برطانوی ماہرین ماحولیات نے جب لندن میں چھا جانے والی گہری اسموگ کی تشخیص کر لی تو اس کے حل کے بارے میں سوچ بچار شروع ہوئی۔ ذمے داری کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی سر جیرالڈ ڈیوڈ نے لی‘یہ ایک معروف بزنس مین اور کارخانے دار تھے‘ یہ 1950میں سیاست میں آئے اور گریٹ اسموگ آف لندن کے دنوں میں ہاؤس آف کامنز کے تازہ تازہ رکن بنے تھے‘ انھوں نے ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ مل کر ایک چار سالہ پلان بنایا۔ 1956 میں ’’کلین ائیر ایکٹ‘‘ ہاوس آف کامنز میں پیش ہوا ، ایوان نے 5 جولائی 1956 کو اس قانون کی منظوری دے دی۔
یہ ایکٹ چھ بنیادی قوانین پر مشتمل تھا‘حکومت نے شہر کے اندر کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی۔ عوام کو ’’فائر پلیس‘‘ کے لیے متبادل ذرایع فراہم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ حکومت نے ایک سال میں یہ ذرایع فراہم کر دیے‘ ماڈرن ہیٹنگ سسٹم اسی ایکٹ کی پیداوار تھا۔ سردیوں میں بجلی بھی سستی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ لوگ بجلی کے ذریعے گھر گرم کر لیں‘ حکومت نے شہر کے اندر فیکٹریاں بند کر دیں۔
مالکان کو شہر سے دور فیکٹری لگانے کے لیے مفت جگہ بھی فراہم کی گئی‘ ٹیکس میں کمی کی گئی اور فیکٹریاں شفٹ کرنے کے لیے قرضے بھی دیے گئے‘ تمام پلانٹس اور فیکٹریاں دو برسوں میں لندن سے دور جنگلوں میں منتقل کر دیے گئے‘ لندن شہر اور اس کے گرد و نواح میں درخت کاٹنے ‘ زرعی زمینوں کے اسٹیٹس میں تبدیلی اور گرین ایریاز کے خاتمے پر پابندی لگا دی گئی۔
حتی کہ ملکہ برطانیہ تک کو درخت کاٹنے سے قبل تحریری اجازت کا پابند بنا دیا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے‘ پرائیویٹ گاڑیوں کی حوصلہ شکنی اور پٹرول کے معیار کو بلند کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ ہاوس آف کامنز نے ان قوانین اور اصلاحات کی منظوری دی‘حکومت نے کام شروع کیا اور ایکٹ کی منظوری کے صرف چار سال بعد 1960 میں لندن کی فضا مکمل طور پر ’’اسموگ فری‘‘ ہو گئی۔
آئیے اب گریٹ اسموگ آف لاہور کی طرف۔ پنجاب پچھلے تین برسوں سے شدید اسموگ کا شکار چلا آ رہا ہے‘ پنجاب اس بار بھی اسموگ میں دفن ہے‘ ہماری فضا میں اگر 80 مائیکرو گرام زہریلے مادے ہوں تو ہمارے پھیپھڑے انھیں برداشت کر جاتے ہیں لیکن لاہور اور اس کے مضافات میں اس وقت آلودگی کی شرح سیکڑوں مائیکرو گرام کیوبک میٹر ہے‘ لاہور کی فضا میں تین سو سے چار سو فٹ تک آکسیجن کی شدید کمی بھی ہے‘ بھارت ہم سے بھی بری صورتحال کا شکار ہے۔
بھارت میں 2012میں اسموگ کی وجہ سے پندرہ لاکھ لوگ مر گئے ۔ لاہور میں بھی اس سال چار لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں،یہ اسموگ کہاں سے آ رہی ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے‘ اس کے چار بڑے سورس ہیں‘ پہلا سورس بھارتی پنجاب اور ہریانہ ہے‘ ہریانہ میں دس سال میں چاول کی فصل میں آٹھ گنا اضافہ ہوا‘ہریانہ کے کسان ا کتوبر کے آخر میں چاول کے پودے کے خشک ڈنڈل اور خالی سٹے جلاتے ہیں‘ بھارتی کسانوں نے اس سال 3 کروڑ 50 لاکھ ٹن ڈنڈل جلائے‘ ڈنڈلوں کے دھوئیں نے دہلی سے لے کر لاہور تک پورے پنجاب کی مت مار دی۔دوسری وجہ لاہور شہر میں فیکٹریوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے۔
تیسری وجہ لاہور شہرکے گردونواح اور دیہات میں درجنوں ہیوی فیکٹریاں لگائی جانا ہے۔ چوتھا، سورس بے تحاشا موٹر وہیکلز ہیں‘ لاہور شہر میں دس لاکھ سے زائد گاڑیاں ہیں۔ یہ گاڑیاں فی الحقیقت چلتا پھرتا اسموگ ہیں۔ ان وجوہات کے علاوہ لاہور میں ٹائروں کو جلا کر تاریں اور تیل حاصل کیا جاتا ہے‘ شہر میں ٹائر جلانے والے سیکڑوں احاطے ہیں۔ لاہور کی آبادی میں بے تحاشا اور بے ہنگم اضافہ، شہر کے مضافات میں جنگل، اکثر کھیت،کھلیان ختم ہو گئے ہیں۔ دیہات کی زرخیز زرعی اراضی پر ہاوسنگ کالونیز بن گئی ہیں۔
ہمیں ماننا ہوگا لاہور اس وقت بظاہر ملک کا خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ لیکن فضائی آلودگی کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہو چکا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پنجاب حکومت فوری طور پر کلین پنجاب کمیشن بنائے‘ فضائی آلودگی کی وجوہات کی روک تھام کی جائے۔ اسمبلی سے باقاعدہ قانون کی منظوری کے بعد لاہور کو لندن کی کی طرح صاف ستھرا بنایا جائے۔
اس وقت لندن کو شہر کے ساتھ درختوں کا جنگل بھی کہا جاتا ہے۔ لندن شہر میں جتنے لوگ آباد ہیں اتنی تعداد میں درخت ضرور موجود ہوں۔ حکومت کلین ائیر لندن ایکٹ سے بھی مدد لے سکتی ہے اور یہ بھوٹان ماڈل کو بھی اسٹڈی کر سکتی ہے‘ یہ بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر دھان کی باقیات جلانے پر بھی پابندی لگا سکتی ہے اور یہ بچوں کے سلیبس میں ماحولیات کا مضمون بھی متعارف کرا سکتی ہے‘ یہ اقدامات ضروری ہیں ورنہ پنجاب بالخصوص لاہور ایک قبرستان بن جائے گا ۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات