بُک شیلف

ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ

انقلاب جو آچکا ہے

مصنف: ڈاکٹر منظور اعجاز، قیمت:350 روپے، صفحات:167

ناشر: سلیکھ وچار، سیکنڈ فلور مدینہ ٹاور، فیروز پور روڈ، لاہور (03004430626)

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کے پروان چڑھنے میں صدیاں لگیں، جنگلوں اور غاروں میں رہنے والا انسان وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن سے آشنا ہوا اور معاشرتی رسم و رواج ترتیب پانے لگے، زندگی گزارنے کے قوانین وضع کئے گئے یوں موجودہ نظام معاشرت وجود میں آیا ۔ پھر ہمارا یہ نظام جدیدیت سے آشنا ہوا اور پرانے رسم و رواج کی جگہ نئی روایات نے لے لی، یوں آج سے پچاس سال پہلے اور آج کے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق نمایاں ہو چکا ، اگر کوئی یہ کہے کہ ایسا کیوں ہوا تو اس کا مختصر سا جواب ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز بدلتی ہے تو پھر معاشرہ کیوں نہیں بدلے گا ۔

زیر تبصرہ کتاب مصنف کے کالموں پر مشتمل ہے جو گاہے بگاہے اخبارات کی زینت بنتے رہے، ان کا قلم معاشرے کی بدلتی روایات کی وجوہات اور نئے رجحانات کو بڑی باریک بینی سے سب کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ جیسے ’بابا گورونانک ، فکری ارتقاء کی اہم کڑی ‘ میں تاریخی حوالے کی ایسی کڑیاں ملاتے ہیں کہ قاری کے لیے فکر کے نئے در وا ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ پنجاب میں بابا فرید شکر گنج کے بعد تقریباً تین صدیوں تک ہمیں کسی بڑے شاعر یا فلسفی کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ فکری بنجر پن کا دور خود ایک سوال ہے کہ اتنے افکار تک بھی ہماری رسائی گورونانک جی کی عطا کردہ ہے جنھوں نے ان کے کلام کو ترتیب دیا اور گورو ارجن دیو نے اسے گور گرنتھ صاحب میں شامل کر کے ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ، بابا فرید کے کلام کو سکھ مت کے پیروکاروں نے زندہ رکھا ہے جسے وہ فرید بانی کہتے ہیں اور اس کو تواتر کے ساتھ گوردواروں میں گایا جاتا ہے ۔

ان کی تحریر سے ایسے ہی فکر کے زاویے عطا ہوتے ہیں ۔ مصنف کی دیگر تصانیف میں وارث نامہ، رانجھن یار نظماں، وارث شاہ دی مڈھلی وچار دھارا تے پنجابی ریت ، رو میں ہے رخش سفر اور دیگر شامل ہیں ۔ معاشرتی نظم اور مسائل کو سمجھنے کے لئے قارئین اسے ضرور پڑھیں، بہت شاندار کتاب ہے ۔

ہومیو پیتھک میڈیکل سائنس

مصنف: ڈاکٹر لطیف جاوید، قیمت:1100روپے، صفحات :184

ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014208780)

اگر کوئی شخص بے ضرر ہو یعنی نہ اس کا فائدہ ہو نہ ہی نقصان تو اس کے بارے میں عموماً یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ وہ تو ہومیوپیتھک ہے نہ فائدہ نہ نقصان ۔ حالانکہ یہ محاورہ بالکل غلط ہے کیونکہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے اور بہت سی ایسی بیماریوں کا علاج بھی موجود ہے جن کا علاج ایلوپیتھک میں نہیں ہے ۔

نامور ادیب و دانشور ممتاز مفتی اپنی آب بیتی میں لکھتے ہیں کہ جب ان کی پہلی بیوی دوران حمل سخت بیمار ہوئی اور ڈاکٹروں نے انھیں جواب دیدیا تو انھیں کسی نے مشورہ دیا کہ ہومیوپیتھک علاج کرائیں ، انھوں نے ایسا ہی کیا ، وہ حیران رہ گئے کہ ان کی بیوی جس کے علاج سے ڈاکٹر عاجز آ گئے تھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر نے معمولی دوا سے اسے ٹھیک کر دیا یوں ممتاز مفتی اس طریقہ علاج سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسے معجزانہ طریقہ علاج قرار دیدیا اور اس پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ۔

زیر تبصرہ کتاب کے مصنف کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی جب ان کے کزن کا علاج ڈاکٹروں سے نہ ہو سکا تو ہومیوڈاکٹر نے ان کا علاج کیا یوں وہ بچپن میں ہی اس طریقہ علاج سے متاثر ہوئے ، پھر جب ان کی شریک حیات ایلوپیتھک علاج سے بہتر نہ سکیں تو ان کا علاج بھی ہومیو ڈاکٹر نے کیا ۔ یہی چیز لطیف جاوید کو ہومیوپیتھک کے میدان میں لے آئی اور وہ ہومیوڈاکٹر بن گئے ۔

اس کتاب میں انھوں نے ہومیوپیتھک طریقہ علاج پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ کہتے ہیں کہ ہومیو پیتھک سے متاثر ہونے کے بعد خود ہومیوپیتھک کتابوں کا مطالعہ کیا حتیٰ کہ پریکٹس بھی کی جس کے خاطرخواہ نتائج نکلے، یوں ہومیوپیتھک میں باقاعدہ داخلہ لے کر ڈپلوما حاصل کیا پھر اسی کالج میں پڑھانے لگے، پھر مزید کہتے ہیں ’’ اب میرے سامنے سوال یہ نہ تھا کہ ہومیو دوائی کام کرتی ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ بے چین کر رہا تھا کہ اتنی قلیل مقدار میں یہ دوائی کیوں اور کیسے کام کرتی ہے؟‘‘

کتاب کو پانچ ابواب انسانی جسم کا مختصر تعارف، تاریخ اور تعارف ہومیوپیتھی ، ہومیوپیتھک علاج اور سائنس، ہومیو پیتھک میڈیکل سائنس اور علاج بالمثل کا جہان نو میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کے بانی ڈاکٹر ہنی مین کی زندگی پڑھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ ایلو پیتھک ڈاکٹر ہوتے ہوئے وہ اس طرف کیسے آئے اور انھوں نے کیسے یہ طریقہ علاج دریافت کیا ہے ۔ بہت شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کریں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

خواجہ آفتاب حسن کے افسانوں کے مجموعہ’’خالی سڑک ‘‘ کی لاہور پریس کلب میں پروقار تقریب رونمائی

 لاہورکو باغوں اور ادب کاشہر کہا جاتا ہے۔ باغ جناح کے سوا تاریخی باغات بھی رفتہ رفتہ زمانے کی ترقی اور جدیدیت کی بھینٹ چڑھ چکے۔ لیکن الحمداللہ آج بھی یہ شہر فنون لطیفہ اورادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ شہرمیں ہرروز کوئی نہ کوئی ادبی تقریب منعقد ہوتی ہے اورجس میں ادیب، شاعر حضرات، دانشور مختلف موضوعات پر اظہار خیال فرماتے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت میں مختلف ادبی تنظیمیں بھی متحرک دکھائی دیتی ہیں جو گاہے بہ گاہے نئی شائع ہونے والی کتب کی تقریبات رونمائی میں پیش پیش ہیں۔ لاہورپریس کلب میں صحافت کے ساتھ ساتھ ادب کی جس قدر نمو و پذیرائی دیکھنے کو ملتی ہے وہ پاکستان کے کسی اورصحافتی مرکز میں نظر نہیں آتی ۔ گئے دنوں صحافی اور ادیب خواجہ آفتا ب حسن کی تیسر ی کتب’’ خالی سڑک ‘‘ کی تقریب رونمائی لاہور پریس کلب کے نثارعثمانی ہال میں منعقد ہوئی۔ افسانوں کا یہ مجموعہ سانجھ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہو کر ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔

وقت مقررہ سے قدرے تاخیر سے شروع ہونے والی تقریب لاہور پریس کلب لائبریری کمیٹی کے زیراہتمام منعقدکی گئی۔ تقریب کی صدارت معروف فکشن رائٹر محمد حفیظ خان نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں صدر لاہورپریس کلب ارشد انصاری، معروف ادیبہ نیلم احمد بشیر، ادیب وشاعر ڈاکٹرغافر شہزاد، شاعرہ وناول نگار ڈاکٹر شاہدہ دلاو رشاہ ، فکشن رائٹر عبدالوحید اور سینئر صحافی نوید چودھری تھے۔ تقریب کی نظامت سینئر صحافی تمثیلہ چشتی اور ماہ رخ نے کرنی تھی تاہم تمثیلہ چشتی کی طبیعت کی خرابی کے باعث یہ ذمہ داری ہنگامی طور پر سینئر صحافی ندیم شیخ نے اداکی۔

تلاوت کلام پاک کی سعادت عقیل چشتی نے حاصل کی، بعدازاں انہوں نے اپنی انتہائی خوبصورت آواز میں نعت پیش کر کے سماں باندھ دیا۔ سٹیج پر موجود صاحب صدارت اور مہمانان خصوصی نے میز پر خوبصورتی سے سجائی گئی گلابوں کی پتیوں میںگہرے پنک رنگ کے چمکدار کور میں لپٹی کتاب ’’ خالی سڑک ‘‘ کو جب کھولا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ میزبان ندیم شیخ نے ’’ خالی سڑک ‘‘ کے خالق خواجہ آفتاب حسن کے بارے میں بتایا کہ لاہور پریس کلب کے نثارعثمانی ہال میں ایک ایسے صحافی ،ادیب ،کالم نگار ،خاکہ نگار،فیچر رائٹر کی تیسری کتاب کی تقریب رونمائی ہونے جا رہی ہے جس کی 34 سالہ صحافتی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت میڈیا ورکرز اور عامل صحافیوں کے حقوق کا حصول رہا اور عملی صحافت کے ساتھ ساتھ اسی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کیا۔ اپنی سوچ کے اعتبار سے ایک سچے اورکھرے ٹریڈ یونین لیڈ ر خواجہ آفتاب حسن کو صحافیوں کے حقوق کی علمبردارتنظیم پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا تین مرتبہ جنرل سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔

شرکاء محفل میں سب سے پہلے اظہار خیال کے لیے سینئر صحافی،متعدد کتابوں کی مصنفہ اورمعروف شاعرہ محترمہ پروین سجل کو دعوت دی گئی۔ پروین سجل نے کہا ’’کوئی بھی کہانی ایسے ہی نمودار نہیں ہوتی جیسے کہ ’’ خالی سڑک‘‘ خواجہ آفتاب حسن کے افسانوں کی کتاب ہے جسے پڑھتے ہوئے معاشرے کا دکھ دل میں اترتا محسوس ہوتا ہے،مصنف کے مشاہداتی تجربے میں ادب کا قاری معاشرے کے استبدادی رویوںکی کڑواہٹ کے پہلو بدلتا رہ جاتا ہے۔‘‘ سماجی رہنما سمیرا بتول نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ محترم خواجہ آفتا ب حسن کی تحریر باریک بینی،حقیقت کے موضوعات میں پنہاںہے۔’’خالی سڑک‘‘ میں روزمرہ زندگی کے مسائل کو بہ خوبی اجاگر کیا گیا ہے۔

سٹیج سے اظہارخیال کرنیوالوں کی ترتیب صدر لاہور پریس کی اچانک مصروفیت اور سینئر صحافی نوید چودھری کی ایک ضروری میٹنگ میں شرکت کے باعث بہ امرمجبوری تبدیل کرنا پڑی۔ارشد انصاری نے خواجہ آفتا ب حسن کو تیسر ی کتاب پرمبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ لاہور پریس کلب کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اس کے ممبران کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ میر ی دعا ہے کہ خواجہ آفتاب حسن اسی طرح لکھتے رہیں۔ سینئر صحافی نوید چودھری کا کہنا تھا کہ ایک دور تھا جب صحافی ہونے کے لیے ادیب ہونا ضروری تھا،وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بدل گیا اورآج ہمیں ایسے صحافی خال خال ہی ملتے ہیں جو ادیب بھی ہوں۔ خواجہ آفتاب حسن ان میں سے ایک ہیں۔

فکشن رائٹر عبدالوحید نے ’’خالی سڑک ‘‘ پر لکھے اپنے مضمون’’خواجہ آفتاب حسن کا موضوعاتی اور تکنیکی تنوع‘‘ میں کہا کہ خواجہ آفتاب حسن کے افسانوں کا مجموعہ "خالی سڑک " پڑھتے ہوئے ایک بات باعث اطمینان اور دلچسپ رہی کہ خواجہ آفتاب حسن موضوعاتی اور تکنیکی اسیری نہیں کاٹ رہے، بل کہ جس موضوع نے بھی ان کو اپنی طرف متوجہ کیا یہ اْسے اپنی گرفت میں لے آئے اور جس موضوع پر بھی اْنھوں نے لکھنا چاہا اْسے کسی ایک ہی طریقے سے لکھنے کے بجائے اْسے لکھنے کا بہترین راستہ ڈھونڈا۔ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ خواجہ آفتاب حسن اپنے موضوعات اور تکنیک میں آزاد ہے۔ خواجہ آفتاب حسن کو منفرد بنانے والا ان کا مختلف نوعیت کا طریقہ اظہار ہے ۔اس کتاب کے افسانے پڑھ کر ہم امید کرسکتے ہیں کہ خواجہ آفتاب حسن مستقبل میں بھی بہترین فکشن تخلیق کریں گے۔

معروف ناول نگار اورشاعرہ محترمہ ڈاکٹردلاور شاہ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ عموماً ہم ہر تحریر کو اہم نہیں سمجھتے کیوں کہ عمدہ ذوق کے حامل قاری کا اپنا ایک الگ معیار بن جاتا ہے، خواجہ آفتا ب کے افسانوں کو پڑھ کر قطعی احساس نہیں ہوتا کہ یہ ادب کی دنیا میں نئے ہیں۔ ’’خالی سڑک‘‘ ان کی پہلی درتخلیقات سے قطعی طور پر مختلف اور ادب کے حوالے سے نہایت عمدہ تخلیق ہے۔

افسانے کا ہرکردار اس عمدگی کے ساتھ سینچا گیا ہے کہ کورونا جیسی عالمی وباء پر لکھے گئے افسانے شمشان گھاٹ، موت کافرشتہ ،گورکن ہو یا پھر خالی ٹرک ہرکردار حقیقی زندگی کی تلخی لیے جیتا جاگتا محسوس ہوتاہے۔ معروف ادیب اور شاعر ڈاکٹر غافر شہزاد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے ’’خالی سڑک ‘‘ کا دیباچہ لکھنے کا موقع ملا اور جب اس کتاب کا مسودہ میرے سامنے آیا تو میں حیران ہوگیا کہ ایک صحافی اس عمدگی سے ادب بھی تخلیق کر سکتا ہے کہ جس میں صحافت کا شائبہ تک نہ ہو۔ معروف ادیبہ محترمہ نیلم احمد بشیرنے اپنے مضمون بہ عنوان ’’ خالی سڑک پر بکھری کہانیاں‘‘ میں لکھا کہ پچھلے دنوں افسانوں کی ایک نئی کتاب ’’خالی سڑک ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو ایک خوشگوار حیرت نے دامن تھام لیا۔ توگویا اچھا افسانہ اب بھی لکھا جا رہا ہے اورلوگ کہتے ہیں کہ جی اچھا ادب تخلیق نہیں ہو رہا وغیرہ وغیرہ، بھئی آپ پڑھ کر تو دیکھیں، اچھا ادب نہ صرف تخلیق ہو رہا ہے بل کہ بڑی خوبصورتی سے پنپ بھی رہا ہے ۔

’’خالی سڑک‘‘ کی کہانیاں گوکہ غیرمعمولی نہیں ،عام زندگی سے ہی کشید کی گئی ہیں مگر موضوعات ضرور اچھوتے اور انوکھے ہیں،تحریریں اپنے اندر کئی رنگ اورکئی ڈھنگ سموئے ہوئے ہیں ۔ میزبان کی جانب سے ’’خالی سڑک ‘‘ کے خالق اور تقریب کے دلہا خواجہ آفتا ب حسن کو دعوت خطاب دیا گیا جنہوں نے تقریب کے تمام شرکاء بالخصوص سٹیج پر بیٹھی شخصیات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تو بس لکھا لیکن آپ سب ماہرین ادب کے میرے کام کے حوالے سے جو خیالات سننے کو ملے یہ میری خوش قسمتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا لکھا معتبر ہوا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صاحب صدارت محمد حفیظ خان نے ’’خالی سڑک‘‘ کو افسانوں کا کامیاب مجموعہ قرار دیتے ہوئے اسے دور جدید میں اردو ادب میں شاندار اضافہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آفتاب حسن کے لکھے افسانوں میں کہانی کے عنصرکی موجودگی ان کی ہنرمندی کا ثبوت ہے۔ خواجہ آفتاب نے اپنا سفرصحافت سے ادب کی جانب کیا اور ان کی لکھی کہانیوں اور افسانوں میں کہیں بھی صحافتی زبان کا استعمال نظرنہیں آتا ، انہوں نے خالصتاً ادبی انداز اسلوب اختیار کیا ۔ میں انھیں اس پر بھرپور مبارکباد دیتا ہوں۔

Load Next Story