معیشت میں بہتری کے اشارے اور درآمدات
ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ لگاتار تیسرے مہینے سر پلس ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔ ماہ اکتوبر میں جاری کھاتے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ 300 فی صد اضافے کے ساتھ تقریباً 35 کروڑ ڈالر رہے۔ اگر ماہ اکتوبر میں ٹیکسٹائل برآمدات کی بات کریں تو ایک ارب 62 کروڑ ڈالر رہے۔بات دراصل یہ ہے کہ آئی ایم ایف والے جب آ رہے تھے ان کے آنے سے قبل پاکستان کی معاشی صورت حال کو خراب گردانا جا رہا تھا اور اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ حسب توقع وہ آئیں گے جائزہ لیں گے، معیشت کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھتے چلے جائیں گے، حکومت کے خزانے پر نظر ڈالیں گے۔
چونکہ اس سے قبل پاکستانی حکام اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ ان کی طبیعت پر ذرا بھی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو فوراً ایسے ایسے احکامات جاری کر دیتے ہیں کہ حکام سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے یہ دیکھا ہو کہ حکومت تو بہت ہی ثابت قدم ہے اور بجلی کے نرخ ویسے ہی چلے جا رہے ہیں۔ گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں، ایل پی جی فی کلو میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، پانی کے بل اور پانی کے نل دونوں میں کھلا تضاد پایا جا رہا ہے۔ پانی ملے یا نہ ملے بل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
ملک کی معاشی حالت انتہائی مخدوش ہے کیونکہ ہر طرف گٹر ابلتے جا رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوئی چلی جا رہی ہیں لیکن حکومت وقت نے ان حالات میں بھی ہماری تمام تر شرائط پر عمل کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ لہٰذا ثابت قدمی پر یہ فرمان جاری کیا گیا کہ معیشت کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ گرہ لگا دی کہ آئی ایم ایف والے حیران ہو گئے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت بہت محنت کر رہی ہے اور معیشت میں بہتری کے کچھ اشارے مل رہے ہیں۔ مثلاً کرنٹ اکاؤنٹ تیسرے مہینے سے لگاتار سرپلس جا رہا ہے۔ اگرچہ برآمدات قدرے بہتر رہی لیکن اصل کارنامہ اور شاباشی کے مستحق وہ اپنے ہی ہیں جوکہ دیار غیر میں مقیم ہیں اور ان کی طرف سے ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہی معیشت کی قدرے بہتری کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ مالی سال کے ماہ مئی میں گندم کی بمپر پیداوار کے حصول کے بعد اگر گندم کی سرکاری قیمت کسانوں کو مل جاتی جس طرح وچولوں نے، درمیانی لوگوں نے، موسمی تاجروں نے، آڑھتیوں، کمیشن ایجنٹوں نے اور دیگر جن میں مافیاز انتہائی اہم ہیں اگر کسانوں کو کم قیمت نہ ملتی، صحیح قیمت مل جاتی تو اس کے اثرات کئی سالوں تک برقرار رہتے۔ اب اس کے منفی اثرات کئی سالوں تک جب بھگتنا ہوں گے تو ایسی صورت میں معیشت کی عارضی بہتری داؤ پر لگ جائے گی۔
اچھی قیمت نہیں سرکاری قیمت ملنے پر ان کی آمدن بڑھتی، اس طرح غیر کسان لوگوں جوکہ پہلے ہی خوشحال ہیں ان کی جیب میں پیسہ نہیں جاتا، کسانوں کی جیب میں جاتا تو ایسی صورت میں معاشی سرگرمیوں صنعتی سرگرمیوں خدمات کی فراہمی اور معیشت کے دیگر شعبوں کے حوالے سے بہتری آ جاتی۔اس وقت برآمدات کے علاوہ درآمدات جوکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اس کو مزید کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت میں بہتری لائی جا سکے۔ یہاں اعداد و شمار ظاہر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 2022 کی طرح درآمدات کی ایسی پالیسی پر عمل کیا جائے کہ برآمدات کے لیے درآمدی میٹریلز اور دیگر ایسے اقدامات جوکہ صنعتی سرگرمیوں کے لیے منفی ثابت ہوئے اب ان سے اجتناب کیا جائے۔
اپریل 2022 سے جاری ایسی سرگرمیاں جس سے صنعتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جس کے منفی اثرات برآمدات پر مرتب ہو رہے تھے اور ان وجوہات کی بنا پر مہنگائی کا گراف بڑھ رہا تھا اور کارخانوں میں چھانٹی ہو رہی تھی معاشی حالات خراب ہو رہے تھے اس میں شک نہیں کہ اس کے مقابلے میں جب کساد بازاری جاری تھی اب کہیں جا کر معاشی سرگرمیوں میں پہلے کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔
2022 اور 2023 کی بات ہے جب پاکستان کی صنعتی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ منفی رپورٹیں موصول ہو رہی تھیں، لہٰذا پاکستان کے مشہور صنعتی شہر خاص طور پر گھریلو صنعتوں کے لحاظ سے منفرد مقام حاصل کرنے والا شہر گوجرانوالہ، لاہور اور دیگر شہروں کے صنعتی حالات کا جائزہ لینے کی خاطر لاہور، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں کا مختصراً معاشی جائزہ لینے پہنچا تو یہ بات سامنے آ رہی تھی کہ صنعتی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے را میٹریل یا نیم تیار شدہ ایسی اشیا جوکہ برآمدی اشیا اور دیگر صنعتی اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے ان کی درآمدات کو روکنے کے باعث صنعتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔
لہٰذا بہت سے لوگ بے روزگار بھی ہو رہے ہیں اور ملک کی معاشی حالت میں بہتری نہیں آ رہی۔ بہرحال اپریل 2022 میں آنے والی حکومت نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اب آئی ایم ایف یہ کہہ رہا ہے کہ ملکی معاشی حالات میں بہتری آ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا اپنا الگ سے پیمانہ ہوتا ہے جس میں وہ ناپ تول کرتا ہے اور اس کا تعلق عالمی سیاسی معیشت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور اس عالمی سیاسی معیشت کو سمجھنے کے لیے پاکستان سے باہر پاکستان سے متعلق بہت سے معاملات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بہت سے عناصر نے مل کر یعنی جوکہ اس میں شامل ہیں عالمی قوتیں ہوں یا عالمی مالیاتی امور کے ادارے ہوں یا پاکستان کی معیشت کو مختلف ریٹنگ دینے والے ادارے ہوں جب ان لوگوں نے بہ زبانی آئی ایم ایف کہہ دیا ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ اب امید ہے کہ حکومت بجلی بلوں میں کمی کر دے گی جس نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ گیس کے نرخ شاید کم ہو جائیں اور مہنگائی مزید کم سے کم ہو کر 2020 یا 2021 کی سطح پر آجائے۔ ملک میں بے روزگار افراد کا باہر جانا کم سے کم ہو جائے۔