نواز شریف صاحب نے اپنے پچھلے دور حکومت میں ایک نعرہ لگایا تھا۔ قرض اتارو ملک سنوارو۔ اس اسکیم کے لئے پیسہ اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک اسپشل فنڈ قائم کیا گیا۔عوام نے اس نعرے میں بڑی کشش محسوس کی اور دل کھول کر پیسے اور عطیات دئیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلبا سے لےکر سرکاری اداروں میں ملازم افسران اور ادنیٰ ملازموں نےبھی اپنا حصہ ڈالا۔ مگر افسوس نہ قرض ہی اُتر سکا اور نہ ہی ملک سنورا۔
اُلٹا اس قرض کے حساب کتاب میں فراڈ اور اربوں روپےکے گھپلوں کے الزامات سامنے آگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سیاست دانوں کے ہاتھوں نہ قرض ہی اترنا تھا اور نہ ہی ملک سنورنا تھا ۔۔ اصل میں پاکستانیوں کی اپروچ ہی غلط تھی ۔ اس ملک کو مالی قرضوں سے زیادہ "سیاسی قرضے" اتارنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو عوام نے نا عاقبت اندیش اور نااہل سیاسی لوگوں کو اقتدار میں بٹھا کر کئی قسطوں میں اپنے سر پرچڑھا رکھا ہے۔ یہ اتنی بڑی شرح سُود پر لیا گیا قرض ہے کہ جس کا سود اس کے اصل زر سے بھی بڑھ چکاہے۔
جب بھی دس سال یا پانچ سال کے بعد اس قرض کو اتارنے کا وقت آتا ہے ہمارے عوام یا تو پہلے والے سیاسی قرض کو "ری شیڈیول" کر وا لیتے ہیں یا پچھلا قرض اتارے کے لئے" بھاری شرح سود" والا ایک اور نیا قرض لے لیتے ہیں۔ کھبی شریف قرض کبھی مشرف قرض، کبھی زرداری قرض اور اب پھر نواز شریف قرض۔ دہشت گردی وہ سود ہے جو مشرف قرض کی مد میں ہم سے ابھی تک وصول کیا جا رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور کرپشن کاسود زرداری قرض کی مد میں ابھی تک واجب الاادا ہے اور مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ شریف قرض پر ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، لا قانونیت بیرونی قرضوں اور بدانتظامی کا سود ادا کرتے کرتے ایک سال میں ہی میں قوم کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔
ایسے ممالک جہاں عوام باشعور اور جمہوری نظام اپنی اصل روح کے ساتھ موجود ہے وہاں عوام نااہل اور کرپٹ سیاسی حکمرانوں کی صورت میں قرض کا بوجھ بالکل بھی برداشت نہیں کرتے اور کبھی احتجاج اور کبھی الیکشن میں یہ بوجھ اتار دیتے ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ کبھی مہنگائی کا رونا روتے ہیں کبھی دہشت گردی پر دہائی دیتے ہیں، کبھی بڑھتی ہوئی غربت پر اپنے آپ کو کوستے ہیں لیکن ان مسائل کی اصل جڑ یعنی نااہل حکمرانوں سے چھٹکارے کی کوئی تدبیر نہیں کرتے۔ اب تو ان سیاسی خاندانوں کے بچے بھی تیار ہوچکے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو "ٹیک اوور" کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ لیکن ہم غفلت کی چادر تانے سو رہے ہیں اور کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ عوام کو اب جان لینا چاہیے کہ اپنی حالت بدلنے کے لئے نہ کوئی معجزہ ہوگا نہ کوئی باہر سے آکر ہمیں ان مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو اپنی حالت بدلنے کا
ہمیں خود ہی کرپٹ اور نااہل سیاستدانوں کو فارغ کر کے اپنے سر سےسیاسی قرض اتارنا ہوگا۔ ورنہ ہماری نسلیں مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری اور لاقانونیت کا سود ادا کرتی رہیں گی۔ جس دن اس قوم نے یہ قرض اتار دیا انشاللہ بے پناہ وسائل سے مالا مال یہ ملک سنور جائے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔