24نومبر کا منظر نامہ

جب حکومت سے کوئی اجازت ہی لی جا رہی تو پھر وہاں انتظامات بھی نہیں ہو سکتے۔


مزمل سہروردی November 20, 2024
[email protected]

آجکل سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ 24نومبر کو کیا ہوگا؟ اس روز کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ اس ضمن میں تحریک انصاف کی ایک مبہم پالیسی سامنے آئی ہے۔ یہ تو بتایا جا رہا ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد پہنچنا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایاجا رہا ہے کہ وہاں پہنچ کر کرنا کیا ہے؟ دھرنا ہوگا تو کتنے دن کا ہوگا؟ دھرنے کے شرکاء کیسے اور کہاں بیٹھیں گے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ ڈی چوک پر دھرنے کے کوئی انتظامات بھی نہیں ہیں۔

اس سے پہلے تحریک انصاف کی قیادت احتجاج یا جلسے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دیتی تھی۔ اجازت نہ ملے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا تھا۔ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد بھی انتظامیہ کی شرائط کے مطابق ہی جلسہ یا ریلی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ لیکن اس بار توصرف یہ اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی اجازت مانگی ہی نہیں جا رہی۔ اس لیے حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ہے۔ آپ نے حکومت کو حکومت ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ آپ نے قانون کو قانون ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔

یہ تو بات سامنے آگئی ہے کہ تحریک انصاف نے ہر اایم پی اے کو پانچ ہزار اور ہر ایم این اے کو دس ہزار لوگ لانے کا ٹا سک دیا ہے۔ یہ ٹاسک صرف جیتنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو نہیں دی جا رہا۔ بلکہ جو ہار گئے ہیں اور ٹکٹ ہولڈر ہیں، انھیں بھی یہ ٹاسک دیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو بھی اس ٹاسک کو پورا نہیں کرے گا، اسے پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ اسے اگلی دفعہ ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ شاید تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہوگیا ہے کہ ان کے لوگ جان بوجھ کر گرفتار ہو جاتے ہیں تا کہ احتجاج میں نہ شریک ہونا پڑے۔

اس لیے ان فرمائشیوں گرفتاریوں سے بچنے کے لیے یہ بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ہر حال میں گرفتاری سے بچنا ہے۔ اگر گرفتار ہوںگے تو یہ آپ کی نا اہلی تصور کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ ہر حلقہ سے متبادل نام بھی مانگے گئے ہیں کہ اگر آپ گرفتار ہو بھی جائیں تو پھر بندے لانے کا ذمے دار کون ہوگا۔ اگر دوسرا متبادل بھی گرفتار ہو جاتا ہے تو تیسرے متبادل کا نام بھی مانگا جا رہا ہے کہ پھر بندے لانے کا ذمے دار وہ ہوگا۔ مطلب سب پکڑے جائیں لیکن بندے پھر بھی لانے ہیں۔ گرفتاری کو بندے نہ لانے کی وجہ نہیں مانا جائے گا۔

تحریک انصاف کے ذرایع کے مطابق بانی تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ بار بار پانچ لاکھ افراد کو اسلام آباد کے ڈی چوک لانے کا کہہ رہے ہیں۔ پانچ لاکھ کی تعداد بار بار بولی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر ہر رکن صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی اپنی تعداد کے مطابق لوگ لائے تو یہ پچاس لاکھ بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی غلطی کا مارجن رکھتے ہوئے۔ نا اہلوں کا مارجن رکھتے ہوئے، پانچ لاکھ کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔

میں ابھی اس بات کو سامنے نہیں رکھ رہا کہ حکومت اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ڈی چوک پہنچنے ہی نہیں دے گی۔ میں اس بات کو سامنے بھی نہیں رکھ رہا کہ پنجاب میں تو کسی کو نکلنے کی اجازت ہی نہیں ہوگی۔ میں اس بات کو بھی سامنے نہیں رکھ رہاکہ شدید تصادم ہوگا۔ لڑائی ہوگی۔ ڈی چوک پر پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہوگا۔ میں تو بس یہ تسلیم کررہا ہوں کہ پانچ لاکھ ڈی چوک پہنچ گئے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ پھر آگے کیا ہوگا؟

یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پانچ لاکھ نہیں پہچنے لیکن تحریک انصاف جتنے بھی لوگ ڈی چوک پہنچانے میں کامیاب ہوئی۔ تب بھی سوال یہی ہوگا کہ ڈی چوک پہچنے کے بعد کیا ہوگا؟ جب حکومت سے کوئی اجازت ہی لی جا رہی تو پھر وہاں انتظامات بھی نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو اگر بٹھانا ہے، دھرنا دینا ہے تو پھر کچھ انتظامات تو کرنے ہوںگے۔

ویسے تو اگر چند ہزار لوگ بھی آئیں تو انتظامات ناگزیر ہیں۔ لیکن لاکھوں کے لیے توانتظامات بھی بڑے کرنے ہوںگے۔ اگر لوگوں نے بیٹھنا ہے تو کھانے پینے کا انتظامات بھی کرنے ہوںگے۔ باتھ روم بھی بنانے ہوںگے لیکن کوئی انتظامات نہیں کیے جا رہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ تحریک انصاف کسی  طویل دھرنے کے موڈ میں ہے۔ اگر تحریک انصاف نے لمبا دھرنا نہیں دینا تو پھر کیا پلاننگ ہے۔ کوئی پلاننگ نہیں۔اگر لمبا دھرنا نہیں تو پھر اگلے ایکشن کی بھی کوئی پلاننگ ہوگی۔ اس لیے سوال اس اگلے ایکشن کا ہی ہے۔ سارا ابہام اس گلے ایکشن کا ہی ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ طویل دھرنے کوئی تیاری نہیں تو پھر آتے ہی مار دھاڑ ہوگی۔ کیا شاہرا ہ دستور پر موجود اہم عمارتوں پر قبضہ کا منصوبہ ہے؟ جن میں قومی اسمبلی، ایوان وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کی عمارتیں شامل ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 2014میں بھی ایسی کوشش ہوئی تھی، پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ ہوا تھا۔ لیکن پھر وہاں فوج تعینات تھی۔ اس لیے بلڈنگ بچ گئی تھیں۔ لیکن دھرنے کی مکمل سہولت کاری تھی۔

آج دھرنے کی سہولت کاری نہیں ہے۔ اس لیے عمارتوں پر قبضہ ہی آپشن بن جاتا ہے۔ قبضے کے بعد کہا جائے گا کہ عوام نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ بنگلہ دیشن اور سری لنکا کا جو ماڈل تحریک انصاف کے ذہن میں ہے۔ اس میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ لہذ اگر بنگلہ دیشن اور سری لنکا ماڈل پر کام ہو رہا ہے تو پھر اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ ہی واحد آپشن ہے۔ اسی لیے لمبے دھرنے کی کوئی تیار نہیں ہے۔

یہ ایک اور نو مئی ہوگا۔ یہ ایک اور نو مئی جیسا ہوگا۔ یہ پھر ریاست پر حملہ ہوگا۔ اس میں تصادم کا خطرہ ہے۔ اس لیے مجھے یہ لگتا ہے کہ حکومت کے پاس بھی لوگوں کو آنے سے روکنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس بار زیادہ سختی سے روکا جائے گا۔ لیکن اس میں تصادم کا خطرہ ہوگا۔ جس میں نقصان کا بھی خطرہ ہے۔ یہی خطرناک بات ہے۔ حکومت لوگوں کو آنے دے تو نقصان ہوگا۔ نہ آنے دے توبھی نقصان ہوگا۔ نقصان دونوں صورتوں میں ہے۔ فیصلہ یہ کرنا ہے کونسا نقصان قابل قبول ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں