ووٹ کی عزت کا خواب

یہ اختیار ختم کروا کر نواز شریف بااختیار وزیر اعظم بن گئے تو بے نظیر بھٹو ان کے خلاف ہو گئی تھیں


محمد سعید آرائیں November 21, 2024
[email protected]

2017میں وزیر اعظم نواز شریف کی جبری عدالتی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیر اعظم منتخب کرایا تھا ۔

شاہد خاقان عباسی اب اپنی پارٹی بنا چکے ہیں اور انھوں نے بتایا ہے کہ نواز شریف کے ووٹ کی عزت کے مقبول بیانیے سے دستبردار ہو جانے اور ملک میں آئین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوئے تھے اور انھوں نے (ن) لیگ چھوڑتے وقت اپنی پارٹی میں کسی پر کوئی تنقید نہیں کی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد گوجرانوالہ میں ووٹ کو عزت دو کا جو بیانیہ بنایا تھا اس پر انھیں ملک بھر میں اسی وجہ سے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔

 میاں نواز شریف بعض قوتوں کے تعاون سے پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تھے اس سے قبل تحریک استقلال میں بھی رہے مگر سیاست میں انھیں اہمیت سیاسی و غیر سیاسی نرسری میں پرورش پانے کے باعث ملی تھی اور وہ پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پھر وزیر اعظم بنے تھے۔ 1988 میں جنرل ضیا الحق نے مسلم لیگی وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کیا تھا تو اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اور انھوں نے مسلم لیگ بنا لی تھی اور چوہدری نثار اور شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کے ساتھ تھے۔

جنرل ضیا نے 58/2-B کے آئینی اختیار کے تحت محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تھی اور 1990 میں اسی اختیار کے تحت صدر غلام اسحاق خان نے پہلے بے نظیر بھٹو اور بعد میں نواز شریف کی حکومتیں برطرف کی تھیں جو سویلین منتخب صدر مملکت تھے مگر اس وقت کسی کو ووٹ کو عزت دو کا خیال نہیں آیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے صدر سردار فاروق لغاری نے بھی بے نظیر حکومت اسی اختیار کے تحت برطرف کی تھی۔

بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں بھی اسی اختیار کے تحت دو دو بار برطرف ہوئیں اور نواز شریف نے اپنے دوسرے اقتدار میں اپنے بھاری مینڈیٹ کے باعث بے نظیر کے تعاون سے صدر فاروق لغاری کے دور میں قومی اسمبلی و سینیٹ کے ذریعے 58/2-B کا صدارتی اختیار ختم کرایا تھا کیونکہ دونوں سابق وزرائے اعظم اسی اختیار کے ڈسے ہوئے تھے۔

یہ اختیار ختم کروا کر نواز شریف بااختیار وزیر اعظم بن گئے تو بے نظیر بھٹو ان کے خلاف ہو گئی تھیں جس کے بعد 1999 میں جنرل پرویز مشرف کو موقعہ مل گیا اور انھوں نے نواز شریف کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھال لیا تھا، اس وقت کسی کو ووٹ کی عزت کا خیال تھا نہ آئین کی بالادستی کا کیونکہ اس وقت عدالت نے ایک فیصلہ دے کر جنرل پرویز مشرف کو ازخود آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا جس پر بھی سیاستدانوں کو آئین کی بالادستی یاد آئی تھی نہ ووٹ کی عزت سب خاموش رہے تھے۔

جنرل مشرف نے 2007 میں عدلیہ کی طرف سے خطرہ محسوس کیا تھا اور ایمرجنسی لگا کر ججوں کو برطرف اور عدلیہ کو مفلوج کردیا تھا اور ججز اور عدلیہ بحالی کی تحریک نواز شریف نے چلائی تھی اور پی پی دور میں عدلیہ نے پی پی پھر نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ جو عدالتی مارشل لا کا سلوک کیا تھا اس کی سزا دونوں پارٹیوں نے بھگتی اور بعدازاں پی پی اور (ن) لیگ کی مخالفت میں عدالت کی جانب سے پی ٹی آئی کے بانی کے لیے پہلی بار ایک صادق و امین کا اظہار ہوا تھا جو آج جیل میں ہیں۔

نواز شریف نے ووٹ کو عزت دینے کا کامیاب بیانیہ بنایا تھا۔ نواز شریف کو ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی سزا عدلیہ سے ملی جو عمران خان پر مہربان تھی اور عمران خان کو اپنی آئینی برطرفی کے بعد ووٹ کی عزت کا خواب نظر آیا ۔ اب بھی پی ٹی آئی کو امید عدلیہ سے ہے اور ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ ایسا خواب رہے گا جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں