1988 میں جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا کے بعد 1997 تک نو سالوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو دو حکومتیں قائم ہوئی تھیں ملک میں مارشل لا نہیں تھا اور قومی سطح پر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دو قومی رہنماؤں کی طرح ابھرے تھے۔ 1988 میں وفاق میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم اور نواز شریف منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے اور دونوں میں محاذ آرائی کا آغاز ہوا تھا اور غلام اسحاق خان صدر منتخب ہوئے تھے اور جنرل ضیا الحق کے باعث دونوں میں بہت قربت تھی۔
غلام اسحاق خان نے 58/2-B کے حامل اختیار کے تحت پہلے بے نظیر اور بعد میں نواز شریف کی حکومتیں برطرف کی تھیں اور مداخلت کے باعث صدر مملکت غلام اسحاق اور وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی ضد اور من مانیوں کے باعث گھر جانا پڑا تھا۔ اس وقت نواز شریف کا ’’ ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا جملہ بڑا مشہور ہوا تھا اور نئے الیکشن میں بے نظیر دوبارہ اور بعد میں نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے تھے اور 1997 کے انتخابات میں انھیں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی اور انھی کے دور میں ملک ایٹمی طاقت بنا تھا جس سے انھیں مقبولیت ملی تھی اور ساتھ ہی انھوں نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا کیونکہ صدر کے ہاتھوں برطرفی کا انھیں خطرہ نہیں تھا اور وہ کابینہ کو اہمیت دیتے تھے نہ ارکان قومی اسمبلی کو۔ پنجاب میں شہباز شریف مضبوط وزیر اعلیٰ اور محدود اختیارات کے مالک محمد رفیق تارڑ صدر مملکت تھے اور بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں۔
میاں نواز شریف بہت زیادہ پر اعتماد تھے اور اپنی پسندیدہ کابینہ سے مرضی کے فیصلے کراتے تھے اور ارکان اسمبلی سے ملتے تھے نہ سینیٹ و قومی اسمبلی کو اہمیت دیتے تھے، نہ پارلیمنٹ میں آتے تھے۔ سارے فیصلے بالا بالا ہی کر لیے جاتے تھے اور جس جنرل پرویز مشرف کو انھوں نے نیچے سے اوپر لا کر آرمی چیف بنایا تھا وہ بھی بعد میں من مانی کرنے لگے تھے۔
سیاچن کے باعث دونوں میں اختلافات بڑھے تھے اور 1999 میں جب وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کی جگہ مرضی کا آرمی چیف لگانا چاہا تو ناکام رہے اور جنرل پرویز نے انھیں برطرف کر دیا تھا اور وہ وزیر اعظم سے ناراض تھے۔ نواز شریف کی برطرفی پر بے نظیر بھٹو بھی خوش تھیں اور نواز شریف سے گجرات کے چوہدری، سندھ کے پیر پگارا، پنجاب سے حامد ناصر چٹھہ، شیخ رشید و دیگر (ن) لیگی رہنما بھی ناراض تھے جنھوں نے اس برے وقت میں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ شریف فیملی کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے انھیں جلا وطن کر کے ان کی صنعتوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔
ان کی جلاوطنی کے دوران مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر بنائے گئے تھے اور انھوں نے طویل قید کاٹی اور مصائب جھیلے تھے۔2008 میں جلاوطنی کے بعد شریف فیملی وطن واپس آئی تو ان کے قریبی ساتھی ان سے ناراض ہوکر (ن) لیگ سے دور ہو چکے تھے کیونکہ (ن) لیگ نے بعد میں جاوید ہاشمی و دیگر (ن) لیگیوں کو ناراض اور نظرانداز کیا تھا ۔ موجودہ صورت حال میں (ن) لیگی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، چوہدری نثار، سابق گورنر اور وزرائے اعلیٰ ذوالفقار کھوسہ، محمد زبیر، لیاقت علی جتوئی، غوث علی شاہ، سردار مہتاب عباسی اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد مسلم لیگی وزیر مسلم لیگ (ن) سے فاصلہ کرچکے تھے۔
سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا خاتمہ خود قیادت کے غلط فیصلوں سے ہوا۔ پیپلز پارٹی کو خوش رکھنے کے لیے تیسری بار بھی وزیر اعظم بن کر سندھ میں اپنے بچے کچھے رہنماؤں کو ناراض کیا وہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔
پنجاب ہی نہیں کے پی اور بلوچستان کے مسلم لیگ (ن) کے جن رہنماؤں نے (ن) لیگ چھوڑی انھیں منانے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ ناراض ساتھیوں کو منانا صرف آصف زرداری کو آتا ہے اور اپنے پرانے ساتھیوں کو اہمیت نہ دینے، انھیں منانے کی خو نواز شریف میں ہے نہ عمران خان میں۔ مسلم لیگ (ن) میں سب سے زیادہ بے وفائیاں ہوئیں جس کی ذمے دار (ن) لیگی قیادت ہے۔ عمران خان سے زیادہ قید اور مشکلات (ن) لیگی قیادت نے برداشت کیں اور موجودہ شہباز حکومت کے فیصلوں سے (ن) لیگی روٹھے اور عمران خان کو مقبولیت ملی جس کی ذمے دار بھی (ن) لیگ ہی ہے۔