بنگال کی فتح نے انگریزوں کی سوچ اور اہداف تبدیل کردیے اور اب وہ پورے ہندوستان پر قبضے کی اسکیمیں بنانے لگے۔ جنوبی ہندوستان میں انگریز اگر کسی سے خوف زدہ تھے اور وہ کسی کو اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے تو وہ ریاست میسور کا شیر دل حکمران سلطان ٹیپو تھا۔ ان کے والد نواب حیدر علی نے اپنے بیٹے ٹیپو کی تعلیم وتربیّت پر خصوصی توجہ دی، چنانچہ ٹیپو نے چھوٹی عمر میں ہی مختلف علوم پر دسترس حاصل کرلی۔ اسلامی علوم کے علاوہ انھیں عربی اور فارسی میں خاص مہارت تھی، انھوں نے انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی تھی اور فنونِ سپہ گری پر بھی عبور حاصل کرلیا تھا۔
بلاشبہ وہ بچپن سے ہی جرأت اور بہادری کا استعادہ بن گئے تھے۔ ایک دفعہ ایک دستے کے ساتھ دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے جنگل میں جا گھسے اور دشمن کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ نواب حیدر علی نے ان کی بہادری دیکھ کر انھیں پانچ سو سواروں کا کمانڈر بنادیا۔
حیدر علی کو بیک وقت تین دشمنوں سے نبرد آزما رہنا پڑا۔ مرہٹے، حیدرآباد کا حکمران (نظام) جو حیدر علی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو حسد اور بغض کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور انگریز سامراج جو پورے ہندوستان کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ مگر حیدر علی اپنی جرات اور تدبّر سے تینوں کا مقابلہ کرتا اور ان کے عزائم خاک میں ملاتا رہا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ حیدر علی میں مغل بادشاہ ظہیرالدّین بابر کی سی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔
حیدر علی کے بعد اس کے بیٹے ابوالفتح ٹیپو سلطان نے سلطنتِ میسور کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی پوری توّجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوامِ ہند پر صرف کردی۔ اُس نے اپنے خطے کو خود انحصار بنانے کے لیے صنعت وحرفت کو ترجیحِ اوّل بنایا۔ سلطان کے اسی وژن اور انھی عزائم کی وجہ سے انگریز اس سے خار کھانے لگے۔ انگریز جان چکے تھے کہ سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا گیا تو پھر وہ ہندوستان پر کبھی قبضہ نہیں کرسکیں گے۔
بلاشبہ ٹیپو سلطان ہندوستان کے کسی علاقے کا پہلا حکمران تھا جو ہندوستان کو فرنگی استعمار سے محفوظ اور آزاد رکھنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جو مقام ہندوستان کے خواص وعوام میں سلطان ٹیپو کو حاصل ہے وہ کسی اور حکمران کو حاصل نہیں ہوسکا۔ ہندوستان کے ناعاقبت اندیش حکمران خصوصاً حیدرآباد کے مسلم حکمران اپنی کوتاہ اندیشی اور حسد کی وجہ سے نتائج کا ادراک نہ کرسکے۔ اگر وہ سلطان کے خلاف سازشوں میں شامل نہ ہوتے تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
شیرِ میسور سلطان ٹیپو نے کئی معرکوں میں انگریزوں کے دانت کھٹّے کیے تھے۔ ان ناکامیوں کے بعد انھوں نے سازشوں کا جال پھیلانا شروع کردیا اور غدّاروں کی تلاش شروع کردی بالآخر انھوں نے سلطان کے قریبی لوگوں میں سے کچھ غدار خرید لیے جن میں غدارِ اعظم میر صادق تھا جو حیدر علی کے زمانے سے حکومت میں شامل ہوا اور اب چیف سیکریٹری کے عہدے پر پہنچ چکا تھا۔ میر صادق کے علاوہ اسی کے کارندے میر قمرالدین، میر معین الدین، میر قاسم علی اور میر غلام علی (لنگڑا) بھی اپنا ایمان اور ضمیر بیچ چکے تھے اور انگریزوں کے آلۂ کار بن چکے تھے۔
لارڈ ولزلی نے 3 فروری 1799 کو انگریزی فوج کو میسور کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ میر عالم کی سرکردگی میں حیدرآباد کی فوج بھی تھی۔ 22 فروری کو سلطان کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کیا گیا مگر اس سے ایک مہینہ پیشترہی لارڈ ولزلی نے جنرل ہارس کو خط لکھ دیا کہ ہم نے غدّار تلاش کر لیے ہیں۔ سلطان، انگریزی فوج کے مقابلے کے لیے نکلا تو کورگ کے گھنے جنگلوں میں اس کا انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا جس میں انگریزی فوج کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔
گلشن آباد کی سرحد پر بھی سلطان کی فوج نے بڑی مردانگی دکھائی، قریب تھا کہ انگریز شکست کھا جائیں مگر میر معین الدین اور پورنیا نے غداری کی جس سے سلطانی فوج کو نقصان اٹھانا پڑا۔ سلطان کے وفادار جرنیل سید غفار، نواب حسین خان اور نواب محمد رضا خاں انگریزی فوجوں کے چھکے چھڑا رہے تھے کہ عین اُس وقت نواب محمد رضا خاں گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔
سلطان نے شہید کی لاش سرنگا پٹم روانہ کی اور خود دشمن کے مقابلے پر آگیا۔ اُدھر غدارانِ ملّت انگریزوں کے مخبر بن چکے تھے اور انھیں پل پل کی خبر دے رہے تھے میر قمرالدین نے میر صادق کی ہدایت پر غداری کی اور انگریزی فوج کا کورگ میں مقابلہ نہ کیا جس کی وجہ سے مزاحمت نہ ہوسکی۔
انگریزی فوج کا وہ حصہ جو جنرل ہارس کے ماتحت تھا ہوسہلی کے پاس دریائے کاویری عبور کرکے عین جنوب مغرب میں ایک گنجان آباد باغ کے اندر جو قلعے کی فصیل اور دریا کے بالکل نزدیک تھا مورچہ لگا کر بیٹھ گیا۔ انگریزی فوج کو اس جگہ لانے والا بھی ایک غدار میر قاسم علی تھا۔
انگریزی توپ خانہ سے سلطان کے قلعہ پر مسلسل گولہ باری ہوتی رہی اور جو گولے قلعہ سے انگریزی فوج کی طرف آرہے تھے ان میں بارود کے بجائے مٹی بھری ہوئی تھی۔ 4 مئی 1799کو سلطان نے قلعہ کی فصیل کا تفصیلی معائنہ کیا اور دوپہر کو آموں کے سایہ دار درختوں کے نیچے کھانا کھانے بیٹھ گیا۔
ابھی ایک لقمہ ہی تناول کیا تھا کہ لوگوں نے آکر بتایا کہ آپ کے وفادار سیّد غفار شہید ہوگئے ہیں سلطان نے اسی وقت دسترخوان سے ہاتھ اٹھالیا اور اپنے وزراء اور امراء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’دیکھو اس غداری کا نتیجہ تمہاری آیندہ نسلیں ذلّت وخواری کی صورت میں بھگتیں گی‘‘۔ سلطان نے تلوار کمر سے لٹکائی اور اپنی دو نالی بندوق ہاتھ میں لی اور انگریزوں سے مقابلے کے لیے باہر نکل گیا۔ جب سلطانی فوج ڈٹ کر مقابلہ کررہی تھی عین اُس وقت بدبخت پورینا نے حکم بھیجا کہ تنخواہ تقسیم ہورہی ہے، تمام فوجی لڑائی چھوڑدیں اور آکر تنخواہ وصول کریں۔
اس بہانے غداروں نے فوج کو میدانِ جنگ سے ہٹالیا۔ سلطان جب قلعہ میں گھر چکا تو اس موقع پر میر صادق اور اس کے آلۂ کاروں نے سلطان کو انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا مشورہ دیا اس پر سلطان نے پلٹ کر غصے میں جواب دیا ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔ غدّاروں سے یہ معلوم ہوجانے کے بعد کہ سلطان بذاتِ خود لڑائی میں شریک ہے پوری انگریزی فوج اُسی جگہ پہنچ گئی۔ اب دست بدست لڑائی شروع ہوچکی تھی جو دوپہر دو بجے سے شام سات بجے تک جاری رہی جس میں سلطان خود دادِ شجاعت دیتے رہے۔
شام کے وقت ایک گولی سلطان کے دل کے قریب لگی جس سے وہ زخمی ہوکر گر گیا۔ گرمی کی شدت تھی۔ سلطان بار بار پانی مانگتا رہا مگر اسے ایک گھونٹ پانی بھی نہ مل سکا اور غروبِ آفتاب کے قریب شیرِ میسور نے اپنی جان جانِ افریں کے سپرد کردی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ جنرل ہارس کو شیرِ میسور کی شہادت کی خبر پہنچی تو وہ دوڑتا ہوا پہنچا اور لاش دیکھ کر خوشی سے پکار اٹھا’’آج ہندوستان ہمارا ہے۔ اب ہمیںپورا برصغیر فتح کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
سلطان ٹیپو شہید کی موت پوری دنیا میں اسلامی جاہ وجلال اور اسلامی شان وشوکت کی موت تھی۔ اُس عظیم سانحے پر آسمان بھی آنسو بہائے بغیر نہ رہا۔ عینی شاہد شہادت کے فوراً بعد کے حالات لکھتے ہیں کہ ’’دفعتاً ایک طوفان اٹھا، بادل کی مہیب گرج اور بجلی کی خوفناک کڑک نے زمین کو ہلادیا۔ تدفین کے وقت سرنگا پٹم کے اکثر مقامات پر بجلی گری۔ دریائے کاویری بپھر گیا اور اس میں شدید طغیانی آگئی۔ ہر طرف ایک ایسا ہیبت ناک اور عبرت انگیز سماں چھاگیا کہ گویا اہلِ زمیں پر کوئی آسمانی آفت نازل ہوئی ہے۔ جس میں دریا بھی شریکِ غم ہے اوربرق وباد بھی شریکِ ماتم ہیں۔‘‘
سلطان شہید ایک اعلیٰ درجے کا منتظم تھا جس نے فوج سے لے کر پولیس تک اور محکمہ مال سے لے کر فنونِ لطیفہ تک ہر محکمے میں دور رس اصلاحات کیں۔ انھوں نے پہلی بار زرعی اصلاحات کیں اور زمینیں بڑے جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم کیں۔
مورخ لکھتے ہیں کہ ریاست میسور میں ہر طرف فصلیں لہلہاتی نظر آتی تھیں، زراعت کی ترقی کے لیے سلطان کا ایک بڑا کارنامہ دریائے کاویری کا وہ پشتہ ہے جسے آج ’’کرشنا راج ساگرا‘‘ کہا جاتا ہے، اسی لیے مورخ سلطان کو Tipu the dam builder کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
سلطان کی صنعت وحرفت پر بہت توجہ تھی سلطنت میں لوہے کے کارخانے قائم کیے گئے جہاں تلوار، بندوق، توپ، گولے اور گولیاں بنتی تھیں۔ میسور میں ریشم اور اون سے اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کی جاتی تھیں۔ بنگلور قالینوں کے لیے مشہور تھا۔ اس کی ہاتھی دانت اور صندل کی لکڑی کی مصنوعات پورے برّصغیر میں مشہور تھیں۔
(جاری ہے)