اسموگ پر قابو پایا جا سکتا ہے

پاکستان کو چین سے رہنمائی لے کر جنگی بنیادوں پر بڑے شہروں کی فضا کو صاف کرنا ہو گا۔


عبد الحمید November 22, 2024
[email protected]

سان فرانسسکو امریکا میں یہ1943کی ایک روشن دوپہر تھی۔لوگ بازاروں میں خرید و فروخت میں مصروف تھے کہ انھوں نے ذرا فاصلے پر ایک گہرا بادل اُٹھتے دیکھا۔لوگوں کو خیال ہوا کہ بارش برسنے والی ہے لیکن ذرا دیر بعد بادل قریب آنے پر ان کی آنکھوںمیں جلن ہونے لگی۔جلن بڑھنے پر سان فرانسسکو کے شہریوں نے جانا کہ یہ بارش برسانے والا بادل نہیں بلکہ کوئی زحمت ہے۔چونکہ یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا اس لیے لوگوں کو گمان ہوا کہ ان کے ملک پر کیمیکل ہتھیاروں سے حملہ ہو گیا ہے۔

ان بادلوں کو جہنمی بادل Hellish cloudsکہا گیا۔اسی طرح لوگ 5دسمبر1952 کی صبح لندن میں اُٹھے تو شہر کو گہرے سیاہ دھویں میں ڈوبا پایا۔اس دھویں کی وجہ سے حدِ نگاہ صفر ہو چکی تھی۔ایک گاڑی والا دوسری گاڑی کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ٹرین ڈرائیور پٹری دیکھنے سے قاصر تھے،حتیٰ کہ پیدل چلتے لوگ بہت قریب آنے پرہی پہچان کر پاتے تھے۔پائلٹس کو رن وے بالکل بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔پورا شہر دھند میں گم ہو گیا تھا۔لندن کے باسیوں نے سارا دن بہت پریشانی میں گزارا۔شام تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ یہ عام دھند نہیں ،بلکہ کچھ اور ہے۔

یہ گاڑھا سیاہ دھواں اگلے چار دن میں ہزاروں جانیں نگل گیا۔لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے۔لندن کی سماجی زندگی رک گئی، ٹریفک بند ہو گئی،ٹرینیں بند ہو گئیں،فلائیٹس منسوخ ہو گئیں۔ دفتروں اور اسکولوں میں چھٹی کر دی گئی۔شاپنگ سینٹروں پر تالے پڑگئے، لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا،شہر میں ہو کا عالم تھا۔کسی کسی وقت کسی ایمبولنس کی آواز سے یہ سناٹا ٹوٹتا تھا۔ قبرستان اور اسپتال بھر چکے تھے حتیٰ کہ اسپتالوں میں مردے اور مریض ایک بیڈ پر نظر آئے۔یہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال پانچ دن جاری رہی۔

لندن میں پانچ دن کے بعد 9دسمبر کی رات بارش شروع ہو گئی اور فضا آہستہ آہستہ دھلنے لگی لیکن متاثرہ افراد کی اموات کا سلسلہ جاری رہا۔ایک اندازے کے مطابق لندن کے بارہ ہزار افراد اس عذاب سے لقمہء اجل بنے جب کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ،دمے،آشوبِ چشم،ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے۔ماحول کے ماہرین نے تحقیقات شروع کیں۔پتہ چلا کہ 5سے9دسمبر کے دوران روزانہ ہزاروں ٹن مضرِ صحت اسموگ پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے۔

ماہرین نے سوچنا شروع کیا کہ یہ تمام کیمیکلز اجزا کہاں سے آ رہے تھے۔پتہ چلا کہ یہ ایک لمبے عرصے کی غلطیوں کا نتیجہ تھے۔لندن جو کہ نو آبادیاتی دور میں دنیا کا سب سے اہم شہر تھا ،اس کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔شہر میں ہریالی ناپید ہوتی جا رہی تھی،شہر کے گرد جنگل کٹ چکے تھے۔ندیاں اور جھیلیں ختم ہو گئی تھیں یا پھر گندے نالوں اور جوہڑوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ارد گرد کے مضافات اور گاؤں شہر میں ضم ہو چکے تھے،کھیت کھلیانوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں نے لے لی تھی۔آج آپ اسلام آباد میں یہ تیزی سے ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔

صنعتی انقلاب تو برپا ہو چکا تھا لیکن اس کی وجہ سے شہر میں چھوٹی بڑی ہزاروں فیکٹریاں لگ گئی تھیں۔بجلی ایجاد ہوئی تو کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس لگ گئے۔ٹرین سروس شروع ہوئی تو دھواں اڑانے والے ٹرین انجن کالا دھواں اگلنے لگے۔گاڑیاں آئیں تو فضا میں دھواں ہی دھواں۔لوگ بھی دھویں کے مضر اثرات سے نا آشنا تھے۔لندن کی فضا ان اقدامات کے نتیجے میں آلودہ تر ہوتی گئی،ہوا میں آکسیجن کی مقدار کم ہونے لگی۔یہ سلسلہ چلتے چلتے دسمبر 1952تک پہنچ کر جان لیوا عذاب بن گیا۔

اس دھویں کو اسموک اور فوگ کے دو لفظوں کو ملا کر اسموگ کا نام، اور لندن کے اس عظیم سانحے کو گریٹ اسموگ آف لندن کا نام دیا گیا۔ 2013کے لگ بھگ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اسموگ نے ڈیرے ڈال دئے۔ یہاں بھی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے لیکن چینی قیادت نے انڈسٹریل ترقی کو کچھ اس ڈھنگ سے منصوبہ بندی کرکے آگے بڑھایا کہ ٖفضا بھی صاف ہو جائے اور ترقی بھی جاری رہے۔اس سلسلے میں چین کی مساعی کامیاب رہی۔

سان فرانسسکو میں اٹھنے والے زہریلے بادل وی او سیVOC، Volatile Organic Compound  تھے۔ان میں مختلف کیمیکلز پائے جاتے ہیں۔یہ روم ٹمپریچر پر بخارات بن کر ہر وقت ہوا میں معلق رہتے ہیں۔ہمارے صنعتی یونٹس جو کیمیکلز پیدا کرتے ہیں،ان میںکاربن، ہائیڈرو جن،سلفر، اور کلورین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔اگر لمبے عرصے تک آدمی کو ایسی فضا میں سانس لینا پڑے تو ہائی بلڈ پریشر،گردوں،آشوبِ چشم اور سانس کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔فلو تو ہو ہی جاتا ہے۔ گاڑیوں کے دھویں میں نائٹرک آکسائڈ کی کافی مقدار ہوتی ہے۔پاکستان میں پٹرول بہت گھٹیا کوالٹی کا ہوتا ہے اس لیے نائٹرک آکسائڈ کی مقدار بھی خاصی ہوتی ہے۔اسموگ کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں،ایک فوٹو کیمیکل اسموگ اور دوسرا انڈسٹریل اسموگ۔فوٹو کیمیکل اسموگ میں VOC اور نائٹرک آکسائڈ دونوں ہوتے ہیں۔

انڈسٹریل اسموگ فاسل فیول کے جلنے،گاڑیوں کے دھویں اور کارخانوں سے پیدا ہوتا ہے۔پاکستان میں دونوں قسم کے اسموگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔گاڑیوں کے زہریلے دھویں،اینٹوں کے بھٹوں اور ٹائر جلا کر فائدہ حاصل کرنے سے بہت تباہی پھیل رہی ہے۔ گریٹ اسموگ آف لندن کے بعد انتظامیہ نے کلین ایئر ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس کروایا۔یہ ایک چھ نکاتی پروگرام تھا۔اس کے تحت حکومت نے شہر کے اندر کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی۔سردیوں میں بجلی سستی کر دی جاتی تھی تا کہ لوگ بجلی کے ذریعے گھروں کو گرم کر سکیں۔

حکومت نے لندن شہر کے اندر تمام صنعتی یونٹس بند کر دئے۔مالکان کو شہر سے ذرا دور مفت جگہ فراہم کی گئی تاکہ وہ اپنی فیکٹریاں شہر سے باہر منتقل کر سکیں۔تمام پاور پلانٹس دو برسوں میں لندن سے دور منتقل کر دئے گئے۔ شہر اور شہر کے اطراف درخت کاٹنا،زرعی زمینوں کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ کیا گیا اور پرائیویٹ گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی۔پٹرول کے اعلیٰ معیار کو یقینی بنایا گیا۔حکومت نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ان اصلاحات پر کام شروع کیا اور صرف چار سال میں لندن کی فضا کو اسموگ فری قرار دے دیا گیا۔چین نے بھی جنگی بنیاد پر کام کر کے بیجنگ کی فضا کو صاف کر دیا۔

پنجاب کچھ عرصے سے شدید اسموگ کا شکار ہو رہا ہے۔لاہور کئی سالوں سے دنیا کا سب سے آلودہ ترین شہر گردانا جا رہا ہے۔فضا میں اگر 50اے کیو آئی تک آلودگی ہو تو ہوا صاف گردانی جاتی ہے۔50سے 80اے کیو آئی تک ہمارے پھیپھڑے برداشت کر لیتے ہیں مگر لاہور اور ملتان میں یہ مقدار دو ہزار تک چلی گئی ہے۔بچے اور بوڑھے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔عظیم شہر لاہور جو باغات اور تعلیمی اداروں کا شہر ہے،رہنے کے قابل نہیں رہا۔اگر ہم لاہور کی فضا کا ٹیسٹ کریں تو اس میں کاربن مونو آکسائڈ، سلفر اور ہائیڈروجن کی کافی مقدار ملے گی۔اگر ہم روزانہ 50 سگریٹ پیئیں تو ہمارے پھیپھڑوں کو اتنا ہی نقصان ہو گا جتنا لاہور کی فضاء میں ایک دن سانس لینے سے ہو رہا ہے۔لاہور میں آلودہ فضا کی چار بڑی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ناقص پٹرول اور گاڑیوں کا زہریلا دھواں ہے۔

ایک اندازے کے مطابق لاہور میں روزانہ لگ بھگ65لاکھ گاڑیاں شہر میں چلتی ہیں۔ دوسرا سورس کارخانوں سے پھیلنے والی گندگی ہے۔ ہمارے صنعت کار کروڑوں اربوں کا کارخانہ تو لگا لیتے ہیں لیکن ایک تھوڑی سی رقم سے اس کے دھویں اور فضلات کو ٹریٹ کرنے سے کتراتے ہیں۔سوک سینس نہ ہونے کے برابر ہے۔

لاہور، فیصل آباد، ملتان اور کراچی کے اندر اور مضافات میں قائم تمام صنعتی یونٹوں کو فی الفور شہر سے دور منتقل کرنا ہو گا۔لاہور اور سیالکوٹ میں بے شمار احاطوں میں ٹائر جلا کر تاریں اور تیل حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو چین سے رہنمائی لے کر جنگی بنیادوں پر بڑے شہروں کی فضا کو صاف کرنا ہو گا۔خدا کرے ہم ہوش کے ناخن لیں۔صاف فضا، صاف پانی اور صاف ماحول ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں