’’ میاں نواز شریف مودی کو کال کریں تو بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان آجائے گی۔ وزیر اعظم مودی اور نواز شریف دونوں کو کرکٹ کا کھیل پسند ہے۔ ‘‘ بھارتی صحافی ایل پی کے ساہی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان چیمپیئنز ٹرافی کے معاملے پر سمجھوتہ نہ ہوا تو دونوں ملکوں میں تلخی بڑھ جائے گی۔ میاں نواز شریف جو گزشتہ ہفتہ لندن گئے ہوئے تھے انھوں نے وہاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی ٹیم کو چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کے لیے پاکستان آنا چاہیے۔
بھارت نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کے حوالے سے ایک غیر منطقی رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ بھارتی حکام ٹیم کی سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر بھارتی ٹیم کے لاہور میں قیام کے حق میں نہیں ہیں اور اس تجویز پر غور کیا جا رہا ہے کہ بھارت کی ٹیم امرتسر شہر میں قیام کرے اور میچ کھیلنے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور آئے اور شام کو امرتسر واپس چلی جائے۔ اگرچہ یہ تجویز پاکستان کے چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کرنے والی ٹیموں کے لیے فول پروف سیکیورٹی نظام پر عدم اعتماد کے مترادف تھی مگر بہرحال کسی حد تک قابل قبول تھی۔
کئی مبصرین نے ٹی وی ٹاک شوز میں یہ تجویز پیش کی کہ دونوں ٹیموں کے میچ دبئی میں منعقد کیے جائیں مگر پاکستان نے اس تجویز کو مسترد کیا۔ کرکٹ کے یہ مقابلے پاکستان اور بھارت کے لیے محض کرکٹ ٹورنامنٹ ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر رکھنے کا بھی ایک موثر ہتھیار ہیں۔ بھارت کی ٹیم 12 سال قبل پاکستان آئی تھی۔
بھارت کے اس افسوس ناک رویے کے تناظر میں مختلف خیالات کا اظہار ہورہا ہے۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے خلاف مقدمہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے پاس لے جانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ آئی سی سی بھارت کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل خالد محمود نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے ہدایت کی تو انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کو خط لکھے گی۔ خالد محمود نے یہ بھی بتایا کہ ابھی حکومت نے انھیں کوئی ہدایت نہیں دی ہے، مگر ان کا خیال ہے کہ اولمپکس چارٹر کے تحت ایسا خط بھیجا جاسکتا ہے۔
ضرورت پڑی تو بھارت کے اولمپکس حکام سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ خالد محمود واضح طور پر کہتے ہیں کہ کھیلوں میں سیاست کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ سابق کرکٹر راشد لطیف کا یہ بیانیہ ہے کہ ابھی بھارت نے تحریری طور پر آگاہ نہیں کیا لہٰذا اصل مؤقف کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی سی سی کے قوانین کے تحت جب رکن ممالک کسی ٹورنامنٹ کے انعقاد پر اتفاق کرتے ہیں تو پھر رکن ملک کا اس اتفاق سے انحراف مشکل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آئی سی سی کے قوانین کے تحت کوئی ملک سیکیورٹی کا مسئلہ پیش کرتا ہے تو آئی سی سی کے حکام اپنے سیکیورٹی ماہرین کی ٹیم کو ٹورنامنٹ کے میزبان ملک بھیجتے ہیں۔
راشد لطیف کا کہنا ہے کہ بھارت لاہور میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت نہیں کرے گا تو اس کا خاصا نقصان ہوگا۔ اب یہ بھی خبریں آئی ہیں کہ پی سی بی نے اس بارے میں قانونی چارہ جوئی پر بھی غور کرنا شروع کردیا ہے۔ اگرچہ اس کنفیوژ صورتحال میں آئی سی سی نے چمپیئنز ٹرافی کی نئی ویزوئل ایڈیشن ریلیز کردی ہے اور بعض مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 90 دن میں نئے شیڈول کا اعلان ہونا ضروری ہے اور اس کی آخری تاریخ 20 نومبر ہے مگر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئی سی سی بھارت کے دباؤ میں زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ممکن ہے شیڈول کا اعلان نہ ہو۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے نئے صدر جے شاہ کا گزشتہ اگست میں انتخاب عمل میں آیا تھا۔ وہ اگلے مہینے اپنا نیا عہدہ سنبھالیں گے۔ جے شا کا تعلق بھارت سے ہے۔ 35 سالہ جے شا اس وقت بھارتی کرکٹ کونسل کے سربراہ ہیں۔ جے شا کی واحد خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شا کے صاحبزادے ہیں۔
آئی سی سی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے پانچ افرد آئی سی سی صدر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، یوں بھارت کے خلاف ان حالات میں آئی سی سی سے کوئی فیصلہ حاصل کرنا بقول ایک اسپورٹس جرنلسٹ کے ملین ڈالر کا سوال ہے۔ دراصل بھارتی حکومت نے سیاست کو کھیل میں شامل کرکے ایک بری روایت کی بنیاد ڈالی ہے مگر ضروری ہے کہ بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے پس منظر کو دیکھا جائے۔
اس صدی کا ہی ذکر کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ میاں نواز شریف جب بھی وزیر اعظم بنے تو ان کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہوئے مگر ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حامی طبقے نے بھارت مخالف اقدامات کر کے میاں نواز شریف کی پالیسیوں کو سبوتاژ کیا۔ گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے وزیر اعظم واجپائی سے دوستانہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم فیصلہ کیے تھے۔ اس پالیسی کی بناء پر واجپائی لاہور آئے یوں نئی دہلی اور لاہور کے درمیان دوستی بس چلنے لگی۔ واجپائی نے لاہور میں یادگارِ پاکستان پر حاضری دی مگر اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو یہ پالیسی پسند نہ آئی ۔
بعدازاں کارگل جنگ کی وجہ سے دوستی کی فضاء سبوتاژ ہوئی۔ جب خود صدر کا عہدہ سنبھالا تو بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6 نکاتی فارمولہ پیش کیا مگر اس دوران سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججزکی بحالی کی تحریک شروع ہوگئی اور پرویز مشرف اقتدار سے دور ہوتے چلے گئے۔
جب مودی پہلی دفعہ وزیر اعظم بنے تو اگرچہ ہندو توا کے نعرے پر اقتدار میں آئے تھے مگر اپنے پیش رو اٹل بہاری واجپائی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف سے دوستی کے لیے لاہور آئے ۔ البتہ پھر اسٹیبلشمنٹ نے میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کا منصوبہ شروع کیا، یوں لاہور کی دیواروں پر ’’ نواز شریف مودی کا یار ہے‘‘ کے نعرے نظر آنے لگے۔ میاں نواز شریف کی وزیر اعظم کی حیثیت سے نااہلی کے بعد بھارت میں فیصلہ ساز اداروں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اب پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش نہیں ہوگی۔
اس دوران امریکا اور بھارت کی دوستی کا نیا دور شروع ہوا۔ بھارت کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام عرب ممالک سے قریبی تجارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ بھارت نے 2023میں شنگھائی تعاون کونسل اور اس طرح کی دیگر تنظیموں میں اہم مقام حاصل کرلیا۔ بھارتی نژاد شہریوں نے امریکا اور یورپ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، بینکنگ اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اہم عہدے حاصل کیے۔ اب بھارت، جاپان اور ارجنٹینا وغیرہ ایک مضبوط گروپ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
یہ وہ پس منظر تھا جب صدر ٹرمپ نے سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی کے سامنے یہ کہا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے مودی سے بات کریں گے تو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں یورپی ممالک اور امریکا کا ذکر تو چھوڑیں مسلمان ممالک نے بھی پاکستان کی اس مسئلے پر حمایت نہیں کی۔ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد جن عالمی رہنماؤں سے ٹیلی فون پر بات کی ان میں وزیر اعظم مودی بھی شامل ہیں۔
ایک معروف صحافی اور ٹی وی جزیہ کار کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف مزید کوئی پیش قدمی نہیں کریں گے کیونکہ یہ معاملہ حکومتوں سے ’’ اوپر‘‘ کا ہے۔ اب پاکستان معاشی طور پر بدحال ہے۔ میاں نواز شریف ، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور دیگر رہنما اور معاشی ماہرین بھارت سے تجارت کو ملک کی معیشت کے لیے بہترین قرار دیتے ہیں مگر موجودہ حکومت بھارت سے تجارت بحال کرنے کا فیصلہ نہیں کر پائی ہے۔
بھارت نے پاکستان کو تمام شعبوں میں تنہا کرنے کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ بھارتی ٹیم کا پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اگرچہ بھارت نے کھیل میں سیاست کو شامل کر کے اپنے ہی مؤقف سے انحراف کیا اور دنیا بھر میں کرکٹ کے کروڑوں شائقین کو مایوس کیا ہے مگر بجائے جذباتی فیصلے کرنے کے یہ وقت تدبر سے فیصلے کرنے کا ہے۔