مکالمہ کا فروغ کیوں ضروری ہے؟

ان نظریات، خیالات، تصورات بنانے میں بہت سے عوامل اور اسباب محرکات کارفرما ہوتے ہیں

نفسیات کا ایک بنیادی سوال ہے کہ انسان کے ذہنی رجحانات کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ کوئی رویہ یا نظریات و خیالات اپنے ساتھ لے کر نہیں آتا، اس کا ذہن خالی سلیٹ یا خالی صفحے کی مانند ہوتا ہے۔ جو سارے خیالات، تصورات، رجحانات، تعصبات اور نظریات سے پاک اور خالی ہوتا ہے۔

ان نظریات، خیالات، تصورات بنانے میں بہت سے عوامل اور اسباب محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ اس کا سماجی پس منظر، رسم و رواج، روایات، تہذیب و ثقافت، قوانین، عقائد، تجربات و واقعات اہم کردار ادا کرتے ہیں، بالخصوص والدین اساتذہ، تعلیم گھریلو ماحول اور اردگرد کا ماحول بنیادی کردار ہوتا ہے۔

یہ سب شعوری اور لاشعوری طور پر ہوتا ہے یہ سب عوامل انسان کے ذہنی رجحانات کو تشکیل دے کر اس کے لاشعورکا حصہ بن جاتے ہیں جو مناسب وقت پر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اپنے اس ذہنی رویے کے زیر اثر کرتا ہے۔

ہماری زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ معاشرت، معیشت، تعلیم، سیاست، مذہب اور فنون لطیفہ وغیرہ۔ جب زندگی میں کوئی پہلو مرکزی حیثیت حاصل کر لیتا ہے تو فکری ڈھانچے میں ایک ضابطہ حیات بن جاتا ہے۔ جیسے کمیونزم کی تحریک میں ہوا۔ اس تحریک میں معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس تحریک کی جدوجہد کے نتیجے میں زندگی دو وقت کی روٹی کی تلاش کا نام بن کر رہ گئی۔

ہمارے یہاں اسلام کے نام پر جو تحریکیں برپا ہیں، ان میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے کسی میں سیاسی پہلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہے تو کسی کو دعوت تبلیغ میں،کوئی جدیدیت کا علم بردار ہے، توکوئی تصوف کا، ایسی صورت میں عام آدمی جس کا دینی شعور زیادہ بلند نہیں ہوتا وہ اپنے ذہنی رجحانات کے تحت جس جماعت سے خود کو ہم آہنگ محسوس کرتا ہے اس کا انتخاب کر لیتا ہے۔

نفسیاتی حوالے سے یہ خیالات اور تصورات ہماری ذات کا حصہ بن جاتے ہیں جب ہم کسی کے سیاسی یا مذہبی خیالات اور نظریات کو چیلنج کرتے ہیں یا ان پر سوالات اٹھاتے ہیں تو ہم اسے اپنی ذات پر حملہ محسوس کرتے ہیں اس لیے ہمارا ردعمل سخت ہو جاتا ہے۔

اس مسئلے کا حل نفسیاتی طور پر یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ان کی ذات سے نہیں اصولوں سے جوڑیں جب ہم اصولوں پر سوال کرتے ہیں تو لوگ اسے اپنی ذات پر حملہ محسوس نہیں کرتے، اس طرح لوگ گفتگو کے لیے زیادہ کھلے دل سے تیار ہو جاتے ہیں۔ نفسیات کے اس پہلو کو سمجھ کر ہم تعمیری اور مثبت گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکالمہ کے اصول ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

اختلاف رائے انسانی زندگی کا بنیادی جز ہے ہمیں تضادات کے ساتھ زندہ رہنا ہوتا ہے۔ مکالمہ اختلاف رائے دورکرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے میں مکالمہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مکالمہ کے اصولوں پر بات کرنے سے قبل ہمیں مکالمہ اور مناظرہ کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ مکالمہ ایک دوسرے سے سیکھنے اور سکھانے کے عمل کا نام ہے۔

مناظرہ میں اس کے برعکس اپنی فتح اور مخاطب کی شکست کے لیے کیا جاتا ہے۔ جو لوگ یہ طرز عمل اختیارکرتے ہیں، دوسروں سے کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کے عمل سے محروم رہتے ہیں۔ مکالمہ کا اولین اصول یہ ہے کہ مکالمہ ایسے موضوعات پر کیا جاتا ہے جو فرد اور معاشرے کے لیے مفید ہوں اگر اس کے برعکس بات ہوگی تو ایسے مکالمہ کو وقت کے ضیاع کا نام دیا جائے گا۔

یہ بات تحریر میں لائی جا چکی ہے کہ ہمارے نظریات اور خیالات کی تشکیل میں ہمارا سماجی پس منظر اور تعلیم بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے مکالمے کے وقت اس عنصر کو لازمی مدنظر رکھیں، اسی صورت میں ہی مکالمہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

مکالمہ میں مخاطب کے زاویہ نگاہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے نزدیک صحیح اور غلط کے پیمانے کیا ہیں۔ مثلاً ہماری موجودہ سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں، اس کی روشنی میں حکمت عملی میں تبدیلی لا کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس کے برعکس مذہب کے اصول اٹل ہوتے ہیں، حالات کچھ بھی ہوں ان اصولوں کی روشنی میں حکمت عملی واضح کر کے جدوجہد کے ذریعے کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کے پیمانے الگ ہیں ان کو ایک خانے میں رکھنا درست نہیں، مذہبی اور دینی موضوعات پر مکالمے کے وقت اس اہم نکتے کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے اسی طرح کسی بھی موضوع کے مختلف پہلو ہو سکتے ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

 بعض موضوعات بہت حساس ہوتے ہیں، بالخصوص مذہبی اور دینی موضوعات اس سے لوگوں کے جذبات اور احساسات منسلک ہوتے ہیں۔ اس لیے دینی اور مذہبی موضوعات پر مکالمہ کرتے وقت الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کی زبان اختیار کی جانی چاہیے تاکہ کسی کے جذبات اور احساسات مجروح نہ ہوں، اگر اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا تو مکالمہ اپنی افادیت کھو دے گا۔

آپ نے مکالمے کی تیاری چاہے کتنی ہی اچھی تحقیق کے ساتھ کی ہو، اگر اسلوب اچھا نہیں تو مکالمہ بے اثر رہے گا۔ ادب کی زبان ایک ایسی زبان ہے جو دل کش بھی ہوتی ہے اور پراثر بھی۔ اگر مکالمے میں ادبی اسلوب کے ساتھ گفتگو کی جائے تو مفید رہے گی۔ مکالمہ کا آخری اصول ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے۔

وہ یہ ہے کہ مکالمہ کا جو موضوع زیر بحث ہے آپ کی گفتگو کا کوئی جملہ کوئی پیرا گراف موضوع کے مرکزی خیال سے باہر نہیں ہونا چاہیے، اگر طرز عمل آپ یا مخاطب کی جانب سے اس کے برعکس اپنایا جائے گا تو مکالمہ مناظرے میں تبدیل ہو کر اپنی افادیت کھو دے گا۔ اس سے گریز ضروری ہے۔

سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر جو بحث مباحثہ دکھائی دیتا ہے اس میں مناظرے کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ جس میں فتح اور شکست کسی کی بھی ہو ماری سچائی جاتی ہے اس صورت حال نے قوم بالخصوص نوجوانوں کو فکری انتشار میں مبتلا کردیا ہے۔ اس لیے اہل علم اور دانشوروں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور مکالمے کے کلچرکو فروغ دیں تاکہ نوجوانوں کو فکری انتشار سے نجات مل سکے۔

Load Next Story