کوچۂ سخن
غزل
حروف جتنے ہماری غزل میں آتے ہیں
کشید کرتے ہیں خونِ جگر تو لاتے ہیں
جلا دیں کشتیاں ہم نے تو پھر کھلا ہم پر
محبتوں میں سفر رائیگاں بھی جاتے ہیں
ہمارے شہروں میں فقدان روشنی کا ہوا
دیا جلانے ہی والے دیا بجھاتے ہیں
اسی لیے تو کھٹکتے ہیں حکمرانوں کو
ہنر سوال کا بچوں کو ہم سکھاتے ہیں
سیاہ شب میں اگر تیرگی سے بچنا ہو
دیے خیال کے ہم اہلِ دل جلاتے ہیں
شکم کی آگ نے جھلسا دیا بدن سارا
وگرنہ ہم بھی کئی معجزے دکھاتے ہیں
دعاؤں سے تو یہ شیرازؔ بن نہیں پاتا
چلو کہ خود ہی کوئی راستہ بناتے ہیں
(شیراز جعفری۔ سکھر)
غزل
نہ کوئی حل نہ مسائل پہ غور ہوتا ہے
اکٹھے ہوں تو یہاں صرف شور ہوتا ہے
کچھ اس طرح کا بہم ارتباط ہے قائم
وہ شخص چاند تو یہ دل چکور ہوتا ہے
یہ راہبر نہیں بہروپیے ہیں، ان کا چلن
بظاہر اور پسِ پردہ اور ہوتا ہے
پھر ایک نان پہ بھوکا جھپٹ پڑا ہوگا
گلی میں پھر سے کوئی چور چور ہوتا ہے
پلٹ رہی ہیں وہ یادیں میں کھو چکا تھا جنھیں
مرا دماغ ابھی ریسٹور ہوتا ہے
زمانہ کیا ہمیں جینے کا ڈھب سکھائے گا
کہ ہم فقیروں کا اپنا ہی طور ہوتا ہے
کہیں بھی یہ دلِ مضطر نہ خوش ہوا صادقؔ
اداس اکیلا تو محفل میں بور ہوتا ہے
محمد ولی صادقؔ (کوہستان لوئر)
غزل
میں کیا بتائوں کہ دنیا سوال کرتی ہے
فسوں نگاہی تمھاری کمال کرتی ہے
یہ شوقِ دشت نوردی تو کوئی شوق نہیں
پرائی ریت ہے یہ پائمال کرتی ہے
تمھاری یادسے لیتا مدد ہوں اٹھنے کو
عجیب سوچ مجھے جب نڈھال کرتی ہے
میں کیا کروں کہ مجھے خوف ہے اسی کا اب
وہ اک پری جو مری دیکھ بھال کرتی ہے
میں اس لیے بھی تو گردش کو خیر جانتا ہوں
یہ کائنات کی رو بھی دھمال کرتی ہے
اسی کی آگ سے روشن جہان ہے میرا
وہ سردیوں میں بدن پر جو شال کرتی ہے
خوشی میں رقص کرو اور غم میں گریہ کرو
خوشی غمی تو روابط بحال کرتی ہے
قمرؔ ،کسی کو تو کرتی نہیں ہے خوش بھی، خوشی
کسی کو گریے کی عادت نہال کرتی ہے
(قمر نیاز۔ ملتان)
غزل
بڑی مشکل سے کی تھی یار ہمت تجھ کو کھونے کی
بتا کیا شرط ہے تیر ی ذرا نزدیک ہونے کی
چلے آتے ہیں تیرے گاؤں جب یہ دل تڑپتا ہے
ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے مجھ کو رونے دھونے کی
خوشی سے سر جھکا لیتا ہوں جب یہ یاد آتا ہے
مری ماں نے نصیحت کی تھی مجھ کو مٹی ہونے کی
کوئی بے چینی لاحق ہے کہ آنکھیں بند بھی کر لوں
دوائی لینی پڑتی ہے مجھے کچھ دیر سونے کی
تمہارے بعد اِس دل میں نہیں آیا کوئی بھی شخص
نہیں ہمت بچی کاملؔ اذیت اور ڈھونے کی
(عظیم کامل ۔جام پور)
غزل
بجھی آتش محبت کی دہکنا چھوڑ دیں گے ہم
تمھارے دل سے گر اترے چمکنا چھوڑ دیں گے ہم
مقدر سے ہمارے کر کے چوری ایک دن جی لو
قسم رب کی جو نہ تڑپو تڑپنا چھوڑ دیں گے ہم
بدن کی شاخ سے اشکوں کی نہریں سوکھ جائیں گر
تو جل جائیں گے پل بھر میں سلگنا چھوڑ دیں گے ہم
بتا معراج ہے کیا حضرت انساں تری آخر
ترقی اتنی کر لے گا کہ مرنا چھوڑ دیں گے ہم
تمھارے روٹھ جانے کا یہ ڈر دل سے نہیں جاتا
کرو شیریں لبوں سے دم تو ڈرنا چھوڑ دیں گے ہم
دعا ہر روز اشکوں سے بدن پر لکھتے جاتے ہیں
کبھی منظور جب ہوں گی سسکنا چھوڑ دیں گے ہم
بہکتے ہیں تری آنکھوں سے پی کر اے جمال یار
جو بانہوں میں چلے آؤ بہکنا چھوڑ دیں گے ہم
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)
غزل
قید فرقت نے رلایا آج پھر
کوئی دل کو یاد آیا آج پھر
بجھ رہے تھے اس کی یادوں کے چراغ
خوں سے ان کو ہے جلایا آج پھر
بے وفائی کا نہ کیوں الزام دوں
اس نے نظروں کو چرایا آج پھر
کون کس کے واسطے ہے مر رہا
اس کو ہے باور کرایا آج پھر
آج کی شب بھی رہیں نیندیں حرام
عشق نے جلوہ دکھایا آج پھر
اس سے امیدِ وفا نازشؔ ہو کیوں؟
بے رخی نے منہ چڑایا آج پھر
(اے آرنازش ۔فیصل آباد)
غزل
ہوئی جس پر سدا مشقِ ستم، ہم تھے
رکھے جس پھول پرتم نے قدم، ہم تھے
یہ کہہ کر اشک پلکوں سے گرے نیچے
وفا میں سر ہوئے جن کے قلم، ہم تھے
مرے مٹنے سے ہوتی ہے خوشی تم کو
تری وحشت کے تھے جن پرکرم، ہم تھے
ہٹانا مت ہمارے شانے سے زلفیں
رکھے جس نے سدا تیرے بھرم، ہم تھے
نہ تم کو ہو کبھی رسوائی کا خدشہ
وفاکی جس نے کھائی تھی قسم، ہم تھے
ستم سہتے ہوئے جعفرؔ نہیں ڈرتے
سہے ہنس کرسدا جس نے ستم، ہم تھے
(اقبال جعفر۔ وادیِ دُرگ)
غزل
بے آبلہ مسافر! عزت نہیں ملے گی
یوں بزمِ قیس میں بھی شرکت نہیں ملے گی
ملتی ہے تو فقط دو جسموں کو یہ سہولت
دو دل جدا ہوئے تو، عدت نہیں ملے گی
خیرات میں لے آیا ہوں دیکھ یہ محبت
تو کہتا تھا کسی بھی قیمت نہیں ملے گی
میرے مزاج کی وہ زخمی غزال ہے بس
میری کسی اور سے فطرت نہیں ملے گی
دل، تیری یاد کے دفتر کا پرانا نوکر
یہ خوب جانتا ہے، رخصت نہیں ملے گی
تم جانتے نہیں ہو کیا رحل و نوک میں فرق
نسخے کو پھر سے ویسی قرأت نہیں ملے گی
یہ عشق ہم نے واجب تبلیغ کر دیا تھا
اب شہر میں جفا سی بدعت نہیں ملے گی
وہ پاس ہے تو قربت میں طول مانگ ساگرؔ
صحبت کو بارِ دیگر فرصت نہیں ملے گا
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)
غزل
ہنر سے کیا نہیں ملنا کسی کو دیکھنا تم
پر ایک سا نہیں ملنا کسی کو دیکھنا تم
ہماری نیکیاں دریا کا پیٹ بھرتی ہیں
کوئی صلہ نہیں ملنا کسی کو دیکھنا تم
قبول کر لیا اوّل کو آخری سمجھا
کہ دوسرا نہیں ملنا کسی کو دیکھنا تم
تباہ ہوتی زمیں کی قسم خلا بازو
وہاں خدا نہیں ملنا کسی کو دیکھنا تم
(توحید زیب۔ رحیم یار خان)
’’یادیں ‘‘
تیری میری شرارتوں کے دن
کتنے اچھے تھے بارشوں کے دن
اب بھی بھولے سے یاد آتے ہیں
ہم کو تیری عنایتوں کے دن
پھر وہی سلسلے چِراغوں کے
وہ ہوا سے گزارشوں کے دن
بات بے بات بس بگڑ جانا
جھوٹی موٹی عداوتوں کے دن
مول مانگا گیا تھا سجدوں کا
کیا ہوئے وہ عبادتوں کے دن
جان دینا ترے اشاروں پر
وہ ہماری سخاوتوں کے دن
(خالد سروہی۔ جدہ، سعودی عرب)
غزل
گریز پا بھی رہا، ساتھ ساتھ چلتا رہا
قدم قدم پہ وہ جو راستے بدلتا رہا
میں اس کا ہاتھ بھلا کیسے چھوڑ سکتا تھا؟
بچھڑ کے دیر تلک اپنے ہاتھ ملتا رہا
مجھے ہواؤں کی تندی بجھا نہیں پائی
چراغ آخر شب تھا، ہوا میں جلتا رہا
مجھے خبر ہی کہاں تھی کہ وہی ڈس لے گا
جو کئی برس میری آستیں میں پلتا رہا
ذرا سی بات تھی، بڑھ کر اسے منا لیتا
انا کا فیصلہ تھا، فاصلوں میں ڈھلتا رہا
(شہباز اکبر الفت۔ لاہور)
غزل
یہ وہ زمیں ہے جہاں سایہ آسماں کا ہے
یہ آسماں بھی تو لیکن میرے خدا کا ہے
یہ آدمی مجھے اس شہر کا نہیں لگتا
یہ آدمی تو کسی شہرِ پارسا کا ہے
مجھے یہ علم ہے مجھ پہ بلا کا سایہ ہے
بلا بھی یہ کہ ارادہ میرا وفا کا ہے
نہ طور ہے نہ تجّلی نہ حسنِ یوسف ہے
یہاں حسین، نہ میدان کر بلا کا ہے
وہ اب بھی کہتا ہے ارسلؔ کہ با وفا ہوں میں
یہ چھوڑنے کا ہنر یارِ بے وفا کا ہے
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
غزل
ڈھونڈے سے بھی ملتے نہیں کردار کے غازی
بستے ہیں اسی شہر میں گفتار کے غازی
دورانِ محبت کڑی ساعت سے گریزاں
اس دور کے عشّاق ہیں دیدار کے غازی
پڑھتے نہ تراویح نہ رکھے کوئی روزہ
کچھ لوگ یہاں ہیں فقط افطار کے غازی
کوئی بھی نہیں، لے جو یہاں کام عمل سے
اس ملک کے افراد ہیں افکار کے غازی
یہ حال ہمارا ہے، جو کرتے بھی ہیں وعدہ
پھر وقتِ مقرّر پہ ہیں انکار کے غازی
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی