مفاہمت کی سیاست
قومی سیاست مفاہمت کے مقابلے میں سیاسی دشمنی اور مختلف نوعیت کے تنازعات میں گھری نظر آتی ہے ۔اگرچہ تمام فریقین یہ ہی دعوی کرتے ہیں کہ سیاسی ،سماجی ،معاشی اور سکیورٹی کے استحکام کے لیے ہمیں جمہوری بنیاد پر ایک بڑی سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے ۔
یہ مفاہمت سیاست دانوں ، سیاسی اور مختلف گروپوں کے درمیان درکار ہے ۔ اگر واقعی بطور ریاست ، حکومت اور معاشرہ ہم نے اپنے داخلی و خارجی چیلنجز سے نمٹنا ہے تو اس کا علاج سیاسی تنہائی سے ممکن نہیں ہوگا۔ مفاہمت اور آگے کی طرف بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہی ہماری ریاستی ضرورت ہے ۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان اختلافات نمایاں ہیں جنھوں نے سیاسی دشمنی کی شکل اختیار کی ہوئی ہے ۔ اس سیاسی دشمنی نے ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کے امکانات کو محدود کیا ہوا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ سب ہی ایک دوسرے پر سیاسی سبقت اور بالادستی چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین شکست کو تسلیم کرلیں یا خود کو سرنڈر کردیں ۔
یہاں جو مفاہمت کی بات چیت ہوتی بھی ہے تو اس میں جارحانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جو مفاہمت کو پس پشت ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔ مفاہمت کے عمل میں اگر ہم نے قومی معاملات کی بنیاد پر نہیں سوچنا اور محض ذاتیات پر مبنی مسائل کو ہی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہی مفاہمتی گاڑی کو چلانا ہے تو اس کے نتائج نہ تو ماضی میں کسی کو اچھے ملے اور نہ ہی اب مل سکیں گے۔
پی ٹی آئی کے لیے بہت سے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں نے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی اور کئی مختلف نوعیت کی تجاویز بھی دیں مگر پی ٹی آئی کے جارحانہ رویے کے باعث نتیجہ بے سود رہا۔ حکومت کا اپنا رویہ بھی مفاہمت کے خلاف ہے۔کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کو فائدہ اور حکومت کو نقصان ہوگا ۔حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں مفاہمت ہو ۔پی ٹی آئی کو بھی اپنے جارحانہ رویہ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
پی ٹی آئی نے24نومبر کی کال پر جو چار نکاتی ایجنڈا جاری کیا ہے اس میں 26ویں ترمیم کا خاتمہ ، آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی ، عوامی مینڈیٹ کی واپسی اور تمام سیاسی کارکنوں کی رہائی سمیت ان پر تمام مقدمات کا خاتمہ ہے ۔بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ طاقت کا مرکز حکومت نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ ہے اور اسی بنیاد پر وہ جب بھی مذاکرات یا مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو ان کا واضح اشارہ اسٹیبلیشمنٹ کی طرف ہی ہوتا ہے ۔
حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے تناظر میں چند بیرون ممالک میں ان کی حمایت میں مختلف نوعیت کی قراردادیں حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں۔اس دباؤ میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور عالمی ڈیجیٹل میڈیا استعمال ہو رہا ہے ۔ جب کہ ہماری داخلی سیاست میں جو بڑا چیلنج ہے وہ بھی بانی پی ٹی آئی ہی بنے ہوئے ہیں ۔
بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات موجود ہیں ۔ ان کی رہائی کب ہوتی ہے ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں ۔ ہمیں اپنے داخلی معاملات کا علاج داخلی محاذ پر حل کرلینا چاہیے۔اچھی بات یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر بانی پی ٹی آئی کو بنیاد بنا کر ان کی جماعت کے ساتھی اسٹیبلیشمنٹ سے رابطے میں ہیںان میں کے پی کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور اور پارٹی کے قائم مقام سربراہ بیرسٹر گوہر شامل ہیں اور اس کی ایک جھلک ہمیں نیشنل اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں علی امین گنڈا پور کی جانب سے بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کا مقدمہ پیش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو پس پردہ میں چل رہا ہے ۔
پی ٹی آئی میں بڑا گروہ یہ چاہتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں جو بھی انتظامی نوعیت کی رکاوٹیں ہیں وہ ختم ہوں اور بانی کی رہائی ممکن ہو تاکہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان فاصلے کم ہوں۔کچھ لوگوں کے بقول یہ تجویز کہ بانی پی ٹی آئی غیر مشروط طورپر 9مئی کے واقعات پر معافی مانگ لیں مگر بانی پی ٹی آئی کے بقول جب تک اس پرعدالتی کمیشن نہیں بنتا اوریہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم ان واقعات کے ذمے دار ہیں معافی ممکن نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 24نومبر کی کال سے پہلے مفاہمت کے نام پر کچھ ہوتا ہے یا یہ مفاہمت کی گاڑی کو ایسے ہی روک روک کرچلایا جائے گا۔
اس سے پہلے یہ نقطہ بھی واضح ہوجائے گا کہ مفاہمت اور مزاحمت کے نام پر کس عمل نے آگے بڑھنا ہے ۔یقینی طور پر مفاہمت نہیں ہوتی اور اسلام آباد کی طرف پی ٹی آئی کی سیاسی چڑھائی ہونی ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک اور بڑا ٹکراؤ ہوگا اور سیاسی تلخیوں سمیت سیاسی ڈیڈ لاک میں اور زیادہ گہرائی پیدا ہوگی ۔پی ٹی آئی کا امتحان ہے کہ وہ اس معرکے میں سیاسی طور پر کیسے کامیاب ہوتی ہے اور حکومت کا چیلنج یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا سیاسی راستہ کیسے روکا جائے ۔
عمومی طور پر اگر واقعی بانی پی ٹی آئی اورحکومت کے درمیان مفاہمت نے آگے بڑھنا ہے تو مفاہمت کے ماحول میں بہتری پیدا کرنے کے لیے اعتماد سازی کی بحالی یقینی بنائی جائے ۔طاقت کے انداز میں یا جارحانہ رویہ کی حکمت عملی کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو پھر مفاہمت کو کسی بھی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکے گی ۔مفاہمت کے لیے سب کی طرف سے تحمل ، بردباری ،سیاسی ہم آہنگی کو اختیار کرنے اور سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی امنگ ہونی چاہیے۔کیونکہ پاکستان جن چیلنجز کا شکار ہے۔
اس کا واحد علاج ہی مفاہمت کی سیاست سمیت آئین وقانون کی حکمرانی، عوامی مینڈیٹ کی پزیرائی، عوامی مفادات اورسیاسی وجمہوری راستے کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سب کردار انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے اپنے آئینی ،قانونی ، سیاسی ،جمہوری اور انتظامی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں ۔ایک دوسرے کے دائرے کار میں مداخلت کی سوچ یا عمل کی بنیاد پر سوائے ٹکراؤ کے کچھ نہیں ملے گا ۔ اس لیے ہماری ترجیح صرف اور صرف حقیقی مفاہمت سے جڑی ہونی چاہیے۔