امریکا اور طالبان کے درمیان قطر امن معاہدے کے نتیجے میں 2021 میں بننے والی افغان حکومت وعدوں کی پاسداری نہ کرسکی۔
افغان طالبان نے 3 سال بعد بھی دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا اور مسلسل خلاف ورزی کی جن میں افغان سر زمین مسلسل دہشتگردوں کو پناہ دینے اور خطے میں دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال ہونا شامل ہے۔
کچھ عرصے قبل امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے بھی کہا تھا کہ "طالبان نے دوحہ معاہدے کی "سنگین" خلاف ورزی کرتے ہوئے القاعدہ کے اعلیٰ ترین رہنما ایمن الظواہری کو پناہ دی تھی۔
دوحہ معاہدے میں طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ یا داعش جیسے دہشتگرد گروپوں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
یونیسیف رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے سخت مذہبی قوانین نافذ کیے۔ اس وقت 40 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں 25 لاکھ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کر دیا۔ خواتین کے قتل کے 332 واقعات رپورٹ ہوئے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2021 میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے شرمناک انخلا پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
نو منتخب صدر ٹرمپ نے مارکو روبیو کو وزیر خارجہ کا قلمدان دیا ہے جو متعدد مواقعوں پر طالبان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے طالبان کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دینے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
افغانستان کے لیے امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی واپسی اور مارکو روبیو کے وزیر خارجہ بننے سے افغانستان میں دوحہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ افغانستان مں کالعدم ٹی ٹی پی اور اب القاعدہ جیسے دہشت گرد نیٹ ورکس کو آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ مل رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے 6 سے ساڑھے 6 ہزار 6000 جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔
حال ہی میں خارجی نور ولی کی آڈیو لیک میں پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیاں تیز کرنے کا کہا گیا ہے۔
افغانستان کے حالیہ حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ دہشتگردی کا خاتمہ اور افغانستان میں انسانی حقوق کی بحالی نو منتخب امریکی حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔