دہشت گردی اور بیرونی مداخلت

دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے سے متعلق سخت پالیسی اپنائی جائے۔

فوٹو : فائل

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پارا چنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے انتالیس افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ گاڑیاں پارا چنار سے پشاور جارہی تھیں کہ قافلے میں شامل مسافر گاڑیوں کو پہاڑوں سے نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ امن کے دشمنوں نے معصوم شہریوں کے قافلے پر حملہ کیا جو حیوانیت کے مترادف ہے، ملک دشمن عناصر کی وطن عزیز کے امن کو تباہ کرنے کی تمام تر مذموم کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔

آج ایک بار پھر ہمیں ان ہی بے رحم قاتلوں کا سامنا ہے، جو اس سے پہلے بھی ہمارے وطن کے گلی کوچوں میں آگ و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی اور مالی قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کر کے اس فتنہ کو دبایا تھا لیکن افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل جاری ہے، جس میں نہ صرف عام شہری نشانہ بنے ہیں بلکہ پاک فوج کے ایئر پورٹس اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

دہشت گردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے در وا کر دیے ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا موقف یہ ہے کہ ابھی طالبان سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ ہمیں پاکستان سے باہر دیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کرسکے۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشت گردی پر قابو پا لیا تھا لیکن 15 اگست 2021کو افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار کی کرسی سونپ دی گئی۔ اس واقعے کے بعد دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کو افغانستان کی جیلوں سے رہا کر دیا گیا جنھوں نے واپس پاکستان آ کر اپنے آپ کو منظم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ دھماکے شروع کیے۔

اسی دوران حکومت پاکستان نے اس دہشت گرد تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے اور سیز فائر کرنے کا معاہدہ کیا، مگر نومبر 2022میں معاہدہ ٹوٹنے کے بعد اس دہشت گرد گروہ نے دوبارہ سے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز کیا اور اب تک ان کی دہشت گرد کارروائیاں جاری ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں، جس میں افغانستان اور بھارت ملوث ہیں، لہٰذا ملک کے خلاف بیرونی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ اور 98 فیصد مسلمانوں کا اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کا صدیوں پرانا نسلی اور لسانی رشتہ بھی ہے مگر ادھر سے ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے بجائے ہمیشہ گرم لو کے تھپیڑے ہی آتے رہے۔

افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد قوی توقع تھی کہ یہ سلسلہ اب رک جائے گا اور شمال مغربی سرحدوں سے دوستی تعاون اور امن کا پیغام آئے گا مگر صد حیف کہ اس کے بجائے دہشت گردی کی نئی لہر آگئی جس کی ذمے دار پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ہے اور اس کو کابل حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان میں اپنے خفیہ ٹھکانوں سے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور سیکیورٹی فورسز کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز کیے اور ان کا کافی حد تک خاتمہ کردیا تھا لیکن اب افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی حکومت کے اکابرین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے، افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور ساتھ بھی دیا ہے، چالیس برس گزر جانے کے باوجود لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیے رکھی ہے، ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ، چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو، چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہو یا اریسٹو کریٹس کا طبقہ ہو، ان کا پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔

پاکستان نے کبھی کابل سے بات چیت کا دروازہ بند نہیں کیا لیکن ابھی تک طالبان حکومت افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی روک تھام میں تعاون پر آمادہ نہیں ہے۔ افغان حکومت کا عام طور سے یہی موقف ہوتا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ افغان حکومت اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کر سکتی۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے، پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز کے باوجود طالبان رہنما اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ملک میں امن و امان بحال رکھنا اور جنگ جو عناصر کا خاتمہ پاک فوج کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

اس حوالے سے آرمی چیف کے اس عزم کا خیر مقدم ہونا چاہیے کہ فوج پوری قوت سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے نبرد آزما ہوگی۔ قلیل المدت سیاسی مفادات کے لیے اس عزم کو کمزور کرنے کی کوئی بھی کوشش ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ کسی دہشت گرد گروہ یا اس کی پشت پناہی کرنے والی کسی حکومت کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کو مجبور سمجھ کر اس سے اپنی شرائط پر سمجھوتہ کرنے کا خواب دیکھے۔افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔ اقوام عالم کو بھی سفارتی سطح پر یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہے یہ یا تو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے افغان حکومت کی پراکسی وار ہے یا یہ عناصر سیاسی انتشار پیدا کر کے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس گروہ اور اس کے پشت پناہوں سے اسی صورت میں مذاکرات کارگر ہو سکیں گے جب وہ غیر مشروط طور سے ہتھیار پھینکنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے پر آمادہ ہوں۔پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں سے واضح خطرات موجود ہیں۔ مخالف گروپوں کے ساتھ مذاکرات غیر موثر ثابت ہوئے ہیں اور خوش کرنے کی پالیسیاں بار بار ناکام رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے باقی ماندہ سرحدی علاقوں پر باڑ لگائیں۔

ہمیں پچھلی کچھ دہائیوں سے بطور ریاست، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی محض مذہبی نوعیت کی ہی نہیں بلکہ اس کی بنیاد سیاسی، لسانی اور علاقائی معاملات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ماضی میں ہم نے دہشت گردی یا انتہاپسندی کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا ہے۔ ان حالات میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کی قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد و متفق ہوکر متحرک اور جاندار کردار ادا کرے۔ وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔

 افغان سرحد سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو مسلسل چیلنج کیا جا رہا ہے، لہٰذا طالبان حکومت کو ایک بار پھر سختی سے وارننگ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے سے متعلق سخت پالیسی اپنائی جائے۔ سہولت کاروں کے بغیر دہشت گردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کو بہر صورت جیسے بھی ہے یہیں پر ختم کرنا ہوگا۔ قوم صرف دہشت گردوں کا خاتمہ دیکھنے کی خواہش مند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکے جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔ تانکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔

Load Next Story