کے پی اسکولوں کی حالت زار؛ جب تک مطمئن نہیں ہوں گے کیس نہیں نمٹا سکتے، آئینی بینچ

سیکریٹری خزانہ کے پی، سیکریٹری ورکس اینڈ ڈیپارٹمنٹ اور سیکریٹری تعلیم ذاتی حیثیت میں طلب

اسلام آباد:

آئینی بینچ نے خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر لیے جانے والے از خود نوٹس پر سیکریٹری خزانہ کے پی، سیکریٹری ورکس اینڈ ڈیپارٹمنٹ اور سیکریٹری تعلیم کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب تک کتنے اسکول فعال ہو چکے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے پی نے بتایا کہ 463 اسکول اب تک فنکشنل ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ تصویریں جو لگائی ہیں بچے تو دکھا نہیں رہے اس میں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پھر ایسا کریں یہاں بھینسیں باندھ دیں، ہم سیکریٹری تعلیم کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیتے ہیں وہ آ کر بتا دیں گے کہ کتنے اسکول اب تک مکمل ہوئے ہیں۔

وکیل کے پی حکومت نے بتایا کہ مانسہرہ ایبٹ آباد اور طورخم میں 60 اسکول مکمل ہیں جبکہ 30 سے 40 اسکولز 75 فیصد مکمل ہیں، فنڈز کی کمی کی وجہ سے پراجیکٹ مکمل نہیں ہو پا رہا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ فنڈز کون دیتا ہے کیوں نہیں دے رہا، پورے پاکستان کا یہی مسئلہ ہے پراجیکٹ شروع کر دیتے ہیں، دو سال کا وقت ہوتا ہے لیکن 10، 10 سال لگ جاتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مفت تعلیم آئینی تقاضا ہے۔ وکیل کے پی حکومت نے کہا کہ عدالت سے استدعا ہے کیس نمٹا دیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جب تک مطمئن نہیں ہوں گے کیس نہیں نمٹا سکتے، اسکولوں کی عمارت کے ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں بچوں کا زیر تعلیم ہونا بھی ضروری ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا نعرہ ہی تعلیم تھا۔

آئینی بینچ نے سیکریٹری خزانہ کے پی، سیکریٹری ورکس اینڈ ڈیپارٹمنٹ اور سیکریٹری تعلیم کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو ماہ تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس ہائیکورٹس کے اختیارات سے تجاوز کیس

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے چیف جسٹس ہائیکورٹس کے اختیارات سے تجاوز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

وکیل میاں داؤد نے کہا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ٹربیونل میں اپنے ملازمین کے خلاف تمام کیسز ختم کر دیے، سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا یہ اقدام اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بہت اہم بات کی ہے آپ نے، اس کی تفصیل بتائیں۔

وکیل میاں داؤد نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ملازمین کو ایڈوانس انکریمنٹ دیے، وزیراعظم عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرے تو ایکشن ہوتا ہے، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اختیارات سے تجاوز کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس آئینی بینچ میں کم از کم تین ہائی کورٹس کے سابق چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صوبائی ہائیکورٹس کے پاس صوابدیدی اختیارات ہیں، ہم نے وہ صوابدیدی اختیارات بہت محتاط انداز میں استعمال کیے۔

آئینی بینچ نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

مرکزی شاہراوں پر ہیوی ٹریفک کیخلاف درخواست

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے ملک کی مرکزی شاہراوں پر ہیوی ٹریفک کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار عباس آفریدی نے دلائل میں کہا کہ روزانہ 70 لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ لوگ لٹک لٹک کر کیوں سفر کرتے ہیں۔

آئینی بینچ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست منظور کرلی جبکہ اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیے۔ بینچ نے این ایچ اے کو بھی نوٹس جاری کرتے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ جی ٹی روڈز پر اوور لوڈڈ ٹرکس کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

Load Next Story