جب انسان کو کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ظاہری اسباب اختیار کرتا ہے، ظاہری اسباب اختیار کرنا اور مقدور بھر کوشش کرنا جائز ہے؛ لیکن ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ صرف ظاہری اسباب ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لے بلکہ وہ ظاہری اسباب کو اختیار کرے اور ان اسباب میں تاثیر اور کام یابی کے سلسلے میں اللّہ سے مدد طلب کرے اور اسی کو کارساز سمجھے، بے ایمان کی طرح نہ ہو کہ صرف ظاہری اسباب ہی پر کام یابی کو منحصر سمجھتا ہے اور خدا کی طرف جو کہ مسبب الاسباب، قادرمطق اور کارساز ہے بالکل متوجہ نہیں ہوتا ہے۔
حضور ﷺ نے بتایا کہ ظاہری اسباب ضرور اختیار کرو لیکن تمہارا یقین اوربھروسا اللّہ جل شانہ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ اسباب اختیار کرنے کے بعد دعا کرو کہ اے اللّہ میرے اختیار اور بس میں جو تھا وہ کرلیا، آپ ہی اسباب میں تاثیر پیدا کرنے والے اور ان تدبیروں کو کام یاب بنانے والے ہیں، لہٰذا میری تدبیروں کو کام یاب فرمادیجیے۔
اسی کی تعلیم حدیث پاک میں دی گئی ہے:
اللہم ھذاالجھد وعلیک التکلان ۔ اے اللہ میری طاقت میں جو کچھ (تدبیریں اور اسباب) تھا میں نے اختیار کیا آپ ہی پر بھروسا ہے آپ ہی اپنی رحمت سے اس مقصد میں کام یابی عطا فرمائیے۔
اللّہ تعالٰی نے اسباب اور تدابیر اختیار کرنے کی اجازت بلکہ حکم دیا ہے لیکن اسباب کی تاثیر اور تدابیر کی کام یابی اللّہ کے قبضہ قدرت میں ہے، لہٰذا انسان کی نگاہ صرف اسباب تک محدود نہ رہے بلکہ اسباب کے پیدا کرنے والی ذات پر ہونی چاہیے، ان اسباب میں تاثیر اور تدابیر میں کام یابی کی دعا کرے۔
رسول اللّہ ﷺ نے حضرات صحابہ کرامؓ کی تربیت اسی طرح فرمائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نگاہ ہمیشہ مسبب الاساب پر رہتی تھی۔ اس سلسلے میں حضرات صحابہ کرامؓ کے بے شمارواقعات کتب سیرت میں مذکور ہیں۔
صلٰوۃ الحاجات کی دعا اور طریقہ
کسی بھی ضرورت اور اہم کام پیش آنے پر اللّہ تعالٰی سے اس میں مدد اور آسانی مانگنے کی نیت سے کم سے کم دو رکعتیں ادا کرے۔ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں، اور نہ کوئی خاص طریقہ ضروری ہے، بلکہ عام نوافل کی طرح یہ بھی ایک نفل نماز ہے، تاہم بعض فقہاء کرام نے عشاء کے بعد پڑھنے کا فرمایا ہے، اور بعض احادیث میں خاص سورتوں کا بھی ذکر ہے، تاہم حسب سہولت کوئی بھی سورت پڑھ سکتا ہے، اور آخر میں حاجت کی تکمیل کے لیے خوب گڑگڑا کر اللّہ تعالٰی سے دعا بھی کرے۔
حدیث شریف میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللّہ تعالی سے یا مخلوق میں سے کسی سے کوئی حاجت در پیش آئے، تو وہ وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر یہ دعا پڑھے :
لا ِالہ اِلا اللہ الحلِیم الکرِیم، سبحان اللہِ ربِ العرشِ العظِیمِ، الحمد ِللّہِ ربِ العالمِین، اللہم اِنِی اسئلک موجِباتِ رحمتِک وعزائِم مغفِرتِک والغنِیمۃ مِن کلِ بِر والسلامۃ مِن کلِ اِثم، اسئلک ان لاتدع لِی ذنبا اِلا غفرتہ ولا ہما ِالا فرجتہ ولا حاجۃ ہِی لک رِضا ِالا قضیتہا لِی (ابن ماجہ، السنن، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب ما جا ء فی صلاِۃ الحاجۃ،171/2، 172، رقم : 1384)
ترجمہ: کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللّہ کے جو بردبار ہے، پاک ہے، وہ اللّہ جو عرش عظیم کا پروردگار ہے اور تمام تعریفیں اس اللّہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پالن ہار ہے۔
اے اللّہ! میں تجھ سے تیری مہربانی کو واجب کرنے والے، تیری بخشش کو مؤکد کرنے والے اعمال کی توفیق اور ہر نیکی سے بلامشقت کی کمائی اور ہر گناہ سے سلامتی مانگتا ہوں۔
اے اللّہ! میرے ہر گناہ کو بخش دے، اے نہایت رحم ومہربانی فرمانے والے! میری ہر فکر و پریشانی کو دور کردے اور میری ہر ضرورت وحاجت کو جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو پوری فرمادے۔
یہ دعا اللّہ کی وحدانیت، تقدیس، عظمت، قدرت اور ربوبیت پر مشتمل ہے۔ یہ دعا اللّہ کی وحدانیت، پاکی وتقدیس، عظمت اور قدرت، ربوبیت، گناہ پر فوری گرفت نہ کرنا اور بغیراستحقاق کے نوازنا اوراحسان نہ جتلانے والے اسمائے حسنٰی پر مشتمل ہے، لہٰذا ان اسما کی برکت سے ضرورتیں پوری ہوں گی، رکاوٹیں دور ہوں گی، دشواریاں آسان ہوں گی اور پریشانیاں زائل ہوں۔
مذکورہ طریقہ پر نماز پڑھ کر اپنی ضرورت خوب گڑگڑا کر اللّہ تعالٰی سے مانگے اور یہ عمل برابر کرتا رہے، یہاں تک کہ ضرورت پوری ہوجائے، یا دل مولٰی کی مرضی اور قناعت پر راضی ہوجائے، یہ سب سے بڑی دولت ہے۔
بندہ کی دعا ہر حال میں قبول ہوتی ہے یا اسی کے مثل کوئی دوسری چیز دے دی جاتی ہے یا عبادت بناکر نامے میں لکھ دیا جاتا ہے اور بندے کے دل کو مطلوبہ چیز کے نہ ملنے پر مطمئن کردیا جاتا ہے۔
اگر حاجت وضرورت کسی بندے سے متعلق ہو تو بھی مذکورہ عمل کرنے کے بعد اللّہ تعالٰی سے خوب عاجزی کے ساتھ دعا کرے، اے اللّہ! اس بندے کے دل کو میری ضرورت پوری کرنے پر آمادہ فرمادے۔
چوں کہ تمام بندوں کے دل اللّہ تعالٰی کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جدھر چاہتا ہے، پھیر دیتا ہے، پھر دعا سے فارغ ہوکر اس بندے کے پاس جائے اور اپنی ضرورت پیش کرے، اگر ضرورت پوری ہوجائے تو اس بندے کا بھی شکر ادا کرے اور اللّہ کا بھی شکر ادا کرے اگر ضرورت پوری نہ ہوتو سمجھے کہ اللّہ کی مرضی نہیں ہے، اللّہ تعالٰی حاجت روائی کا کوئی دوسرا انتظام فرمائیں گے۔
صلوۃ الحاجات کی مصلحت وحکمت
اللّہ تعالٰی سے دعا مانگنے سے پہلے نماز پڑھنے سے اللّہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، نماز اور خدا کی حمدوثنا کے بعد دعا کرے گا، تو ضرور کام یابی ملے گی اور ضرورت پوری ہوگی۔
اگر حاجت وضرورت کسی بندے سے متعلق ہو تو نماز اور دعا کے بعد اس کے پاس جانے کی دو حکمتیں ہیں
پہلی حکمت: کسی بندہ سے ضرورت پوری کرنے کی درخواست کرنا غیراللّہ سے مدد اور استعانت ہے۔ مدد اوراستعانت صرف اللّہ سے طلب کرنا چاہیے، جب بندہ کسی بندے کے سامنے اپنی ضرورت پیش کرے گا تو گویا وہ غیراللّہ سے مدد طلب کررہا ہے۔
اس لیے شریعت نے صلوۃ الحاجات اور اس کی دعا کی تعلیم دی تاکہ بندے کے عقیدے کی حفاظت ہوسکے۔ اس لیے کہ اگر اس بندے نے اس کی ضرور ت پوری کردی، تو یہ سمجھے گا کہ اسی نے میری ضرورت پوری کی ہے حالاںکہ اللّہ تعالٰی ہی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اللّہ تعالٰی ہی نے اس بندے کے دل کو اس کی طرف متوجہ کیا اور اس کی حاجت روائی پر آمادہ کیا ہے یہ یقین کی کمی اور فسادعقیدہ ہے۔
اگر بندہ نمازودعا کے بعد کسی بندے کے پاس جائے گا اور وہ اس کی ضرورت کو پورا کر بھی دے تو ذہن نماز، دعا اور اللّہ کی توفیق اور اس کی آسانی کی طرف متوجہ ہو گا کہ اللّہ نے اپنے فضل ومہربانی نمازودعا کی برکت سے میری ضرورت پوری فرمادی اور اس کے دل کو نرم اور میری طرف متوجہ کیا ہے۔
اگر وہ بندہ اس کی ضرورت پوری نہ کرے تو یہ سمجھے گا کہ شاید ضرورت پوری نہ ہونے میں اللّہ کی کوئی مصلحت ہے۔ یہ یقین اور عقیدے کی حفاظت ہے۔
دوسری حکمت: کسی ضرورت کا پیش آنا اور کسی کے پاس جانا یہ دنیوی معاملہ ہے۔ شریعت چاہتی ہے کہ دنیوی معاملہ بھی عبادت بن جائے، اس لیے صلٰوۃ الحاجات کو مشروع کیا ہے۔ ملخص تحفۃ الالالمعی 333/2)) نوٹ: ائمہ اربعہ کے نزدیک صلوۃ الحاجات مستحب ہے۔
ہر ضرورت کے لیے صلٰوۃالحاجات پڑھی جائے
ہر ضرورت اور پریشانی کے وقت صلٰوۃ الحاجات پڑھنا اور اللّہ سے مدد طلب کرنا یہ رسول اللّہ ﷺ کی سنت ہے۔
کان النبی ﷺ اذاحزبہ امر صلی۔ (سنن ابی داؤدباب قیام النبی من اللیل187/1)
جب بھی حضوراقدس ﷺ کو کوئی تشویش کا معاملہ پیش آتا، کوئی پریشانی لاحق ہوتی، توآپ سب سے پہلے نماز کی طرف دوڑتے۔
صلوۃالحاجت پڑھنے کے بعد پھر دعا کرے: اے اللّہ! یہ مشکل آگئی ہے، آپ اس کو دور فرمادیجیے، لہٰذا ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقاصد میں کام یابی اور اسباب کے بجائے مسبب الاسباب پر یقین وایمان کی زیادتی کے لیے صلٰوۃ الحاجات کا خوب اہتمام کریں۔ اگر نماز کا موقع یا وقت نہ ہو تو دعا کریں اور حدیث میں مذکور دعا بھی پڑھیں۔ اپنی ہر ضرورت کو اللّہ کے بارگاہ میں پیش کرے۔ خواہ وہ ضرورت چھوٹی ہو یا بڑی ۔
رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا: تم ہر ضرورت کو اللّہ سے مانگو، یہاں تک کہ نمک کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی اللّہ سے مانگو، اگر تمہارے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو بھی اللّہ تعالٰی سے مانگو۔ (ترمذی ابواب الدعوات201/1)
چھوٹی ضرورت بڑی ضرورت بندوں کے نزدیک ہے۔ اللّہ تعالٰی کے نزدیک سب برابر ہیں اللّہ کے نزدیک ہر کام چھوٹا اور اس کے لیے ہر کام آسان ہے۔
پریشانیوں کے موقع پر ہمارا طریقۂ کار
حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں: آج ہم میں سے ہر شخص پریشان ہے۔ ہر گھر میں پریشانی ہے۔ کوئی اندیشوں کا شکار ہے، کسی کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہیں، زمینی آسمانی مصائب وشدائد کا ابتلا ہے۔ ہماراحال یہ ہے کہ صبح سے شام تک جہاں دوچار آدمی جمع ہوئے تبصرے شروع کردیے، فلاں نے اس طرح کیا، فلاں سے کوتاہی ہوئی، حکومت نے یہ غلطی کی، ان تدابیر میں کمی ہوگئی، ذرائع ابلاغ، واٹس ایپ اور یوٹیوب پر نگاہ جمائے رہتے ہیں۔ خدا کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے اور غفلت میں وقت گزارا کرتے ہیں۔ تبصروں میں کتنوں کی غیبت ہوتی ہے، کتنوں پر بہتان لگایا جاتا ہے۔ کاش ہم پریشانیوں کے وقت خدا کی طرف رجوع کرتے۔ تبصروں سے وقت کے ضائع ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا، تبصروں سے ہماری مجلسیں آباد رہتی ہیں، اللّہ کی طرف رجوع اور گڑگڑانے کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
کا ش! ہم دودو رکعت صلٰوۃ الحاجات پڑھ کر امت کے لیے، انسانیت کے لیے تڑپ کر مصائب وشدائد اور پریشانیوں کے رفع وازالے کی دعائیں کرتے اور جو مناسب تدبیریں ہوں ان کو اختیار کرتے اور جن تدبیروں کو اختیار کیا جائے ان کی کامیابی کی دعا کرتے۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کو ضرورتوں اور پریشانیوں کے موقع پر خدا کی طرف رجوع کرنے اور تضرع وعاجزی کرنے کی توفیق ملتی ہے اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللّہ! اپنی رحمت سے ہماری ضرورتوں کو پورا کردیجیے۔ اے اللّہ! مصیبتیں ہم پر مسلط ہیں، ہمارے گناہوں کا وبال ہیں، اے اللّہ اپنی رحمت سے دور فرما دیجیے۔ (مستفاد اسلام اور ہماری زندگی146/2)
پریشانیوں کے ازالے کا ایک نبوی وظیفہ
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں رسول اللّہ ﷺ غم، ٹینشن اور پریشانیوں کے موقع پر یہ دعا پڑھتے تھے۔
لا اِلٰہ ِالا اللّہ العظِیم الحلِیم، لا اِلہ اِلا اللّہ رب السمواتِ والارضِ، ورب العرشِ العظِیم (رواہ البخاری کتاب الدعوات باب الدعا عندالکرب:2/393،رقم :4325)
نسائی شریف کی روایت میں مذکور ہے کہ حضرت علی ؓنے فرمایا: رسول اللّہ ﷺ نے فرمایا: اے علی! جب تم پرکوئی مصیبت یا پریشانی آئے، تو مذکورہ دعا پڑھو۔ علامہ طبری فرماتے ہیں: اکابر اس دعا کو دعاء الکرب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
علاومہ نوویؒ شارح مسلم فرماتے ہیں: پریشانیوں اور مصیبتوں کے اوقات میں اس دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، یہ نہایت مجرب دعا ہے۔ (فتح الباری148/11)
موجودہ حالات انتہائی مشکل ہیں، ہمیں چاہیے کہ باربار دودورکعت سورتوں کی تعیین کے بغیرصلٰوۃ الحاجات پڑھیں، پوری انسانیت بطورخاص امت مسلمہ کے لیے گڑاگڑکر دعائیں کریں اور چلتے پھرتے دعائے کرب کا خوب اہتمام کریں۔ اللّہ تعالٰی ہم سب کو، ساری انسانیت کو بطورخاص امت مسلمہ کو تمام دنیوی دینی پریشانیوں اور آفتوں سے عافیت وسلامتی نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)