برازیل میں G20 اجلاس شروع ہوچکا ہے۔ 20 بڑی معیشتوں کے گروپ کے رہنما غربت اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عالمی مسائل پر بات چیت کر رہے ہیں، وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات سمیت پائیدار ترقی پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ اب دنیا کی نظریں اس بات پر ہیں کہ کیا جی 20 ممالک مختلف موقف رکھنے کے باوجود اِن عالمی چیلنجوں کے حل کے لیے کسی اتفاق رائے تک پہنچ سکتے ہیں۔
دنیا کے اکثر ممالک امن اور ترقی چاہتے ہیں، اسی لیے وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد سے تعاون صرف تجارت تک محدود نہیں رہا بلکہ مختلف شعبوں میں پھیل گیا ہے۔ ممالک باہمی احترام کے ساتھ اپنے مفادات کو حاصل کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے خدشات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ جی 20 ممالک کے ساتھ ساتھ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم بھی بین الاقوامی فورمز ہیں جو عالمی معاشی و اقتصادی مسائل سے نبرد آزما ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں شریک ہیںجب کہ چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس کانفرنس میں شریک ہیں، صدر شی نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ بیک ٹو بیک ملاقاتیں کی ہیں جن میں انھوں نے خبردارکیا ہے کہ دنیا ایک مشکل دورکا سامنا کر رہی ہے اور اس دوران جنگوں کو بڑھانا یا بھڑکانا نہیں چاہیے۔ ادھر ایک بیان میں جی20 نے غزہ اور لبنان دونوں میں ’جامع‘ جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
دنیا آج عالمگیریت کے پیچیدہ دور سے گزر رہی ہے۔ مختلف ممالک اپنے مفادات کے مطابق عالمی نظام کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ پہلے دنیا میں ایک ہی ملک سب سے زیادہ طاقتور ہوتا تھا، لیکن اب مختلف ممالک اپنی اپنی طاقت دکھا رہے ہیں اور دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ مختلف ممالک کے پاس مختلف وسائل ہیں۔ باہمی تعاون سے یہ وسائل بہتر طریقے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تعاون سے عالمی چیلنجز جیسا کہ موسمیاتی تبدیلیاں، وبائیں اور دہشت گردی سے بھی نمٹا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ جیسی تنظیموں کے ذریعے ممالک عالمی مسائل حل کرتے ہیں۔ تعاون سے سرحدی تنازعات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
وسطیٰ ایشیائی ممالک میں سیکیورٹی کے چیلنجز موجود ہیں، اقتصادی تعاون بڑھا کر علاقائی سلامتی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے کیونکہ ہر ملک اپنے معاشی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے امن کے لیے بھی کردار ادا کرے گا۔ دنیا میں ترقی کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ چین نے اپنی تیز رفتار ٹرین کی ٹیکنالوجی سے یہ ثابت کیا ہے۔ چین نے دنیا بھر میں ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی ہے اور تجارت کو آسان بنایا ہے۔ چین نے ماحول دوست ٹیکنالوجی اور غربت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین نے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے عالمی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان، بھارت اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں لیکن متوازن خارجہ پالیسی کے فقدان کے باعث ہم ایک دوسرے کے وسائل سے مستفید نہیں ہو رہے۔ اس کے برعکس امریکا اور چین کو دیکھ لیں، ہزاروں کلومیٹرکا فاصلہ ہے، کئی معاملات پر کشیدگی بھی پائی جاتی ہے مگر تجارتی معاملات میں تعطل نہیں آتا کیونکہ معاشی ترقی ان ممالک کی ترجیح ہے۔ ہم بھی جب تک معاشی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے مسائل ہمیں چاروں طرف سے گھیرے رکھیں گے۔
امریکی تھنک ٹینک ’’ کونسل آن فورن ریلیشنز‘‘ (سی ایف آر) کے مطابق 2008 کے عالمی معاشی بحران کے دوران جی ٹوئنٹی نے بروقت اقدامات کر ذریعے تیزی سے گرتے ہوئے عالمی مالیاتی نظام کو سہارا دیا تھا۔ سی ایف آر کے مطابق 2008 اور 2009 میں جی ٹوئنٹی کے ارکان نے معاشی بحالی کے لیے 40 کھرب ڈالر کے اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ کئی تجارتی پابندیوں کو ختم کیا اور مالیاتی نظام میں کئی اصلاحات متعارف کرائیں۔
جی20 کے سربراہی اجلاس کے آغاز پر برازیل کے صدر لوئیز لولا ڈی سلوا نے بھوک و افلاس اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل پرگفتگوکی۔ انھوں نے غربت اور بھوک کے خلاف عالمی اتحاد بنایا جس کی حمایت 82 ممالک نے کی۔ اس کا مقصد 2030 تک نصف ارب لوگوں کو خوراک فراہم کرنا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی کو ارکان ممالک کی ایک دوسرے سے ہم آہنگ مالیاتی اور اقتصادی پالیسی سازی، زیادہ شرحِ ترقی،کرپشن اور ٹیکس چوری کے خاتمے جیسے اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جی ٹوئنٹی میں جی سیون جیسے گروپس کی با نسبت جغرافیائی اور معاشی اعتبار سے نمایندگی میں توازن پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ماہرین نے 2019 میں کورونا وبا سے مقابلے کے لیے جی ٹوئنٹی کو زیادہ موثر پلیٹ فورم قرار دیا تھا۔
جی ٹوئنٹی گروپ کا کوئی مستقل سیکریٹریٹ یا عملہ نہیں ہے۔ گروپ میں شامل ممالک کو خطوں کے اعتبار سے مزید پانچ ذیلی گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن گروپ ون اور ٹو کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے۔
گروپ ون میں آسٹریلیا، کینیڈا، سعودی عرب اور امریکا شامل ہیں جب کہ گروپ ٹو بھارت، روس، جنوبی افریقہ اور ترکیہ پر مشتمل ہے۔ گروپ تھری میں ارجنٹائن، برازیل اور میکسیکو؛گروپ فور میں فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ؛ گروپ فائیو میں چین، انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں جب کہ یورپی یونین کسی علاقائی گروپ کا حصہ نہیں ہے۔ ہر سال انھیں گروپس کے حساب سے جی ٹوئنٹی کی صدارت منتقل ہوتی ہے۔ بھارت کے پاس دسمبر 2022 سے جی ٹوئنٹی کی صدارت تھی جو اب برازیل کو منتقل ہوگئی ہے۔
اقتصادی طور پر طاقتور 20 ممالک اور افریقی یونین کے گروپ جی20 کی’’ بھوک اور غربت کے خلاف عالمی اتحاد ‘‘ کی حمایت کرتے ہوئے امیر ممالک کو آگاہ کیا کہ خوراک، ایندھن اورکھاد کا بحران گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے، اس لیے ہمارے مباحثوں میں گلوبل ساؤتھ کے چیلنجوں اور ترجیحات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ نے اس امید کا اظہارکیا ہے کہ چین جی 20 ریو سمٹ میں دنیا کے سامنے ترقی کے نئے مواقع لائے گا۔ ترقی کسی بھی ملک کے لیے لازمی ہے۔
جی20 ممالک کے رہنماؤں کے درمیان پیرکو ریو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی، جہاں یوکرین کی جنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے متعلق معاملات حاوی رہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس سے قبل، اقوام متحدہ نے دنیا کی امیر ترین معیشتوں کے رہنماؤں سے درخواست کی کہ وہ آذربائیجان میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعطل کا شکار مذاکرات بحال کریں اورگلوبل وارمنگ سے نبرد آزما ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی امداد میں اضافہ کریں۔ جی20 کے اراکین، جو اس بات پر منقسم ہیں کہ کس کو مالی امداد دینی چاہیے، اس اجلاس میں ایسے وعدے ہی نہیں کیے تاہم صرف یہ کہا کہ کھربوں ڈالر کی ضرورت ’’ تمام ذرایع‘‘ سے آئے گی۔
یوکرین جنگ بڑھنے کا خطرہ اور امریکی نو منتخب صدر ٹرمپ کی ’امریکا فرسٹ‘ پالیسیوں کی واپسی کے امکانات بھی برازیل میں ہونے والے مذاکرات پر حاوی رہے۔ تاہم، یہ سربراہی اجلاس یوکرین کے حوالے سے اختلافات سے دوچار تھا۔اتوار کو امریکی صدر بائیڈن نے ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے قبل کیف کو روس کے اندر حملہ کرنے کے لیے امریکی میزائلوں کے استعمال کی اجازت دی۔ جوبائیڈن کا اقدام امریکا کی طرف سے ایک بڑی پالیسی تبدیلی ہے۔ اس سے جنگ کے بڑھنے کا خطرہ ہوگا جس کا ٹرمپ نے جلد ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ روس نے خبردار کیا کہ اگر اس کی سرزمین پر حملہ کیا گیا تو ’’ مناسب جواب‘‘ دیا جائے گا۔
جرمن چانسلر اولف شولز نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں بائیڈن کی پیروی نہیں کریں گے، لیکن فرانسیسی صدر ایمانویل نے بائیڈن کے اقدام کی تعریف کی۔ یہ کچھ اہم مسائل اور رجحانات ہیں جو دنیا میں سیاسی معیشت کی موجودہ حالت کی وضاحت کرتے ہیں۔
سیاسی معیشت مطالعہ کا ایک متحرک اور پیچیدہ شعبہ ہے جو عالمی نظام میں سیاست اور معاشیات کے باہمی تعامل اور افراد اور معاشروں کی فلاح و بہبود کے لیے ان تعاملات کے مضمرات کو کم کرسکتے ہیں۔ ایک منصفانہ دنیا کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ جی 20’’گلوبل ساؤتھ‘‘ کے ممالک کی مدد کرے تاکہ باہمی احترام، مساوی تعاون اور باہمی فائدے کے اصولوں کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل کی جا سکے۔