پاکستان تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی جو آجکل کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید ہیں،انھوں نے پارٹی قیادت سے میڈیا کے ذریعے کچھ گلے شکوے کیے ہیں۔ وہ ایک سال سے زائد عرصے سے قید ہیں۔ انھوں نے اپنے مقدمہ کی تاریخ کے موقع پر کہا ہے کہ پارٹی قیادت سے کوئی بھی انھیں ملنے نہیں آتا۔ میاں محمود الرشید ، عمر سرفراز چیمہ، ڈاکٹر یاسمین راشد اور سینیٹر اعجاز چوہدری بھی قید ہیں۔ لیکن ہم سب کو پارٹی کی قیادت میں سے کبھی کوئی ملنے نہیں آیا۔ کبھی کسی نے ہم سے سیاسی مشاورت بھی ضروری نہیں سمجھی ہے۔ کبھی کسی نے ہمارا حال تک نہیں پوچھا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، شبلی فراز اور شیخ وقاص اکرم کومخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے پاس فرصت کے چند لمحات ہوں تو ہمیں بھی ملنے آجائیں۔ میرا بھی سیاست میں چالیس سال کا تجربہ ہے۔ ہم سے بھی مشاورت کر لی جائے تو ہم بھی کوئی بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ ہم بھی تحریک انصاف کے سیاسی قیدی ہیں لیکن ہمیں کوئی ملنے نہیں آتا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں اپوزیشن کے ایک وسیع اتحاد کی ضرورت ہے۔
مشاہدے کی بات تو یہی ہے کہ بانی تحریک انصاف سے ملاقاتوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ روز عدالتوں میں درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں کہ ملاقات کی اجازت دی جائے۔ اگر کبھی ملاقات بند کر دی جائے تو ملک میں طوفان برپا کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف پارٹی کے لیے قید کاٹنے والوں کے شکوے ہیں کہ ان سے کبھی کوئی ملنے ہی نہیں آیا ‘کبھی کسی نے ان سے ان کا حال ہی نہیں پوچھا‘ان کے سیل کی بجلی کب کب بند ہوئی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ جیل میں کیا حالات ہیں، پارٹی قیادت نے کبھی پوچھنا گوارا ہی نہیں کیا۔
میں شاید شاہ محمود قریشی کے حوالے سے اتنا ٹچی نہیں ہوں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ تحریک انصاف کی قیادت کی بے حسی ہے کہ کوئی ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور سینیٹر اعجاز چوہدری کو ملنے نہیں آتا۔ یہ سب ویسے تو نو مئی کے مقدمات میں قید ہیں۔ تحریک انصاف ان کی قید کو پوری دنیا میں اپنے سیاسی بیانیہ کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
امریکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بیانیہ بنانے کے لیے ان کے نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ کانگریس ارکان کے خط میں ان کے نام ہوتے ہیں۔ ان کی تصاویر کو تحریک انصاف کے سیاسی بیانیہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کوئی ان کا حال پوچھنے کے لیے تیار نہیں۔ میں نے چیک کیا تو یہ حقیقت نکلی کہ بیرسٹر گوہر کبھی ان سے ملنے جیل نہیں آئے۔ وہ اڈیالہ جانے کے لیے تو بے تاب رہتے ہیں لیکن کوٹ لکھپت کبھی نہیں آئے۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان سب نے اپنے مقدمات کے لیے وکیل بھی خود ہی کیے ہوئے ہیں۔ پارٹی کے وکیل رہنما جنھوں نے پارٹی سے ٹکٹیں اور عہدہ لیے ہیں‘ وہ ان کے کیس کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان سب نے اپنے کیسوں کے لیے وکیلوں کو فیس دی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ سب بے یار و مددگار ہیں۔ پارٹی میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ پارٹی سے وفاداری تو نبھا رہے ہیں لیکن پارٹی اس کے عوض ان کا کوئی خیال نہیں کر رہی۔
جہاں تک شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے تو ان کا غصہ ویسے بھی سمجھ آتا ہے۔ انھوں نے اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کے کافی مواقع ضایع کیے ہیں۔ وہ سائفر کیس میں بھی خود کو بچا سکتے تھے لیکن وہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے رہے۔ سزا ہو گئی۔ اس سے پہلے بھی اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار تھی۔ لیکن وہ نہیں مانے اور قید میں ہیں۔ جب کہ حال ہی میں تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈنے ان کے بیٹے زین قریشی کو غدار ڈکلیئر کرتے ہوئے انھیں شوکاز کر دیا ہے۔ مجبوراً ان کے پاس پارٹی کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کا جو عہدہ تھا انھیں اس سے بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ آج پارٹی میں بطور ملزم کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ باپ وفاداری کی جیل کاٹ رہا اور بیٹے کو پارٹی نے غدار بنا دیا ہے۔
زین قریشی نے پارٹی پالیسی کے خلاف کوئی ووٹ نہیں دیا۔ انھوں نے کہیں بھی پارٹی پالیسی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، ان پر الزام ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے رابطے میں نہیں تھے اس لیے انھیں غدار ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔ وہ بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ان کے شوکاز کا فیصلہ کیا جائے۔ وہ جہاں جاتے ہیں انھیں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یقیناً شاہ محمود قریشی کو پارٹی سے گلہ ہوگا کہ وہ پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین ہیں چاہے کاغذوں میں ہی ہیں۔
ان کے بیٹے کو شوکاز کرنے سے پہلے ان سے پوچھا تو جاتا۔ کے پی میں سب نے اپنے بھائیوں کو وزیر بنوایا ہوا ہے۔ سب کے بھائی بیٹے نوازے جا رہے ہیں اور ان کے بیٹے کو غدار بنا دیا گیا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھنا اور بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ یقیناً شاہ محمود اپنے بیٹے کے حوالے سے پارٹی قیادت سے بات کرنا چاہتے ہوں گے۔ لیکن جب کوئی ملنے کو ہی تیار نہیں تو وہ کیسے بات کریں۔ اسی لیے شاید انھوں نے میڈیا کے ذریعے پیغام بھیجا کہ مجھے ملو تو سہی۔
میں سمجھتا ہوں کہ شاہ محمود اس وقت شدید غصہ میں ہونگے لیکن ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ اتنی قید کاٹنے کے بعد پارٹی چھوڑنا بھی غلط ہوگا۔ چھوڑ تو پہلے بھی سکتے تھے لیکن انھیں یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ان کے بچوں کو ان کی قید کا کوئی فائدہ نہیں۔ پارٹی ان کی قید کے عوض ان کے بچوں کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ ان کے جیل میں ہونے اور ان کے کمزور ہونے سے ان کے بچوں کو نقصان ہوا ہے۔
اگر آج وہ باہر ہوتے پارٹی کی قیادت کر رہے ہوتے تو کسی کی جرات تھی کہ ان کے بیٹے کے سیاسی کردار کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھتا۔ پارٹی کے سوشل میڈیا ٹرولرز جب الزام لگاتے ہیں کہ زین قریشی نے اتنی بھاری رقم لی ہے تو یقیناً دکھ اور پریشانی کی بات ہے۔ ووٹ بھی نہیں دیا تو پیسے کس بات کے۔ سب سے پہلے تو شاہ محمود کی رہائی کی بات ہوتی۔ اگر بشریٰ بی بی رہا ہو سکتی ہیں تو شاہ محمود کیوں رہا نہیں ہو سکتے۔ لیکن کوئی ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔
آج یہ ماحول بن گیا ہے کہ اگر شاہ محمود کی ضمانت ہو جائے اور وہ رہا ہو جائیں تو کہا جائے گا کہ انھوں نے اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کر کے رہائی حاصل کی ہے۔ اس لیے اس وقت ان کی رہائی شاہ محمود کی تحریک انصاف کی سیاست ختم کر سکتی ہے۔ لیکن ان کی جیل بھی تو ان کی سیاست ختم ہی کر رہی ہے۔ ان کی تحریک انصاف میں ساری قوت ختم ہو گئی ہے۔ ان کی کوئی سیاسی حیثیت ہی نہیں رہی۔ اس لیے اب وہ جیل میں ہوں یا رہا ہوں‘ دونوں صورتوں میں مجھے وہ بند گلی میں ہی نظر آرہے ہیں۔ یہی سیاست کا بے رحم کھیل ہے۔