کے پی میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے لیکن صوبائی حکومت بالکل غافل ہے، اے این پی

وزیراعلیٰ، گورنر اور آئی جی کا آبائی ضلع ڈی آئی خان نو گو ایریا بن چکا ہے، میاں افتخار حسین


احتشام بشیر November 22, 2024
افتخار حسین نے صوبائی اور مرکزی حکومت کے اقدامات پر عدم اطمینان کیا—فوٹو: فائل

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبرپختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے صوبے میں دہشت گردی کے واقعات پر حکومتی اقدمات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے صوبے میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے لیکن صوبائی حکومت اس حوالے سے بالکل غافل ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ کرم میں مسافروں کے قتل عام میں بربریت اور ظلم کی تمام حدیں تمام کی گئیں، مسافروں کے کانوائے کو تحفظ دینے میں ایف سی، پولیس اور فوج کیوں ناکام ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دن دہاڑے گولیاں برسا کر شدت پسند غائب ہوجائیں، کرم کے اندوہناک واقعے کو فرقہ واریت سے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے اور فرقہ واریت کا رنگ دے کر دہشت گرد اس سے اپنے عزائم پورے کرنا چاہتے ہیں،

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کرکے عوام کے تمام شکوک و شبہات دور کیے جائیں، پختونخوا کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، تحفظ دینے والا کوئی نہیں ہے۔

افتخار حسین نے کہا کہ جنوبی اضلاع میں شام کے بعد عملی طور پر دہشت گردوں کی حکومت ہوتی ہے، حالات کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ پولیس کو تھانوں تک محدود کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 40 سال سے پختون دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں، افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ حالات پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔

رہنما اے این پی نے کہا کہ وزیراعلیٰ، گورنر اور آئی جی کا آبائی ضلع ڈی آئی خان نو گو ایریا بن چکا ہے، عوام کے پاس اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرستان اور تیراہ کے لوگ پہلے سے ہی کئی برسوں سے آئی ڈی پیز ہیں، بار بارآپریشن کرنے کے لیے آواز اٹھانا جھوٹ کے سوا کچھ نہیں، بتانا چاہتے ہیں کہ پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن رکا ہی نہیں، دہشت گردی کا مسئلہ یہ لوگ نہ آپریشن سے حل کرسکے ہیں اور نہ مذاکرات سے، آپریشن اور مذاکرات دونوں میں نقصان ہمیشہ عوام نے ہی اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی آج تک ختم نہ ہوسکی بلکہ اس میں مزید تیزی آرہی ہے، پختونخوا میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کا ذمہ دار جنرل فیض اوراس کے ساتھی ہیں۔

افتخار حسین نے کہا کہ بتایا جائے کہ کس حیثیت میں دہشت گردوں سے معاہدہ کرکے ان کو واپس لایا گیا، دہشت گردوں کو واپس لایا جائے گا تو دہشت گردی نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کے تحت پختونخوا میں دہشت گردی ہو رہی ہے جس کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیارنہیں ہے، جنرل فیض نے ملاکنڈ، ضم اضلاع اور جنوبی اضلاع کو دہشت گردوں کے حوالے کیا، ان کے خلاف دہشت گردوں کو واپس لانے کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے لیکن صوبائی حکومت بالکل غافل ہے، امن و امان سے صوبائی حکومت کا کوئی سروکار نہیں، ان کی ترجیح اپنے بانی کی رہائی ہے جبکہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کی ترجیح بانی پی ٹی آئی کو اندر رکھنا ہے۔

صوبائی صدر اے این پی نے کہا کہ صوبہ، مرکز اور اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی کے خاتمے کی طرف توجہ دینے سے عاری ہیں، دہشت گردی کے کاروبار کو ختم کرنے کے لیے خارجہ اور داخلہ پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔

افتخار حسین نے مطالبہ کیا کہ گڈ اور بیڈ کی تفریق کیے بغیرنیشنل ایکشن پلان پر من وعن عمل کیا جائے، پختون قوم اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر حتمی پالیسی بنائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں