جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ غیر آئینی اختیارات سے تجاوز، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ایف 14 اور ایف 15 میں بیوروکریٹس اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے پلاٹس کے کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کے تحریرکردہ فیصلے کو غیر آئینی اور اختیارات سے تجاوز قرار دیدیا۔جسٹس عائشہ ملک کا تحریر کردہ 14 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا گیا۔
واضح رہے فروری 2022میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ (موجودہ جج سپریم کورٹ ) کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پلاٹس سے متعلق نظر ثانی پالیسی غیر آئینی قرار دی تھی اور یہ بھی کہا تھا ریاست کی زمین اشرافیہ کیلئے نہیں بلکہ یہ صرف عوامی مفاد کیلئے ہے۔
جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 21مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو چھ ماہ بعد جاری کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پلاٹس سے متعلق اس نظرثانی شدہ پالیسی کو غیر آئینی قرار دیا جو ہائیکورٹ میں چیلنج ہی نہیں تھی،22 نومبر 2022 کو پلاٹس کی نظرثانی شدہ پالیسی اس دن عدالت کے سامنے آئی جس دن فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
پلاٹس کی نظرثانی شدہ پالیسی پر نہ دلائل دیے گئے نہ ہی وفاقی حکومت کو سنا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں اشرافیہ کے وسائل پر قبضے اور ججز پلاٹس کا ذکر کیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو کہا وہ کیس اس کے سامنے تھا ہی نہیں۔
ججز کے پلاٹس کی اس الاٹمنٹ کو بھی ہائیکورٹ نے معطل کیا جو اس کے سامنے تھا ہی نہیں، یہ آئینی طور پر ناقابل قبول ہے کہ عدالتیں اپنے دائرہ اختیار کو وسعت دیں، نہ تو آئین اور نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
توفیق آصف کیس میں اس عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہائی کورٹ ایسی ریلیف نہیں دے سکتی جو درخواست میں مانگی ہی نہ گئی ہو،ہائی کورٹ خود سے کسی پالیسی کو غیر آئینی یا غیر قانونی قرار نہیں دے سکتی۔
اسلام ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے نظرثانی شدہ پالیسی کو غیر آئینی قرار دیا ،آرٹیکل 10 اے کے تحت ہر شخص کو شنوائی کا حق دینا آئینی تقاضا ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کو فیصلہ دینے سے قبل تمام فریقین کو سننا چاہیے تھا۔
ہائی کورٹ کسی معاملے کو اس وقت سن سکتی ہے جب سامنے کوئی فریق ہو، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی،عدنان سید کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا اپیل بحال کی جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اپیل پر فیصلے کی مصدقہ نقل کے بعد 90 دن میں ہماری آبزرویشنز سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ کرے۔