احسان، حسن سے ماخوذ ہے جس کے معنی خوبی اور راعنائی کے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں احسان حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو نہایت خوب صورتی اور راعنائی کے ساتھ ادا کرنے پر کہا جاتا ہے۔ دین اسلام میں عبادت صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے سامنے کامل فرماں برداری کا نام ہے۔ اسلامی احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے کو محسن بھی کہا گیا ہے۔
احسان کی توصیف میں قرآن مجید فرقان حمید کی آیات کا مفہوم پیش خدمت ہے:
٭ ’’اور احسان کرو، اﷲ احسان کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
٭ اﷲ انصاف کا اور احسان کرنے کا اور قریبی رشتے داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ نحل)
٭ ’’بے شک! اﷲ احسان کرنے والوں کے اجر ضایع نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ توبہ)
٭ ’’بے شک! اﷲ ان لوگوں کو اپنی معیتِ خاص سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِِ احسان بھی ہوں۔‘‘ (سورۃ النحل)
٭ اگر تم احسان کروگے تو اپنے ہی فائدے کے لیے کروگے اور اگر برائی کروگے تو اپنی ہی جان کے لیے۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)
احسان کی دو اقسام ہیں۔ خالق کے ساتھ احسان اور مخلوق کے ساتھ احسان۔
٭ خالق کے ساتھ احسان: جب بندے کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا تعلق حسین ہوجائے اور وہ اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات اور فرائض و حقوق کو بہ درجہ احسن طریقے سے ادا کرے پھر اس کا دل بھی محبت الٰہی اور خشیت الٰہی سے اس طرح سرشار ہوکہ جیسے اﷲ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے یا وہ اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے تو ایسی صورت کو احسان الخالق کہا جائے گا۔ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی نیتوں کو خالص اﷲ کی رضا کے لیے مخصوص کردینا بندگی کا اعلیٰ ترین مقام ہے اور یہی احسان ہے۔
٭ مخلوق کے ساتھ احسان: جب بندہ مخلوقِ خدا کے ساتھ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنا تعلق حسین بنالے اور اس کا رویہ اﷲ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بہترین ہو، سراپا ایثار و قربانی کا معاملہ ہو، ہاتھ اور زبان سے کسی بندے کو تکلیف نہ پہنچے بلکہ وہ اپنا مال و جان، رزق و دولت، علم و عمل سب مخلوق خدا کو صرف رضائے الہی کے حصول کی خاطر خوش کرنے کے لیے وقف کردے تو ایسا رویہ احسان کہلائے گا۔
احسان کے تقاضے: اسلام کا منشاء ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ نیکی محض رضائے الٰہی کے لیے کرے۔ اﷲ تبارک و تعالی نے نہ صرف انسان بلکہ جانوروں پر بھی احسان کرنا فرض قرار دیا ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھا انداز اختیار کرنا) تم پر فرض کیا ہے لہٰذا جب تم کسی کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ چھری اچھی طرح تیز کرو اور ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
٭ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی پر احسان کرتے ہیں تو بعد میں اس کو جتاتے رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بات کو سخت ناپسندیدگی سے دیکھا ہے۔ اس طرح ہماری نیکی بھی ضایع ہوجاتی ہے اور اس کی دل آزاری بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے مفہوم پیشِ خدمت ہے:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر باطل نہ کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتا، سو اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف چٹان پر مٹی ہو پھر اس پر زور کی بارش ہوجائے اور اسے بالکل صاف کردے کہ اس میں کچھ بھی نہ پاسکیں گے جو کمایا تھا اور اﷲ کافروں کو راہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (بقرہ)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ کی روشنی میں ہمیں احسان کرنے میں کچھ باتوں کا خاص خیال کرنا چاہیے۔
احسان کرکے احسان جتانا نہیں چاہیے۔ تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ احسان دکھاوے کے لیے نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا مقصد صرف اﷲ کی رضا حاصل کرنا ہو۔ زیادہ معاوضہ کی نیت سے بھی احسان نہیں کرنا چاہیے بلکہ احسان نیکی اور بھلائی، خلوص نیّت اور رضائے الٰہی کے واسطے ہو۔ بلا درخواست احسان کرنا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے مفہوم پیش خدمت ہے:
’’اور یقیناً ہم نے تجھ پر ایک بار پہلے بھی احسان کیا جب ہم نے تیری ماں کی طرف وحی کی۔‘‘ (طہٰ)
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں حضرت موسیٰ سے اﷲ تعالیٰ مخاطب ہے کہ ہم نے تجھ پر ایک بار پہلے بھی احسان کیا جب ہم نے تیری ماں کی طرف وحی کی، یہاں اشارہ ہے (واقعہ پیدائش موسیٰ کا) یہ احسان خواہش اور درخواست کے بغیر کیا گیا۔ اب بنی نوع انسان کو بھی یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ احسان بلا درخواست کرنا چاہیے۔
احسان صرف اپنوں اور دوستوں پر ہی نہیں کرنا بلکہ بے مروت اور دشمنوں کے ساتھ بھی احسان کا رویہ برتنا چاہیے جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے کفار قیدیوں کے ساتھ بھی احسان کا سلوک روا رکھا۔ نبی کریم ﷺ ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا ۔ ’’یا رسول اﷲ ﷺ! میں ایک شخص کے پاس سے گزرتا ہوں تو وہ میری مہمانی نہیں کرتا ہے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو میں بھی اس کے ساتھ بدخلقی کا یہی بدلہ دوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں تم اس کی مہمانی کرو۔‘‘ (جامع ترمذی)
نبی پاک احمد مجتبیٰ خاتم المرسلین ﷺ کی سیرت طیّبہ میں احسان کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ آپؐ نے فتح مکہ کے دن ان تمام مخالفین کو معاف کردیا جن کے ظلم و ستم سے بے کس و بے بس اور نہتے مسلمانوں کا خون زمین پر گرا۔ اس سے بڑھ کر احسان کرنے کی مثال دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی۔
اسلام نے اگر احسان کرنے والوں پر کچھ اخلاقی پابندیاں اور کچھ شرائط عاید کی ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہے تو دوسری طرف ان لوگوں پر بھی کچھ پابندیاں عاید کردی ہیں جن پر احسان کیا جاتا ہے۔
٭ احسان یاد کرنے کا حکم:
بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے اﷲ تعالیٰ نے اپنے احسان کا تذکرہ کیا اور احسان کو یاد کرنے کا حکم دیا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی کا مفہوم درج ذیل ہے:
’’اے بنی اسرائیل! میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تمہیں عطا کیں اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔‘‘
٭ محسن کا احسان ماننا:
سورۃ یوسف میں ارشاد ربّانی کا مفہوم درج ذیل ہے:
’’ حضرت یوسف علیہ السلام جس گھر میں تھے اس کی بیوی نے ان کو ارادہ سے پھیرنا چاہا اور دروازے بند کر لیے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا: ’’اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں، تیرا خاوند میرا مربی اور محسن ہے اس نے مجھے کس اچھی طرح رکھا اور احسان فراموش کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔‘‘
رسول کریمؐ نے حضرت ابوبکرؓ صدیق کا احسان مانتے ہو ئے فرمایا: ’’ابوبکرؓ کے احسان کا بدلہ اﷲ تعالیٰ ہی قیامت میں دے گا۔‘‘
’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے۔‘‘
حضور سرور کائنات ﷺ کی عادت تھی کہ اگر کسی سے قرضہ لیتے تو واپسی کے وقت اس کی اصل رقم سے کچھ زیادہ دیتے۔ اگر کوئی آپؐ کو ہدیہ دیتا تو آپؐ اس سے بہتر تحفہ دیتے۔
٭ احسان شناسی اور احسان فراموشی:
احسان شناسی کا مطلب ہے کسی کے احسان کا اقرار کرنا اور اس کی ضد ہے احسان فراموشی۔ یعنی محسن کے احسان کو نظر انداز کرنا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آپؐ نے احسان شناسی کو بہت اہمیت دی ہے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:
’’اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو سودا بیچتے وقت سودا خریدتے وقت اور اپنا حق مانگتے وقت نرم اور احسن انداز اختیار کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 2076)
محسن کے احسان کو نظر انداز کرنے کی قرآن میں بہت ممانعت آئی ہے جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم:
’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو ۔ بے شک! اﷲ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے۔‘‘ (سورۃ بقرہ)
حضرت ابوہریرہؓ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:
’’جو شخص انسان کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اﷲ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔‘‘
(جامع ترمذی)
حضور ؐ نے بیویوں کا ناشکری کے حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی تھیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! وہ اﷲ کے ساتھ کفر کرتی تھیں؟ آپؐ نے فرمایا: خاوند کی ناشکری کرتی تھیں اور احسان کی ناقدری کرتی تھیں۔‘‘(صحیح بخاری)
عصر حاضر میں ہمارا معاشرہ احسان شناسی کے بہ جائے احسان فراموشی کو اپنائے ہوئے ہے حتیٰ کہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ بھی احسان فراموشی کرتے ہیں کہ اس کی عطا کردی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود بھی کفران نعمت کرتے ہیں۔ نعمتوں کی کوئی قدر نہیں کرتے بلکہ شکوہ کرتے ہیں۔
اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا یہ کمال ہے کہ وہ انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر زیور انسانیت سے آراستہ کرتی ہیں۔ اگر انسان اسلامی ہدایات و احکامات کی روشنی میں اپنی زندگی کے تمام معاملات حل کرے تو جہاں وہ ایک کامل مومن بنتا ہے وہاں ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل میں بھی ممد و معاون بن سکتا ہے۔ اس وقت ہمارا معاشرہ تنزلی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے جس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ احسان فراموشی بھی ہے اگر اﷲ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بہ جائے بدسلوکی ہوگی تو مصیبتوں اور نا انصافیوں کا ارتکاب ہوگا اور پھر معاشرے میں فساد پھیلے گا۔ اختلافات میں مزید اضافہ ہوگا اور ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کا انبار لگ جائے گا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے روزمرہ کے معاملات طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ایک صحت مند اور مثالی معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔ آمین