یہ سطور جمعرات،21نومبر، کی علی الصبح لکھی جا رہی ہیں ۔ ہر طرف ایک ہی غلغلہ سنائی دے رہا ہے: 24نومبر کی فائنل کال کا غلغلہ!کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ راولپنڈی کی ایک جیل میں پڑا ایک شخص احتجاج کی کال دیتا ہے اور سارے ملک میں تھرتھلی مچ جاتی ہے۔
زندانی کی آواز پر لبیک کہنے والے بیقرار ہو جاتے ہیں۔ ایک سال سے زائد عرصے سے یہ قیدی جیل میں پڑے پڑے حکومت کے لیے ہمہ وقت آزمائشوں اور امتحانوں کا باعث بن رہا ہے ۔ابھی تک اِس قیدی اور اس کے وابستگان کی شوریدہ سری میںکوئی فرق نہیں آیا ۔اب اِس قیدی کی جانب سے24نومبر کی کال دی گئی ہے تو ایک بار پھر حکومت اور انتظامیہ اِس کال کی ممکنہ شدت اور نتائج سے پریشان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی کسی قدر، یقیناً، متفکر ہوگی ۔
وطنِ عزیز کے ہر قسم کے میڈیا میں اِسی تاریخ کی ہمہ ہمی سنائی و دکھائی دے رہی ہے۔ حیرانی ہے کہ 24نومبر ایسے حالات میں برپا کیا جارہا ہے جب21نومبر کو دہشت گردوں نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ایک درجن جوانوں کو شہید کرڈالا ہے۔
وطنِ عزیز کے معاشی ، اقتصادی اور سفارتی حالات قابلِ فخر اور قابلِ ستائش نہیں ہیں ۔ بڑی مشکل اور جوکھوں سے موجودہ حکومت اِسے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔SIFCایسا مضبوط ، محکم اور مستحکم نیا ادارہ بھی حکومت کے لیے معاون ثابت ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، مقدور بھر بھاگ دوڑ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ عالمی فورموں میں عالمی لیڈروں سے اُن کی بھرپور ملاقاتیں اِسی مقصد و ہدف کے گرد گھوم رہی ہیں ۔ مغرب و مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک پاکستان سے کئی معاشی MOUs کر چکے ہیں ۔ پاکستان میں مبینہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے وعدے وعید ہو چکے ہیں ۔
اووَرسیز پاکستانیوں کی بھجوائی گئی Remittancesمیں خاصا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ دراصل حکومتی اقدامات پر اعتماد کا مظہر بھی ہے ۔ ساتھ ہی مگر ملک میں دہشت گردی کی کئی خونی اور خونریز وارداتیں بھی دیکھنے سننے کو مل رہی ہیں ۔ آئے روز ہماری سیکورٹی فورسز کے افسر اور جوان، وطنِ عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کی حفاظت کے لیے، دشمن اور دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیوں کا جرأت و استقامت سے مقابلہ کرتے ہُوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ۔
ایسے پیش منظر اور پس منظر میں پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آئے روز احتجاجات کی کال دینا شائد ملکی سالمیت ، ملکی سلامتی اور ملکی معیشت کے لیے مناسب نہیں ہے ۔ یہ سلسلہ مگر رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ اِس غیر منقطع سلسلے نے حکومت کے اعصاب پر مستقل اور متنوع دباؤ ڈال رکھے ہیں۔ یہ دباؤ ملکی معیشت اور امن کے لیے خاصے نقصان دہ ہیں۔ ہمارے ایک ہمسائے اور دشمن ملک کے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف عیاں ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی خونی وارداتوں ، بلوچستان کی کالعدم مسلّح جماعتوں کی خونی حرکتوں اور پی ٹی آئی کے آئے روز کے احتجاجوں سے خاصے خوش ہیں ۔
ایک عام پاکستانی کو اگر یہ سب نظر آ اور محسوس ہورہا ہے تو ہمارے ادارے کیسے اِن سب مناظر اور دگرگوں حالات سے بے خبر ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 24نومبر کی ’’تاریخ سازتاریخ‘‘ سے 6دن قبل وفاقی دارالحکومت میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کی زیر صدارت ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی ’’اپیکس کمیٹی‘‘ کا اجلاس ہُوا ۔ اِس اجلاس کی اہمیت اور حساسیت کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اِس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ ، وفاقی کابینہ کے ارکان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر بھی شریک ہُوئے ۔ اِس اجلاس میں یہ الفاظ خاصے اہم ہیں:’’ملکی سیکورٹی میں رکاوٹ بننے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔‘‘
یہ الفاظ کہنے کو تو مختصر ہیں مگر اپنی جامعیت میں ہمہ گیر اور اجتماعیت کے حامل ہیں ۔ یہ الفاظ ایسے موقع پر ادا کیے گئے ہیں جب 24نومبر کی مبینہ ’’فائنل کال‘‘ کا شور اور شوریدہ سری ہر جانب سنائی دے رہی ہے۔ اِن الفاظ میں انتباہ بھی ہے ۔ یہ انتباہی پیغام سب تک پہنچ گیا ہوگا ۔
شائد اِسی بین السطور پیغام ہی کا اثر ہے کہ اڈیالہ جیل کے قیدی نے اپنے 2معتمد ترین ساتھیوں (علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر خان) کو ، مبینہ طور پر، یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ24نومبر سے قبل مذاکرات کر سکتے ہیں ۔ یہ اجازت مگر مشروط بھی ہے اور پہلے سے جاری ضِد کا تسلسل بھی ۔ یعنی 24نومبر سے قبل مذاکرات کے لیے یہ دونوں متعینہ افرادکسی سیاستدان سے مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ بانی پی ٹی آئی کا حکم ہے کہ مذاکرات اسٹیبلشمنٹ سے کیے جائیں۔ یعنی ضِد اور ہٹ دھرمی کی سُوئی تو وہیں اٹکی ہُوئی ہے ۔ پھر کوئی درمیان کا راستہ اور مفاہمت کی راہ نکلے تو کیونکر ؟ ممکن ہے جب یہ سطور شائع ہوں تو اُس وقت تک 24نومبر کی فائنل کال کو ٹالنے، موخر کرنے اور آگے بڑھانے کا کوئی فارمولہ ایجاد کر لیا جائے ۔20نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو توشہ خانہ 2میں ضمانت بھی تو دے دی ہے اور رہائی کا حکم بھی جاری کر دیا ہے ۔
24نومبر کی مبینہ فائنل کال کے مقاصد و اہداف کیا ہیں؟ بانی پی ٹی آئی ، اُن کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان اور اُن کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی سے منسوب یہ 4مقاصد و اہداف یوں سامنے لائے گئے ہیں: (1)26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ(2) جمہوریت اور آئین کی بحالی(3) پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کی بحالی (4) پی ٹی آئی کے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی!! کہنے سننے کو تو 24نومبر کے احتجاج کے لیے مذکورہ چار سخت اور متشدد نکات ہی مقاصد ہیں ، مگر سب جانتے ہیں کہ اصل مقصد فقط ایک ہی ہے : بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی !حیرت خیز بات یہ ہے کہ اِس بار اِن نکات کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کا ’’فریضہ‘‘ دو خواتین ادا کررہی ہیں ۔ اور ساتھ ہی یہ دونوں خواتین خود کو ’’غیر سیاسی‘‘ بھی کہہ رہی ہیں ۔
عجب تضاد ہے ! بشریٰ بی بی صاحبہ سے منسوب تو ایک آڈیو کال بھی لِیک ہو گئی ہے جس میں وہ بظاہر پی ٹی آئی قیادت ، کارکنوں اور پی ٹی آئی کے جملہ ارکانِ اسمبلی کو یہ حکم دیتی سنائی دے رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کا ہر ایک ایم این اے10ہزار اور ہر ایم پی اے5ہزار کارکنان کو لے کر24نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچے ۔ اور ساتھ ہی یہ’’تڑی‘‘ بھی دی گئی ہے کہ اگر اِس حکم پر من و عن عمل نہ کیا گیا تو اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹوں سے محروم کر دیے جاؤ گے ۔ ایک اور مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی ہے ۔ اور یہ پی ٹی آئی کے شیر دل رکنِ قومی اسمبلی، شیر افضل مروت، کی بتائی جارہی ہے ۔ اور موصوف اِس آڈیو میں محترمہ بشریٰ بی بی کے حکم کو چیلنج کرتے سنائی دے رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ 24نومبر کی فائنل کال کے پس منظر میں پروپیگنڈے اور فیک نیوز کا بھی غلبہ ہے ۔ سچ اور درست کو تلاش کرنا بھُوسے میں سُوئی کو تلاش کرنے کے مترادف بن گیا ہے۔ مذکورہ آڈیو کالز کو بھی اِسی زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے ۔ آئیے دعا کریں کہ24نومبر کی تاریخ تصادم کی نہیں بلکہ صلح جوئی اور امن و آشتی کی تاریخ ثابت ہو ۔ آمین ۔