ہم اسموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

تمام پرانی اور دھواں پھیلانے والی گاڑیاں بند کر دیں اور گاڑیوں کی مینٹیننس کو لازمی قرار دے دیا


جاوید چوہدری November 19, 2024
www.facebook.com/javed.chaudhry

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ آپ کو پانی سے لے کر ہوا اور سڑک سے لے کر گلی تک کسی جگہ گندگی نظر نہیں آتی‘ میں ایک بار لوزرن لیک کے ساتھ ساتھ کسی گاؤں سے گزر رہا تھا‘ میں نے ندی کے کنارے بیٹھ کر کیلا کھایا اور چھلکا ندی میں پھینک دیا‘ سامنے بالکونی میں ایک بزرگ خاتون بیٹھ کر سلائیوں سے سویٹر بن رہی تھی‘ اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور چلا کر بولی ’’پلیز میرا چرچ گندا نہ کریں‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ’’میڈم یہاں تو کوئی چرچ نہیں‘‘ خاتون نے سلائی سے ندی کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’یہ ندی میرا چرچ ہے‘‘ میں نے کہا ’’لیکن کیلے کا چھلکا تو آرگینک اور قدرتی ہوتا ہے۔

 اس سے پانی آلودہ نہیں ہوتا‘‘ اس نے غصے سے پوچھا ’’تمہارا مذہب کیا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’اسلام‘‘ اس نے اونچی آواز میں کہا ’’کیا تم کعبے میں کیلے کا چھلکا پھینکو گے؟‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ اس نے کہا ’’ماحول ہمارا مذہب ہے اور سوئٹزر لینڈ کی ندیاں‘ دریا‘ جھیلیں اور جنگل ہمارے کعبے ہیں‘ ہم کسی کو انھیں گندا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘ میں نے اس سے معذرت کی اور باقی چھلکے لفافے میں رکھ کر ڈسٹ بین میں ڈال دیے‘ مجھے اس دن سوئٹزر لینڈ کی صفائی اور خوب صورتی کی وجہ معلوم ہوئی‘ سوئس لوگ ماحولیات کو مذہب کا درجہ دیتے ہیں اور اپنے جنگلوں اور ندی نالوں کو عبادت گاہیں سمجھتے ہیں لہٰذا یہ خود گند ڈالتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو ڈالنے دیتے ہیں۔

 مجھے میرے دوست ڈاکٹر معاذ نے چند ماہ قبل بہت دل چسپ بات بتائی‘ یہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) میں کام کرتے ہیں اور جنیوا میں رہتے ہیں‘ ان کا کہنا تھا1830میں جرمنی کو بڑے پیمانے پر لکڑی درکار تھی‘یہ افریقہ اورروس سے لکڑی امپورٹ کرتے تھے‘ جرمن حکومت نے سوچا ہمیں یہ لکڑی مہنگی پڑتی ہے لہٰذا ہم کیوں نہ یہ سوئٹزر لینڈ سے منگوا لیا کریں‘ جرمنوں نے سوئس حکومت سے رابطہ کیا اور سوئس گورنمنٹ فوراً مان گئی‘ جرمن آرے آئے اور دھڑا دھڑ جنگل کاٹنے لگے‘ اس کے نتیجے میں چند سال بعدسوئٹزر لینڈ میں برف پڑنا بند ہو گئی‘ لوگ حیران ہو گئے۔

 ریسرچ کی تو پتا چلا اس کی وجہ جنگلوں کی کٹائی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سوئٹزر لینڈ مکمل ویران اور بنجر ہو جائے گا چناں چہ سوئس مشاہیر اور سیاست دان اکٹھے ہوئے اور انھوں نے 1843 میں ’’دی سوئس فاریسٹری سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھ دی‘ سوسائٹی نے ماحولیات کی بقا کے لیے فارمولا بنایا‘ لابنگ کی اور حکومت کو 1874 میں آئین میں آرٹیکل 24 شامل کرنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد سوئٹزر لینڈ میں ماحولیات کو مذہب کی حیثیت حاصل ہو گئی اور درخت کاٹنا‘ پانی گندا کرنا‘ قدرتی آبی گزر گاہوں کا راستہ روکنا‘ کنکریٹ کی عمارتیں بنانا اور ماحول میں سیوریج کا پانی اور گندگی شامل کرنا گناہ بن گیا‘ آپ اس قوم کا کمال دیکھیے‘ 1874سے لے کر 2024 تک اس قانون میں ذرا برابر نرمی نہیں کی گئی۔

 1978 میں آرٹیکل 24 میں تبدیلی ہوئی لیکن یہ تبدیلی نرمی نہیں تھی‘ قانون کو مزید سخت کر دیا گیا تھا اور اس میں کوڑا کرکٹ‘ شور شرابہ‘ گاڑیوں کی مینٹیننس اور ہوائی جہازوں کو بھی شامل کر لیا گیا تھا‘ سوئٹزر لینڈ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں اپارٹمنٹس کی عمارتوں میں رات کے وقت واش روم کا فلش نہیں چلایا جا سکتا ‘ ہائی ویز بھی رات کے وقت ہیوی ٹریفک کے لیے بند کر دی جاتی ہیں اور رات کے وقت جہازوں کی آمدورفت بھی معطل ہو جاتی ہے کیوں کہ ان سے لوگوں کی نیند ڈسٹرب ہوتی ہے اور یہ بھی ماحولیات کی خرابی سمجھی جاتی ہے‘ سوئس لوگ مانتے ہیں آج اگر ہمارے ملک کا شمار دنیا کے سات صاف ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور ہم اسموگ سے بچے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ 1843کی دی سوئس فاریسٹری سوسائٹی اور آرٹیکل 24 پر عمل درآمد ہے‘ ہم اگر اس وقت فضائی آلودگی کنٹرول نہ کرتے تو آج ہم بھی دہلی اور لاہور ہوتے۔

آپ اب دوسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘  لندن میں 5 دسمبر 1952 شام کے وقت فوگ (دھند) آئی‘ لوگوں نے اسے معمول کا واقعہ سمجھا‘ یورپ میں ہر سال سردی میں دھند آتی رہتی ہے جس میں عملاً شہری زندگی منجمد ہو کر رہ جاتی ہے‘ لندن کے لوگوں نے اس دھند کو بھی روٹین سمجھا لیکن رات کے وقت دھند کالی سیاہ تارکول بن گئی‘ یہ جسم کے جس حصے کو چھوتی تھی وہ سیاہ ہو جاتا تھا‘ لوگوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو گیا اور یہ شدید سردی کے باوجود کھڑکیاں دروازے کھولنے پر مجبور ہو گئے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے گھر سیاہ دھند سے بھر گئے‘ لوگوں نے کھانسنا شروع کر دیا۔

 اسپتالوں کے فون بجنا شروع ہوئے اور پورے لندن میں ایمبولینسز کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں‘ رات دس بجے اسپتالوں کے ایمرجنسی رومز بھر گئے اور لندن کا ہیلتھ سسٹم چوک ہو گیا‘ وہ رات لوگوں نے جاگ کر گزاری‘ لوگوں کا خیال تھا صبح صورت حال بہتر ہو جائے گی لیکن صبح حالات مزید خراب ہو گئے‘ سورج نے نکلنے سے انکار کر دیا تھا‘ حد نگاہ صفر ہو گئی تھی‘ لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے تو ہاتھ میں ٹارچ یا لالٹین اٹھا کر نکلتے تھے‘ ٹریفک‘ ریلوے اور ائیرلائینز بند ہو چکی تھیں‘ کاروبار حیات بھی معطل ہو گیا‘ یہ سلسلہ پانچ دن جاری رہا‘ لندن کی تاریخ میں ان پانچ دنوں کو ’’ڈارک آوورز‘‘ کہا جاتا ہے‘ ان سیاہ دنوں میں 15 ہزار لوگ انتقال کر گئے جب کہ سوا لاکھ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔

 اسپتالوں کی حالت یہ تھی مردے اور مریض دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے اور ڈاکٹرز اور نرسیں کوریڈورز میں بے ہوش اور نیم مردہ حالت میں گرے ہوئے تھے‘ پانچ دن بعد بارش ہوئی تو حکومت نے ریسرچ شروع کی ‘ پتا چلا کوئلے کے پاور پلانٹس‘ بے ہنگم انڈسٹری‘ دھواں پھینکنے والی گاڑیوں‘ بے تحاشا تعمیرات‘ جنگلوں کی کٹائی اور اندھا دھند آبادی کی وجہ سے لندن کی فضا آلودہ ہو چکی تھی‘ نومبر میں سردی شروع ہوئی تو لوگوں نے گھر گرم کرنے کے لیے انگیٹھیاں جلا لیں‘ اس زمانے میں گھروں میں پتھر کا کوئلہ جلایا جاتا تھا‘ یہ دھواں اوپر اٹھا‘ فضائی آلودگی میں شامل ہوا اور جب دھند آئی تو اس نے پاؤڈر بن کر پورے شہر کو حصار میں لے لیا‘ حصار نے تازہ ہوا بند کر دی اور سورج کا راستہ بھی روک لیا‘ درخت آکسیجن کا سب سے بڑا سورس ہوتے ہیں اور درختوں کو آکسیجن پیدا کرنے کے لیے سورج کی روشنی چاہیے ہوتی ہے‘ لندن میں جب سورج غائب ہوا تو آکسیجن کی سپلائی ایک چوتھائی رہ گئی چناں چہ پورا شہر بیمار ہو گیا۔

 برطانوی میڈیا نے اس بحران کو اسموگ (سموک اور فوگ کا مجموعہ) کا نام دیا اور اسے ہٹلر سے زیادہ لندن کا دشمن قرار دے دیا‘ حکومت کے پاس اب دو آپشن تھے‘ یہ حالات کو جوں کا توں رہنے دیتی اور اگلے برس ہلاکتوں کی تعداد دوگنی ہو جاتی جس کے بعد امیر لوگ لندن چھوڑنا شروع کر دیتے اور یوں دس بیس سال میں لندن ویران ہو جاتا یا پھر حکومت اسموگ کا کوئی مستقل اور دیرپا حل تلاش کرتی‘ حکومت نے دوسرا آپشن لیا‘ اس نے اسموگ فری لندن پالیسی بنانا شروع کر دی‘ پالیسی کو چار سال لگے‘ اس میں ہر قسم کے ماہر کی رائے لی گئی اور یوں ایک ایسی سالڈ پالیسی بنائی گئی جس کے بعد اسموگ کا راستہ ہمیشہ کے لیے رک سکتا تھا‘ برطانیہ نے اس پالیسی کی بنیاد پر 1956میں کلین ائیر ایکٹ پاس کیا اور اس کے بعد لندن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسموگ فری کر دیا‘ برطانیہ نے کیا کیا؟ برطانوی حکومت نے گھروں‘ ریستورانوں اور فیکٹریوں میں کوئلہ جلانے پر پابندی لگا دی‘ فیکٹریوں میں دھواں ختم کرنے کے سسٹم لگائے‘ تمام پرانی اور دھواں پھیلانے والی گاڑیاں بند کر دیں اور گاڑیوں کی مینٹیننس کو لازمی قرار دے دیا۔

 لندن میں 1956کے بعد کوئی گاڑی مینٹیننس سرٹیفکیٹ کے بغیر سڑک پر نہیں آ سکی‘ دھواں پھیلانے والے بھٹے ختم کر دیے گئے‘ ہیٹنگ سسٹم گیس اور بجلی پر شفٹ کر دیے گئے‘ عمارتوں کو گرم رکھنے کے لیے انسولیشن لازم قرار دے دی گئی‘ باغات اور پارکس کی تعداد اور زرعی رقبے میں اضافہ کر دیا گیا‘ درخت کاٹنے کو قتل کے برابر جرم قرار دے دیا گیا‘ زرعی علاقے طے کیے اور ان میں کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی لگا دی گئی‘ سیوریج سسٹم کے ایس او پیز بنوائے اور ان کی خلاف ورزی کو جرم قرار دے دیا گیا‘ کوڑا اور فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی لگا دی گئی اور ڈیزل انجن کی گاڑیاں مہنگی اور پٹرول اور ہائی آکٹین کی گاڑیاں سستی کر دی گئیں۔

 سڑکوں کا سائز چھوٹا کر دیا گیا اور پارکنگ فیسز بڑھا دی گئیں جس کی وجہ سے لوگ پبلک ٹرانسپورٹ اور پیدل چلنے پر مجبور ہو گئے اور بڑے شہروں میں پراپرٹی ٹیکس بڑھا کر لوگوں کو دیہات اور کم آبادی کے شہروں میں رہائش پر مجبور کر دیا گیا‘ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا لندن بلکہ پورا برطانیہ اسموگ فری ہو گیا‘ آپ آج لندن جائیںآپ کو سردیوں میں وہاں فوگ تو ملے گی لیکن اسموگ کسی جگہ دکھائی نہیں دے گی اورہم اب تیسری مثال کی طرف آتے ہیں ۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں