبان کا نام دے دیا تھا۔
انھوں نے پاکستان کے پانچ صوبوں کو مسلمانوں کے ’انڈین ہوم لینڈز‘ اور ایران، افغانستان، تخارستان کو ] یعنی وہ قدیم علاقہ جو اَب افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کا حصہ ہے[ ’ایشین ہو م لینڈز‘ کہا تھا، جس سے اُن کا مقصد پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی برادرانہ تعلقات کو مضبوط کرنا اور اِتحاد پیدا کرنا تھا۔ اُن کی یہ فراست اور دوراندیشی بعد میں آر۔سی۔ڈی (Regional Cooperation for Development: RCD) کی شکل میں سامنے آئی۔ جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر پیش گوئیاں یہ تھیں: (1)’ہم ایک آزاد مسلم ملک بنائیں گے‘: 1915ٗء ۔ بزم شبلی (2)۔ پاکستان کا مطالبہ: 28جنوری 1933ء جو بالآخر عملی شکل میں سامنے آگیا۔
(3)’ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر ظلم وستم ہوگا‘۔ جو آج بھی جاری ہے۔ اسی لیے انھوں نے اُن مسلمانوں کو ہندوستان میں اقلیتی حیثیت میں رکھنے کی بجائے اُن کی آٹھ آزاد خود مختار مسلم ریاستیں (فاروقستان، صدیقستان وغیرہ) بنانے کا پلان پیش کیا۔ (4)’جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ کرنے کی صورت میں کشمیر ہندو سرزمین بن جائے گا اور کشمیر کے بغیر پاکستان ریگستان بن جائے گا‘ (عظیم راہبر، چودھری رحمت علی: تاریخ ساز رہنما کے متعلق چشم کُشا حقائق، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 13نومبر2022ء)۔
محسن ِ ملک وملت چودھری رحمت علی نے ایک خوش حال زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولی، اندرون وبیرون ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم پائی، اپنا تن من دھن سب کچھ ’پاکستان‘ اور ’مسلم اُمّہ‘ پر وَاردیا اور دروغ برگردن ِ راوی، آخری دنوں میں اتنے مفلوک الحال تھے کہ اپنے معمولی ذاتی اخراجات کے پیسے تک نہ جوڑ پاتے تھے۔ Edward Welbourne نے لکھا ہے "اس بات پر میرا پختہ یقین ہے کہ جب تک انھوں (رحمت علی) نے اپنا پمفلٹ جاری نہیں کیا تھا، پاکستان کا مقصد (عوام وخواص کی) آنکھوں سے اوجھل تھا۔ انہوں نے ایک مسلم مملکت کے قیام کے لیے اپنی پو ری زندگی قر بان کردی۔
وہ اپنے کام کو سیاست نہیں مذہب کا حصہ سمجھتے تھے"۔ (خط بنام محمد انور 12مئی1964ء ، مطبوعہ ہفت روزہ ستلج، لاہور مؤرخہ 12فر وری1976ء۔ صفحہ نمبر 22)۔ اُن کے والد حاجی شاہ محمد پینتیس ایکڑ زمین کے مالک، زمین دار تھے اور گوجر قوم سے تعلق رکھنے والا یہ گھرانہ کم ازکم تین پشتوں سے اُسی جگہ مقیم تھا۔ اچھے وقتوں میں چودھری رحمت علی کا یہ حال تھا کہ بقول محترم خان نیازمحمد خان، ( اُن کے عزیز دوست)، چودھری رحمت علی کی شخصیت اور زندگی اِن آٹھ لفظوں میں بیان کی جاسکتی ہے: ’’خوش پوش، خوش کلام، خوش خور، خوش اطوار، جہاں دیدہ، مدبر، متین اور مَردُم شناس‘‘۔
ایک تاریخی مغالطہ: میرے ایک گزشتہ مضمون میں چودھری رحمت علی کی دو ریاستوں میں اتالیق کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے ذکر میں بیان ہوا کہ وہ ریاست روجھان (موجودہ ڈیرہ غازی خان، پاکستان) کے شہزادوں کے اتالیق رہے اور ایک صحافی نے بزرگ سیاسی رہنما سردار شیرباز خان مزاری سے انٹرویو لیا تو یہ بات لکھ دی کہ چودھری رحمت علی اُن کے اور اُن کے بڑے بھائی سردار بلخ شیر مزاری (سابق نگراں وزیراعظم پاکستان) کے اتالیق رہے تھے۔
شیرباز صاحب نے اُنہی دنوں سختی سے تردید کرتے ہوئے اس خاکسار کو بتایا تھا کہ وہ 1919ء میں تو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، البتہ اُن کے بڑے بھائی بلخ شیر، چودھری صاحب کے شاگرد رہے۔ پہلے میرے مضمون کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں پھر دوسرا اہم انکشاف:
{ریاست بہاول پور اور روجھان کے شہزادوں/ نواب زادوں کی تدریس بطور اتالیق [Tutor]: ایچی سن کالج (عُرف چیفس کالج)، لاہور میں، اُمَراء کے بچوں کی اتالیقی [Tutorship] کا منصب خالی ہوا تو نوجوان قائد نے اپنی اعلیٰ تعلیم (شعبہ قانون) جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ، اس پرفائز ہونے کی کوشش کی۔ انھیں اسلامیہ کالج ، لاہور کے پرنسپل Henry Martin کی سفارش پر، ایچی سن کالج کے پرنسپل نے باقاعدہ امتحان لینے کے بعد ریاست بہاول پور کے شہزادگان کا اتالیق مقرر کردیا۔ ایک سال تک یہ ملازمت جاری رہی، پھر 1919ء میں نواب بہاول پور کے شہزادے کی انگلستان روانگی کے بعد، انھیں روجھان (ڈیرہ غازی خان) کے نواب زادوں کی تعلیم کا فریضہ سونپ دیا گیا۔
پاکستان کے نہایت معتبر سیاسی رہنما، محترم شیرباز مزاری (مرحوم) کے چھبیس سال پہلے شایع ہونے والے، ایک اخباری انٹرویو میں بھی یہ انکشاف شامل تھا، چودھری رحمت علی اُن کے بڑے بھائی بلخ شیر مزاری (سابق نگراں وزیراعظم پاکستان) کے اتالیق تھے۔ اُنھی دنوں راقم نے ٹیلی وژن پروگرام ’ٹی وی انسائیکلوپیڈیا‘ کے محقق و مصنف کی حیثیت سے محترم شیرباز مزاری کو ٹیلی فون کال کی۔ انھوں نے خاکسار سے گفتگو کرتے ہوئے اس (مطبوعہ) انکشاف کی تردید کی کہ وہ خود بھی، چودھری رحمت علی کے شاگرد تھے (یعنی انٹرویو لینے والے صحافی کو مغالطہ ہوا تو انھوں نے دونوں بھائیوں کے نام لکھ دیے)۔ (چودھری رحمت علی نے 1923ء تا 1930ء روجھان کے نواب مزاری کے قانونی مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں)۔
انکشاف : سردارشیرباز خان مزاری مرحوم سے بھی سہو ہوا۔ اُن کے بڑے بھائی بلخ شیر مزاری8 جولائی 1928ء کو پیدا ہوئے تھے اور اُن کا انتقال 4 نومبر 2022ء کو ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پھر چودھری رحمت علی نے کن شہزادوں کی بطور اَتالیق تربیت کی تھی؟ خاکسار نے اپنے محدود ذرایع سے اس بابت سراغ لگانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے دور میں انگلستان روانگی سے قبل، بلخ شیرمزاری کو بھی اپنی قانونی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ ، تربیت دی ہو۔
عین ممکن ہے کہ روجھان کے زمانہ قیام میں، چودھری رحمت علی نے اپنے مجوز، آزاد مسلم ملک کے لیے منفرد نام’’پاک۔ستان‘‘ یا پاکستان وضع (Coin)کرلیا ہو اَور کسی سبب اسے کہیں لکھا یا کسی کو بتایا نہ ہو، لیکن اس بارے میں محفوظ ریکارڈ کے مطابق، چودھری رحمت علی کے دسمبر 1932ء میں، ایک مرتبہ لندن کی کسی بس کے سفر میں اُن پر عجیب روحانی کیفیت طاری ہوئی اور یہ نام ذہن میں اُبھرا۔