یہ جس چیزکو ’’تاریخ‘‘ کا نام دے کر ایک مستند علم کا درجہ دیاگیا ،جودرس گاہوں میں نصاب کے طورپر پڑھائی جاتی ہے، جس پر بڑی بڑی ڈگریاں لی اوردی جاتی ہیں اورجس کے بڑے بڑے علماء وفضلا پائے جاتے ہیں ، اصل میں دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ، مبالغوں، مغالطوں اورمدح سرائیوں کا ایک بڑا طومار ہے کیوں کہ انسانی طبقاتی تقسیم میں یہ جو پندرہ فی صد اشرافیہ ہوتی ہے وہ زندگی کے باقی مادی مسائل کی طرح لکھت پڑھت پر بھی قابض ہوتی ہے اوراپنے ممدوحوں کے گرد گھومتی ہے جس طرح عوامیہ کی ساری محنتوں کا پھل سیدھا آکر تخت ومسند، محل یا حکمران اور پروہت کی جھولی میں آ گرتا ہے، اسی طرح عالم اورسارے منتخب روزگار بھی تخت کے سائے میں رہتے ہیں۔
اب اکبر کے نورتن کیا پاگل ہیں جو اپنے ’’ان داتا‘‘ کی مرضی کے خلاف کچھ لکھیں، چاہے وہ الف لٹھ اوراحمق ہی کیوں نہ ہوں، چنانچہ تاریخ چاہے مصر کے تابوتوں اورپیرا میڈ کی دیواروں پر درج تحریروں سے اخذ کردہ ہو یا دجلہ وفرات کی خاکی تختیوں پر مشتمل برنجی تحریروں سے لی گئی ہو یا بعد کے کتابی حوالوں سے مرتب کی گئی ہو ، پندرہ فی صد حکمرانوں ،فاتحوں اوراشرافوں کے گرد گھومتی ہے اوراس میں صرف وہی کچھ ہوتا ہے جو ان شاہی خاندانوں کی من مرضی کے مطابق ہو۔
اس میں فاتحین کی فتوحات، شاہوں کے خزانوں، تعمیرات اورسخاوتوں کا ذکر تو بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے لیکن تپتی دھوپ میں صرف دھوتی پہن کر کھیتوں وغیرہ میں خون پسینہ بہانے والوں اورصرف لہسن پیاز سے سوکھی روٹی کھانے والوں اور جنگوں اورامراض سے مزے لینے والوں کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو صرف ہندسوں میں۔ اتنے مرے، اتنے جلے، اتنے پکے ، حالانکہ شاہی خزانے ان ہی کے خون پسینے سے بھرے جاتے ہیں ۔کورش ،داریوش، سکندر ،چنگیز ،ہلاکو ،تیمور ، بابر ، اکبر ،اورنگزیب یا ہٹلر ،نپولین نے دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑے، کیا وہ خود اکیلے اکیلے ’’سپرمین‘‘ تھے؟ لیکن ان اصل فاتحوں کاکوئی نام تک نہیں جانتا۔ شاہ جہاں نے تاج محل بنایا لیکن کسی کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے مزدوروں اور معماروں کی شکستہ قبریں کہاں ہیں ۔یہ بڑا طویل المیہ ہے اس لیے تفصیل میں نہ جاکر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ تاریخ صرف پندرہ فی صد اشرافوں کی خود نوشت مدح سرائیوں یاکرائے کے منشیوں کے جھوٹ کا نام ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تاریخ میں صرف ’’نام‘‘ حقیقی ہوتے ہیں، واقعات جھوٹے، جب کہ افسانے میں نام فرضی اورواقعات سچے ہوتے ہیں اورپھر تاریخ میں شکست وفتح کابھی بڑا کردار ہوتا ہے مثلاً بخت نصراورہٹلر جیسے لوگ اگر فتح یاب ہوجاتے تو آج دنیا کی تمام صفات ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتیں ، ہٹلر کی شکست کے بعد یہ جو پوری ایک صدی سے فلموں، ڈراموں، کتابوں اورذرایع ابلاغ کے ہرہرمقام پر ہولو کاسٹ کے افسانے چل رہے ہیں جن میں ہٹلر اورجرمنوں کو آدم خوروں سے بھی کئی گنا ظالم بنایا گیا یہ بالکل الٹے ہوتے، ہمارے سامنے ہندوستان اورپاکستان میں جتنے بھی تنازعات اٹھے، جنگیں ہوئیں، ان میں دونوں اطراف کے مورخ تمام صفات اپنی جھولی میں اورتمام برائیاں دوسروں کے سرڈالتے رہے ہیں۔مطلب اس ساری بحث کایہ ہے کہ تاریخ میں جتنی تاریکیاں پائی جاتی ہیں اتنی اورکہیں بھی نہیں پائی جاتی بلکہ اگر تاریخ کو ’’تاریک‘‘ کا نام دیا جائے تو زیادہ حسب حال ہوگا۔
آج ہم جس کردار کاتذکرہ کرنا چاہتے ہیں اسے بھی تاریخ میں ایک بد راہ اورہرجائی اور نہ جانے کیاکیا بنایاگیا ہے ، ہوس کی علامت آوارہ اورطوائف صفت شیطان زادی کلو پیٹرا۔ حالانکہ وہ صرف ایک مظلوم بہن، حرمان نصیب ماں اوربھیڑیوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی معصوم ہرنی تھی۔
شیکسپئیر اوردوسرے بے شمارلکھنے والوں نے اس کے بارے میں جو لکھا ہے جو کتابوں، ڈراموں، فلموں اورتاریخوں میں اس پر تھوپاگیا ہے وہ سب جھوٹ ہے، افسانے ہیں، رنگین بیانیاں ہیں، وہ نہ تو کوئی نامی گرامی خوبصورت تھی، نہ جنسی سمبل نہ ہوس پرست فاحشہ تھی ’’کلو پیٹرا‘‘ کو مکمل طورپر جاننے کے لیے ہمیں قدیم تاریخ میں جانا ہوگا ۔لگ بھگ چار ہزار قبل مسیح میں نارمر نام کے ایک شخص نے مصرکی پانچ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو فتح کرکے زیریں اوربالائی مصر پرمشتمل ایک متحدہ سلطنت قائم کی اور’’فراعین‘‘ کے پہلے خاندان کی بنیاد رکھی ،اس زمانے کے مطابق پروہتوں نے اسے فا۔را کاخطاب دیا۔
را یا عربی میں ’’سورج‘‘ کا نام تھا اورفا کامطلب ہے بیٹا، یعنی را کابیٹا جسے عربوں نے فرعون بنایا ۔ یہ کسی کا نام نہیں بلکہ ہربادشاہ کاخطاب ہوتاتھا جسے ہند میں حکمران کو راجن یا راجٹر کہاجاتا ہے جن یاجنٹر بمعنی اولاد یہاںپربھی دیوتاؤں کے نام میں را مطلب ہے دینے والا۔۔رام کے ساتھ بھی ’’م ‘‘محض سنسکرت لہجے کی وجہ سے ہے کہ وہ اکثر خاص الفاظ کے ساتھ ’’م‘‘ کااضافہ کرتے ہیں جیسے ستیم، شیوم، سندرم، اتم، برہم، دیوم، وغیرہ ، یونانی اس کی جگہ (س) کااضافہ کرتے ہیں جیسے آئی س، الیگزیندرس ، اولمپیاس، زیوس، باکرے ٹیس، دمیقراطیس، اوریورو کو پورس بولتے ہیں،
(جاری ہے)