غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت مزید 96 فلسطینی شہید ہوگئے۔ لبنان پر بھی فضائی حملے جاری ہیں، جس کے نتیجے میں مزید 59 افراد شہید ہوگئے۔ تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور نیتن یاہو سے قیدیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی معاہدہ کرنے یا استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا۔
عالمی عدالت انصاف ہو یا اقوام متحدہ کا فورم، عالمی رہنما ہو یا مسلم ممالک کے سربراہان کوئی اسرائیل کو مجرم ٹھہرا رہا ہے توکوئی اسے مزید مظالم سے روک رہا ہے مگر اسرائیل کو توکسی کی پروا ہے اور نہ کسی سے غرض اس لیے وہ کسی کی نہیں مان رہا۔ بس وہ اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل کو کسی چیزکا خوف نہیں، نہ کسی بات کی شرمندگی بس وہ اپنے اہداف کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ یہ یقیناً اقوام متحدہ کا دوغلا پن ہے کہ ایک شخص جو ہزاروں فلسطینیوں کا قاتل ہے اور مسلسل جنگ کو بڑھاوا دے رہا ہے اسے بھی امن کے نام پر قائم ادارے نے جنرل اسمبلی کے سیشن میں بات کرنے کے لیے بلایا۔ کیا اس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ اس ادارے کے اہل اختیار اس قاتل کے پشت پناہ ہیں۔
دوسری بار امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹروں سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوئے تو مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کو روک دیں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے انتخابات جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ سے تین بار بات چیت کا دعویٰ کیا ہے۔ ٹرمپ جنوری میں نئے صدرکا عہدہ سنبھالیں گے لیکن اس وقت تک میدان جنگ اور آسمانوں میں جاری تصادم میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد کیسے یوکرین اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا میں جاری تنازعات کو ختم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں گے؟
اس وقت ایران اور اسرائیل کے درمیان پراکسی جنگیں بھی مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں جاری ہیں۔ لبنان، شام، یمن اور عراق میں ایران کے حمایتی گروپوں کی موجودگی اور اسرائیل کے خلاف ان کی سرگرمیاں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو مزید ہوا دے رہی ہیں۔ حزب اللہ اور حماس جیسے گروپس کو ایران کی حمایت حاصل ہے، جب کہ اسرائیل ان گروپوں کو اپنے لیے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف ہیں اور اس پر پابندیاں عائد کرتے رہے ہیں، جب کہ روس اور چین ایران کے حق میں ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح اسرائیل اور ایران کے تعلقات ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بہتری کی امید کم ہے کیونکہ دونوں ممالک کے نظریات اور مقاصد میں بہت بڑا فرق ہے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کی سفارتی کوششیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے کی جانے والی کاوشیں ممکنہ طور پر اس تنازعے میں کچھ بہتری لا سکتی ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ 18 نومبرکو ملاقات کریں گے، اس دوران پہلی بار اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور غزہ میں جنگی کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کے ساتھ سیاسی مذاکرات منجمد کرنے پر تبادلہ خیال کریں گے۔جوزف بوریل نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ایک سال تک اسرائیلی حکام سے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی اپیلیں کرنے کے بعد اب ہم اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعاون کو جاری نہیں رکھ سکتے،کیونکہ انھوں نے ہر بار عالمی قوانین کو ہوا میں ہی اڑایا اور وہی کیا جو ان کا جی چاہا، اس لیے میں نے یورپی یونین کے ممالک کو درآمد پر پابندی لگانے کی تجویز دی ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اسرائیل کے حوالے سے غیر قانونی بستیوں کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان اقدامات پر یورپی یونین کونسل کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے اجلاس میں بھی بحث کی جائے گی۔ غزہ میں بدترین مظالم پر اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگنے کی تلوار لٹکنے لگی ہے، اس سلسلے میں یورپی یونین نے غور شروع کردیا ہے۔
دراصل ’’ کولیٹرل ڈیمیج‘‘ اور ’’ریسٹرینٹ‘‘ (تحمل) کی اصطلاحات کے غلط استعمال سے شہریوں کو براہ راست، بلاتفریق اور مستقل طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات اور اسرائیل اور امریکا کے اقدامات نے ایسے فقروں کے معنی کو کھوکھلا کر کے جنگ کے تمام اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا دروازہ کھول دیا ہے۔
اسرائیل نے سیاسی اور سفارتی منطقی پیشکش کو رد کیا اور ریاستوں کی خود مختاری اور ان کی سرحدوں کے احترام کے اصول کی مکمل خلاف ورزی کی۔ حالیہ تنازعے میں امریکا وہ ملک ہے جس نے ’’تحمل‘‘ کا لفظ سب سے زیادہ استعمال کیا، اس لفظ کو استعمال کرنے کا مقصد وہ نہیں جو امریکا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد چیزوں کو ہاتھ سے نکلنے اور نقصانات کو بڑھنے سے روکنا نہیں بلکہ اس کا مقصد اسرائیل کا تحفظ کرنا اور نیتن یاہوکو فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے دیگر پڑوسیوں کے خلاف تمام میدانوں میں اپنی من مانیوں کے لیے مزید وقت اور مواقع فراہم کرنا بھی ہے۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر بمباری اور دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد بھی علاقائی ریاستوں کے ذریعے سوئٹزر لینڈ ان ممالک میں شامل تھا جنھوں نے ان اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ایران سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا تھا۔
واشنگٹن تل ابیب پر دباؤ ڈالنے کے بجائے ان فریقوں کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کرنے میں زیادہ پرجوش اور سرگرم تھا جن پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا۔ ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ امریکا یا تو اسرائیل کو اس کی فوجی کارروائیوں کو آزادانہ اجازت دیتا ہے یا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل اس کی باتوں پر کان نہیں دھرتا۔ اسرائیل کو امریکی سیاسی تحفظ کے تحت پورے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی مقام اور اہداف کے خلاف کارروائی کرنے اور نشانہ بنانے کی آزادی ہے اور یہ اس کی فوج کو بھی کسی جوابدہی سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہے۔ اس جنگ میں ٹیکنالوجی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس کی تازہ ترین مثال شہری علاقوں میں موبائل پیجرز اور واکی ٹاکی سے حملے تھے۔
سیاسی لاپرواہی سے امریکا نے خطے میں اپنی بچی کچی سیاسی ساکھ کو بھی کھو دیا۔ امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ بھی اپنی پالیسیوں میں لاپرواہی، دوغلے پن کی وجہ سے اپنی تاثیر کھوچکا ہے۔اسرائیل کے پاس اپنی سرحدوں کے پار اور دوسرے ممالک کی خود مختاری کا احترام کیے بغیر سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے اور عام شہریوں خصوصاً فلسطینیوں اور عربوں کو قتل کرنے کا منفرد ریکارڈ ہے۔ امریکا، اسرائیلی کارروائیوں میں ملوث ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ امریکا، اسرائیل کو تباہ کن ہتھیار،گولہ بارود اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتا ہے۔ اب اس دلیل میں وزن نہیں ہے کہ فلسطینی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہے لیکن اسرائیل نے فلسطینی ریاست کا حق دینے سے انکارکیا ہے۔
دریں حالات حماس نے اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھی ہے، لیکن کیا ایک چھوٹے سے انتہا پسند گروہ کو جسے اسرائیل، امریکا اور بعض دوسرے ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، فلسطینیوں کا نمایندہ مان کر فلسطینی آبادیوں پر قہر نازل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا اسرائیل اور اس کے دوست کبھی اس پہلو پر بھی غور کریں گے کہ حماس نے اگر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے تو اس نے غزہ کے 24 لاکھ فلسطینیوں کو بھی اپنی دہشت گردی کے زور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔ اب انھی یرغمالیوں کو سزا دے کر اسرائیل کی حفاظت کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ اوسلو امن معاہدہ میں دو ریاستی حل پر اتفاق کیا گیا تھا جسے اسرائیل نے بھی تسلیم کیا تھا لیکن کبھی اس حل کو عملی جامہ پہنانے کا اقدام نہیں کیا گیا۔
مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی اوسلو معاہدہ کے تحت ہی اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرچکی ہے لیکن اسرائیل فلسطینی ریاست کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور پوری مہذب دنیا اسرائیلی حکومت کو اپنا وعدہ پورا کرنے اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار قیام امن کے لیے عملی اقدام کرنے پر مجبور نہیں کر سکی۔اسرائیل اگر ہٹ دھرمی چھوڑ دے تو مشرق وسطیٰ میں امن دور نہیں ہے۔ اسے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کیے گئے خود مختار فلسطین کے قیام کا مطالبہ پورا کرنا چاہیے، اگر اسرائیل تمام فلسطینیوں کو دشمن قرار دے کر یہ خواب دیکھے گا کہ ایک دن وہ لاکھوں فلسطینیوں کو اس علاقے سے ہجرت کرنے پر مجبور کردے گا تو امن کا تصور محض خواب ہی رہے گا۔
دنیا کے چوہدری اور امن کی علمبردار ریاستیں امریکا اور اس کے حواری بھی مکمل طور پر اسرائیل کے دفاع میں کھڑے ہیں، وہ مزید قتل عام کے لیے اس کو ہر قسم کی امداد فراہم کر رہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسلحہ فراہم کر رہے ہیں، اس لیے یہی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں اور وحشی بھیڑیے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اس بحران کا واحد حل اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے علیحدہ ریاست کے حق کو تسلیم کرنا ہے۔