عربی میں تخصیص کے لیے ’’ال‘‘کااضافہ کیاجاتا ہے جسے مصری ’’را‘‘ کو ’’الراء‘‘ ،انگریزی میں ’’دی‘‘ لگایا جاتا ہے ، دی گارڈ، دی کنگ، دی پرنس وغیرہ ۔ چنانچہ مصر میںبھی حکمران کا مستقل خطاب تھا حالانکہ پہلے فرعون نارمرسے لے کلیوپیٹرا تک فراعین کے جو تیس حکمران گزرے ہیں ان کے ہرحکمران کا یہی خطاب تھا حالانکہ ان میں عربی نژاد، افریقی نژاد، آریائی نژاد حکمران بھی تھے یہاں تک کہ سکندر اورکورش ہمناشی کے بیٹے کی وجہ سے مصر کو فتح کیا تو ان کو بھی فا ۔۔را یا فرعون کا خطاب مصری پروہتوں نے دیاتھا، جب کہ بعد میں کلیوپیٹرا کی نسبت جولیس سیزر اورالطونی کو بھی ملاتھا لیکن رومی ایمپائر کا اکٹوین باوجود کوشش کے محروم رہا بلکہ کلیوپیٹرا نے خودکشی کرکے اس کی اس آرزو کو خاک میں ملادیاتھا ۔
سکندر نے جب اپنی پاگل ماں اولمپیا کی خواہشات کے مطابق مقدونیہ سے جہلم تک اک خلق خدا کو خاک وخون میں غلطان کرکے ایک وسیع وعریض زمین حاصل کی اورپھر حسب معمول خالی ہاتھ دنیا سے چلا گیا تو اس مفتوحہ سرزمین کو اس کے جرنیلوں نے آپس میں بانٹ لیا، باقی فتوحات تو آہستہ آہستہ نکل گئیں لیکن مصر کی سلطنت جس جرنیل بوٹالمی معرب بطلیوس کے حصے میں آئی وہ بہت ہی لائق وفائق اورعالم وفاضل شخص تھا چنانچہ اس نے مصر کو نہ صرف عظمت رفتہ دلائی بلکہ اپنے دارالحکومت سکندریہ کو ایک بین الاقوامی علمی شہربھی بنادیا ،یونان کے بعد یہ دوسرا سب سے بڑا علمی مرکز بن گیا تھا اورفراعین کے تسلسل میں اس خاندان کو تیسواں خاندان قراردیاگیا،کلیو پیٹرا اسی خاندان اوردنیا کی آخری فرعونہ تھی، کلیوپیٹرا کا مطلب ہے کلیوکی بیٹی ، کلیویونانی دیومالاکی نومیوزر میں سے پہلی اورتاریخ کی میوز ( ایک طرح کی دیوی ) تھی ۔
بطلیوسی خاندان میں اس سے پہلے بھی بارہ تیرہ کلیوپیٹرائیں گزرچکی تھیں، اس کی پہلی بدقسمتی یہ تھی کہ اولاد نرینہ نہ ہونے کیوجہ سے باپ نے اس کی تربیت ایک ملکہ اورحکمرانہ کی طرح کی، وہ لائق وفائق اورحکومت کے لیے موزوں بھی تھی، بیدار مغز اوراسرارحکمرانی سے واقف تھی لیکن دوسری بدنصیبی یہ ہوئی کہ مصری قانون کے مطابق حکمران بننے کے لیے اسے اپنے سے بارہ سال چھوٹے بھائی سے شادی کرنا پڑی۔
اب صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف ایک قابل سمجھ دار اوررموز مملکت سے واقف بیدار مغز کلیوپیٹرا تھی جس پر اراکین سلطنت کو قابو پانا اوراپنی من مرضی سے چلانا ممکن نہ تھا، وہ ایک دبنگ حکمران تھی جب کہ دوسری جانب ایک نادان نابالغ اورکٹھ پتلی شہزادہ ان کے لیے زیادہ قابل ترجیح تھا چنانچہ شہزادے کے گرد خود غرض سازشیوں کا ایک ٹولہ جمع ہوگیا جن میں سرفہرست شہزادے کااتالیق اورحکیم تھا جب کہ دوسرا ایک غلام جو اب شاہی محافظ دستے کاسربراہ تھا۔
ان لوگوں نے پہلے تو بہن بھائی یاشوہروبیوی کے درمیان نفرتوں کے بیج بوئے اورسازش کرکرکے دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا پھر بھائی نے بہن کو قتل کرنے کی سازش کی لیکن کلیو پیٹرا کو بروقت پتہ چل گیا اوروہ بھاگ کر رومی جرنیل جولیس سیزر سے مدد کی طالب ہوئی، یہیں پر شیکسپیئر نے وہ ’’قالین ‘‘ کا رنگین افسانہ تخلیق کیا ہے اورمشہورفقرہ ۔ وہ آئی اس نے دیکھا اورفتح کیا۔
ایسا کچھ بھی نہ تھا ان دنوں مصرمکمل خود مختار ملک نہیں رہاتھا اورنئی ابھرتی ہوئی سلطنت رومہ نے اسے ہر طرح سے محصورکیا ہوا تھا اورسلطنت روم کی طاقت ور ترین شخصیت جولیس سیزر مصر کے نواح میں اپنے بحری بیڑے کے ساتھ موجود تھا اسی تاک میں کہ مصر کو مغلوب کرکے سلطنت روما کا حصہ بنادیاجائے ۔ روم میں یوں تو سینٹ کانظام تھا جس میں تین جرنیل یکساں حکمران ہوتے تھے لیکن ان تینوں میں ہمیشہ ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کش مکش چلتی رہتی تھی ، اس وقت یہ کش مکش یومبی اور جولیس سیزر کے درمیان تھی ، اب اگر جولیس سیزر مصر کی عظیم وقدیم سلطنت کی ملکہ سے شادی کرلیتا تو اسے فرعون کاخطاب مل جاتا اور روم میں اس کی واہ واہ ہوجاتی چنانچہ اس نے فوراً کلیوپیٹرا سے شادی کی فر عون کا خطاب حاصل کیا اس میں کوئی رومانس نہیں تھا نہ عشق ومحبت کاکوئی شائبہ تھا بلکہ کہانیوں داستانوں اور افسانوں کے برعکس وہ ایک عام سی سانولی سلونی قبول صورت عورت تھی ۔
اس کی ساری کشش اوراہمیت قدیم ترین تاریخی سلطنت کی وارثہ ہونے کی تھی اوراسی سے ہرکسی نے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی ہوئی تھی ۔کلیوپیٹرا سے شادی کرنے اورفرعون بننے کے بعد جولیس سیزر کی اہمیت بڑھ گئی تو اس نے رومی ایمپائر کابلاشرکت غیرے شہنشاہ بننے کا خواب دیکھا لیکن رومیوں نے اس کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا اوراسے قتل کرڈالا۔ اب سینٹ اوررومی سلطنت میں مارک انتھونی اوراکٹوین رہ گئے ، انتھونی سینئر اوراکٹوین جونئیر تھا لیکن حوصلے اور ارادے اس کے بھی بلند تھے۔
مصر کے اردگرد بحر وبر میں اب رومی سلطنت کا نمایندہ اب انتھونی بن گیا تو اس نے بھی اسی راہ پر چل کر اقتدار حاصل کرناچاہا اورکلیوپیٹرا سے شادی کرکے فرعون کا ٹائٹل حاصل کرلیا، کلیو پیٹرا تو اب کٹی پتنگ تھی اوراپنی جدی پشتی سلطنت بچانے کے لیے ہرتنکے کا سہارا لینے پر مجبور تھی ، لیکن ادھر اکٹوین بھی سرگرم تھا چنانچہ اس نے مارک انتھونی کو رومیوں کی نظر میں نااہل بنا ڈالا، لڑائیاں ہوئیں انتھونی شکست کھا گیا قتل ہوا یاخودکشی کی یہ الگ بات ہے۔
اہمیت اس بات کی تھی کہ اب وہ اکٹوین کی دسترس میں تھی اوراس کی حیثیت ایک قیدی کی تھی اوراس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ یاتو اکٹوین کے سامنے سرجھکائے اوروہ اسے لے جاکر روم کے بازاروں میں رسوا کرے اوراہل روم کو دکھائے کہ میں نے قدیم وعظیم مصر کی فرعونہ کو مفتوح کرکے سلطنت روماکو چارچاند لگائے ۔ کلیوپیٹرا کو اپنے اس انجام کا اچھی طرح علم تھا اوراکٹوین کو بھی اس کے جذبات احساسات اورارادوں کاعلم تھا چنانچہ اس نے اسے سخت پہرے میں رکھا تاکہ روم لے جاکر بازاروں میں اس کی نمائش کرلے اوراپنی عظمت کے نقارے بچائے ۔ لیکن کلیو پیٹرا نے اپنے ملک اپنے خاندان اورمصری سلطنت بچانے کی خاطر خودکو قربان کردیا۔
وہ خود مرگئی لیکن مصری عظمت کو روم کے بازاروں میں رسوا ہونے سے بچالیا، آخری سعی کے طورپر اس نے جولیس سیزر سے ہونے والے بیٹے سیزارین کو بچانے کے لیے اسے کچھ بااعتماد لوگوں کے حوالے کردیاتھا کہ وہ پارتھیا لے جاکر اسے بچائیں لیکن ان بااعتماد لوگوں نے ہی اسے کہیںقتل کرڈالا تاکہ اس دولت کو ہڑپ کرلیں جو کلیو پیٹرا نے ان کے ساتھ کردی تھی، مجموعی طورپر وہ مظلوم بہن ، مظلوم ملکہ اورحرماں نصیب ماں تھی جس نے اپنے ملک کو رسوائی سے بچانے کے لیے خود کو قربان کردیا تھا۔