کرشمہ ساز غیر سیاسی خواتین

’’غیر سیاسی خواتین‘‘ کے ظہور کے ساتھ "موروثیت نہیں اہلیت" کا دعویٰ بھی زمین بوس ہو گیا ہے۔



تحریک انصاف کے کارکنان و راہنما اس پر نازاں تھے کہ "ان کے بانی چیئرمین سیاست میں موروثیت نہیں اہلیت کے علمبردارہیں"۔ مگر ان کا  یہ دعویٰ بھی باقی دعوؤں کی طرح زمین بوس ہوگیا۔ کوئی سیاسی کارکن، سیاست میں موروثیت کی مخالفت آنکھیں بندکرکے نہیں کرسکتا کیونکہ پارٹی قائد کا بیٹا، بیٹی، بھائی یا رشتے دار ہونا جرم نہیں اگر وہ جانشین بننے کا اہل ہو تو پارٹی کے لیے وہی سب سے بہتر آپشن ہوتا ہے، پارٹی چاہے کوئی بھی ہو، پارٹی ورکرز کو سب سے زیادہ قابل قبول اور کارکنوں کو جوڑنے والا قائد کا خونی رشتہ ہی ہوتا ہے۔

مسلم لیگیوں کے لیے مریم نواز، جیالوں کے لیے بلاول بھٹو زرداری، جے یو آئی کے ورکرز کے لیے مولانا کا بھائی یا فرزند اور تحریک انصاف کے ورکرز کے لیے بانی پی ٹی آئی کے گھر کا فرد ہی بہترین آپشن ہوگا۔ ہم تو اپنے کالموں میں کئی بار اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں اور گولڈ اسمتھ کے نواسوں قاسم اور سلیمان کو لاہور ایئر پورٹ پر اتار دیا جائے تو قوم یوتھ کندھوں پر بیٹھا کر سیدھا انھیں مینار پاکستان لے جائیں گے جن میں ایک اسلامک ہسٹری میں ماسٹر کرچکا ہے، وہ جب بدر و حنین، ریاست مدینہ اور فتح مکہ کی کہانیاں سنائے گا تو خان کے سحر میں گرفتار ان کے مریدین جھوم اٹھیں گے۔

ذرا سوچئے خدانخواستہ اگر گولڈ اسمتھ کا نواسہ ایٹمی قوت پاکستان کا وزیراعظم یا صدر بن جائے گا، تو کیا ہوگا؟ کارکنان تو ہر پارٹی کے اپنے قائد کے ساتھ جڑے ہوتے ہیںمگر تحریک انصاف کے ورکرز تو خان پر ایسے عاشق ہیں کہ بغیر سوچے ان کے بیٹے کوبھی اپنا مرشد بنا لیں گے۔ رہی بات سیاسی راہنماؤں کی تو ہر پارٹی میں ’’قائدانہ صلاحیتوں کے دعویدار راہنماؤں‘‘ کا وہم ہوتا ہے کہ وہ قائد کے خونی رشتوں سے زیادہ اہل اور حقدار ہے پارٹی قیادت کے۔

تحریک انصاف کے سیاسی آسمان پر ’’غیر سیاسی خواتین‘‘ کے ظہور کے ساتھ "موروثیت نہیں اہلیت" کا دعویٰ بھی زمین بوس ہو گیا ہے۔ خود پرست بانی پی ٹی آئی کسی پر اعتماد نہیں کرتے وہ ایک ایک کرکے صف اول کے تمام راہنماؤں کو کبھی خود اور کبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں ذلیل کرکے کارکنان کے نظروں سے گراتے رہتے ہیں تاکہ کارکنان بھی نااہل سمجھ کر خان کے اشاروں پر ناچتے رہیں۔

تمام راہنماؤں کو نااہل قرار دے کر بانی چیئرمین نے "غیر سیاسی اہلیہ اور بہنوں" کو تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کو"غیرسیاسی سیاست "سکھانے کے لیے میدان میں اتار دیا ہے۔ خان مانتے نہیں مگر تحریک انصاف کے تمام سیاسی فیصلے پہلے بھی ’’غیر سیاسی بشریٰ بی بی‘‘ ہی کیا کرتی تھی۔ بشریٰ بی بی نے صف اول کے قائدین کو آڑے ہاتھوں لے لیا، بشریٰ بی بی اپنے ملازموں اور ماتحتوں کے ساتھ کس لب و لہجے میں بات کرتی ہیں اس کی ایک جھلک ان کی ایک آڈیو لیک میں پوری قوم سن چکی ہے،اور پہلی باضابطہ سیاسی میٹنگ کی آڈیو لیک نے بھی تہلکہ مچا دیا۔ جس لہجہ میں پارٹی راہنماؤں کی وہ کلاس لی، الامان الحفیظ، پہلے تو اجلاس سے پس پردہ مخاطب رہی مگر تسلی نہ ہوئی تو میٹنگ میں بیٹھ کر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے خوب لتے لیے، واقفان حال نے بتایا ہے کہ ان چاروں معزز راہنماؤں کی ایسی عزت افزائی کی گئی کہ وہ انھیں ہمیشہ یاد رہے گی۔ تحریک انصاف کا ہر راہنما پریشان ہے کہ اگر ’’غیر سیاسی بی بی‘‘ کا انداز سیاست یہ ہے تو جب یہ ’’باقاعدہ سیاسی‘‘ بن کر قیادت سنبھالے گی تو کیا حشر کریں گی؟

24 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے اس اجلاس میں کم و بیش ساڑھے چارسو ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز، صوبائی اور قومی قائدین، گزشتہ اور آیندہ الیکشن میں ٹکٹ کے خواہشمند حضرات اور وزیر اعلیٰ سمیت خیبر پختونخوا حکومت کی کابینہ کے اراکین موجود تھے۔ ’’غیر سیاسی بشریٰ بی بی‘‘ نے سب سے مخاطب ہو کر کہا کہ’’اب پارٹی میں بزدلوں کی کوئی گنجائش نہیں، بلا تفریق و استثنیٰ تمام ذمے داران کو مل کر احتجاج کامیاب بنانا ہے، ہر صوبائی حلقے سے کم ازکم 5 ہزار اور ہر قومی اسمبلی کے حلقے سے کم از کم 10 ہزار افراد لانا، گاڑیوں میں موجود کارکنان کی وڈیو بنانا، کھانے پینے اور دھرنے کے دوران رہنے کے تمام اخراجات برداشت کرنا حلقے کے لیڈران کی ذمے داری ہوگی۔ انھوں نے سب کو متنبہ کیا کہ کوئی گرفتار ہوا تو اسے پارٹی سے نکالا جائے گا اور آیندہ کے ٹکٹ کا فیصلہ اس احتجاج میں پرفارمنس کی بنیاد پر ہوگا۔

جس لہجے میں بی بی مخاطب تھیں ایسا آمرانہ لب و لہجہ تو آج تک بانی چیئرمین نے بھی اختیار نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے ذمے داران ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اگر ’’غیر سیاسی مرشد اعلیٰ‘‘ کے جلال کا یہ حال ہے تو باقاعدہ ’’سیاسی قائدہ‘‘ بننے کے بعد کیا حال ہوگا اور کس طرح ان کے ساتھ چلیں گے؟ خان کے ساتھ وفا کو اللہ رب العزت اور پاکستان کی وفاداری سے تشبیہ دے کر ہر حد پار کر دی گئی ہے اور اگلے دن قائدین نے علی امین گنڈا پور کی موجودگی میں"سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد" کے نعرے لگا کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ، پتہ نہیں اس جہاد کا فتویٰ بشریٰ بی بی نے خود دیا ہے یا کسی انصافی مفتی سے لیا گیا؟

غیر سیاسی بشریٰ بی بی نے یوتھ کو متحرک کرنے کے لیے انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذمے داران سے بھی ’’غیرسیاسی میٹنگ‘‘ کے علاوہ مختلف شہروں کے وفود سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ دوسری طرف خان کی ’’غیر سیاسی بہنوں‘‘ نے ان کے اسپوک پرسنز کے طور پر تحریک انصاف کی قیادت کو پریس کانفرنسز میں لتاڑنا اور ہدایات دینا شروع کر دی ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فاطمہ جناح سے لے کر کلثوم نواز تک خواتین قیادت کی مثالیں دی جاسکتی ہیں، مگر پختون معاشرے میں عورت کی بالادستی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ ’’رن مرید‘‘ مرد کو بزدل سمجھا جاتا ہے۔ 70 کی دھائی میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی کی سیاسی دشمنی ہر حد پارکر چکی تھی۔

ولی خان کی گرفتاری کے بعد جب ان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان مرحومہ نے عملی سیاست میں آکر پارٹی قیادت سنبھالی تو اس وقت مسلم لیگ کے صوبائی صدر خان عبد القیوم خان مرحوم کے یہ الفاظ اخبارات کی شہ سرخیاں بنے کہ ’’عوامی نیشنل پارٹی کوٹھکانے لگانے کے لیے یہ ایک فیصلہ کافی ہے جو ہم کئی سالوں میں نہیں کر سکے‘ پارٹی کی نئی قائد بہت جلد کر دے گی‘‘ اور ان کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی، چند سال میں مقبول ترین عوامی نیشنل پارٹی زمین بوس ہوگئی اور آج تک اس مقام پر نہیں پہنچ سکی جو بیگم نسیم ولی خان کی انٹری سے پہلے تھی۔ لہٰذا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تو اکیلی بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کا بیڑا غرق کرنے کے لیے کافی ہے، جس کی شروعات پشاور کے چار عہدے داروں کے استعفوں سے ہو چکی ہے اور بزبان شاعر:

ابتداء عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

صرف بشریٰ بی بی ہوتی تو شاید پنجاب اور سندھ میںپارٹی پر اتنا فرق نہ پڑتا مگر بشریٰ بی بی اور خان کی بہنوں کے درمیان اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پارٹی کا کیا حشر ہوگا؟

غیر سیاسی خواتین کی یہ انٹری اسٹیبلشمنٹ کی کرشمہ سازی لگتی ہے کیوں کہ تحریک انصاف کی احتجاج کی فائنل کال کے باوجود حکومت مطمئن نظر آرہی ہے۔ حکومتی اطمینان دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ خان نے باہر آنا نہیں اور اسٹیبلشمنٹ ان خواتین کو دوبارہ گرفتارکرنے کی غلطی نہیں کرے گی اورجو کام حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مل کر کئی سال میں نہیں کرسکی وہ یہ خواتین چند مہینوں میں کر کے دکھائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں