تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ یہ بہت تشویش ناک اعداد و شمار ہیں، صرف نومبر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً تین افراد شہید اور تین افراد زخمی ہوئے ہیں، یہ کسی بھی طریقے سے پاکستان کو ایک نارمل ملک شو نہیں کرتے، ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب تک پینتالیس سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں، آج سارے
دن کی پریس کانفرنسیں دیکھ لیں ان میں سیاست ہے، جو سنجیدگی دکھائی جانی چاہیے وہ نہیں دکھائی جا رہی۔ انھوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے سیکیورٹی کے ادارے اور باقی ذمہ دار ایجنسیاں ، اگر اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کریں گی تو اس طرح کے واقعات میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ الزام تراشی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ مجموعی طور پر آپ دیکھیں تو اس وقت پاکستان خاص طور ہر خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں، اس مہینے نومبر میں اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر کے پی اور بلوچستان دہشتگردی کے 65 واقعات ہوچکے ہیں، ان میں 200سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، 128کا تعلق سکیورٹی فورسز سے ہے، کل کے واقعہ نے سکیورٹی چیلنج کو جو پہلے ہی پیچیدہ ہے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ اس کو اجتماعی ناکامی بھی کہہ سکتے ہیں۔ماہر سکیورٹی امور احسان اللہ ٹیپو نے کہا کہ کرم میں قیام پاکستان سے پہلے 1930کی دہائی سے یہاں فرقہ وارانہ تشدد ہے، کافی لوگ اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو زمین کے تنازع کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، پچھلے ایک سال سے وہاں حالات بہت خراب ہیں، مقامی شیعہ اور سنی قبائل ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے معاملات کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی، دوسرا سب سے بڑا مسئلہ اسلحہ کی فراوانی ہے ، ضلع میں اتنا زیادہ اسلحہ ہے کہ اس کے خلاف ایکشن بہت ضروری ہے۔