ارنسٹ ہیمنگوے نے ایک بارکہا تھا۔آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر خود سے دور نہیں ہو سکتے۔ آپ محض اپنے ماحول کو بدل کر خود سے بچ نہیں سکتے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کہیں بھی جائیں، آپ اپنے خیالات، جذبات اور حل طلب مسائل اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ظاہری ماحول بدل سکتا ہے۔ منظر، لوگ، زندگی کی رفتار، لیکن اندرونی لڑائیاں باقی ہیں۔
آپ ایک زہریلا کام چھوڑ سکتے ہیں،کسی مشکل رشتے سے دور جا سکتے ہیں یا کسی نئے شہر میں نئے سرے سے شروعات کرسکتے ہیں، لیکن اگر آپ کے اندر موجود گہرے زخموں اور نمونوں پرکوئی توجہ نہیں دی گئی، تو وہ خاموشی سے اگلے باب تک آپ کا پیچھا کریں گے۔ حقیقی آزادی بھاگنے سے نہیں ملتی۔
یہ اندرکی طرف دیکھنے سے آتا ہے۔ یہ درد، خوف، اور نمونوں کو تسلیم کرنے کے بارے میں ہے جو آپ کو روکتے ہیں اور ان کو ٹھیک کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ کسی نئی جگہ پر منتقل ہونے سے آپ کو سکون کا عارضی احساس، صاف ستھرا سلیٹ مل سکتا ہے، لیکن حقیقی تبدیلی کے لیے اندرونی کام کی ضرورت ہوتی ہے۔
بصورت دیگر،آپ کو صرف ایک مختلف ترتیب میں، ایک ہی جدوجہد کو دوبارہ بنانے کا خطرہ ہے، لیکن یہاں بااختیار سچائی ہے: آپ اپنے مستقل ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کہیں بھی جائیں، آپ کو ہمدردی کے ساتھ اپنے آپ کا سامنا کرنے، اپنے تجربات سے سیکھنے اور بڑھنے کا موقع ملے گا۔
جب آپ داخلی چیلنجوں کے لیے بیرونی حل تلاش کرنا چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جس امن کی آپ تلاش کر رہے ہیں وہ منزل نہیں ہے، یہ دماغ کی حالت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تبدیلی قابل قدر نہیں ہے۔ ایک نیا ماحول نقطہ نظر، الہام اور نقصان دہ اثرات سے دوری پیش کر سکتا ہے، لیکن دیرپا تبدیلی تب ہوتی ہے جب آپ بیرونی تبدیلی کو ترقی کی اندرونی وابستگی کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
آپ جہاں بھی ہوں، اس پرغور کرنے کے لیے وقت نکالیں کہ آپ کے لیے واقعی کیا اہمیت ہے۔
پانچویں صدی ق م میں ایتھنز میں کچھ ایسی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنھوں نے فکرکا دھارا طبعی فلسفے سے انسان اور انسانی سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف موڑ دیا۔ پانچویں صدی ق م کے آخری نصف میں ایتھنزکی شہری ریاست میں زبردست صنعتی، زرعی اور تجارتی ترقی ہوئی یہ ایک معاشی انقلاب تھا جہاں قانون اور فرد کا نئے طور پر سامنا ہوا جہاں فرد کو اپنے حق کے لیے کچھ کہنا تھا، اس کے لیے ایک نئے اظہار، لعنت، منطق اور زبان کی ضرورت تھی اور ساتھ ساتھ پرانے طور طریقوں، سو چ اور اقدار پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت تھی۔
مسئلہ ایسی فکر سامنے لانے کا تھا جو پرانی دقیانوسی فکرکی جگہ آس پاس رواں دواں زندگی کا ترجمان ہو جو انسانی تعلقات اور سماج میں پیدا ہونے والے نئے روابط کا احاطہ کرسکے اور انھیں آگے بڑھا سکے، اس لیے سقراط اور دیگر فلسفیوں نے آکر تمام پرانے نظریات اور اقدارکو چیلنج کردیا اور انھیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی طرف راغب کیا۔ اسی زمانے میں چین، ہندوستان، ایران اور فلسطین میں بھی بیک وقت انسان کی نئی ارتقائی منزلیں تشکیل پا رہی تھیں۔
چین میں کنفیوشس اور لاوزے اور ان کے بعد موزلے اور چوانگ زلے نے پورے چینی فلسفے کا تارو پود تیارکیا۔ ہندوستان میں یہ اپشندوں اور بدھ مت کا زمانہ تھا، یہاں بھی چین کی طرح نئے رحجانات پیدا اور پروان چڑھ رہے تھے۔ ایران میں زردشت نے نیکی اور بدی کی ازلی پیکار کا تصور پیش کیا۔ فلسطین میں بنی (ایلیجاہ، حرمیاہ، اشعیا) پیدا ہوئے۔ اس عہد کی سب سے بڑی یہ تھی کہ انسان کو پہلی بار اپنی عظمت کا احساس اور شخصیت کے لا محدود امکانات کا علم ہوا۔
مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پہ تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے۔ جب کہ افلاطون نے کہا تھا ’’ کسی شخص پر اس سے بڑی اورکوئی مصیبت نازل نہیں ہوسکتی کہ وہ عقل و خرد کی مخالفت کرنے لگے‘‘۔
ذہن نشین رہے آج جو عذاب اور مسائل ہمیں درپیش ہیں یہ نہ تو آسمان سے ٹپکے ہیں اور نہ ہی زمین پھاڑکر باہر نکلے آئے ہیں اور نہ ہی یہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے ملک میں پھینک دیے گئے تھے، ان تمام مسائل اور عذاب کے خالق ہم خود ہیں کیونکہ ہماری دشمن عقل سے ہوگئی تھی، اسی لیے ہماری ان تھک محنت، جدوجہد،کاوشوں، چاہتوں اور ارمانوں کے نتیجے میں یہ سب عذاب ہمارے نصیب میں آگئے ہیں یہ انتشار، انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ واریت، تعصب، نفرت ہمارے اعمال اور فکر و سو چ کی پیداوار ہیں۔
ظاہر ہے جب آپ کی عقل سے دشمنی ہوجائے گی تو عقل انتقام تو لے ہی گی اور یہ عقل کا ہی انتقام ہے جو ہمارے سامنے ہم پر منہ پھاڑے قہقہے لگا رہا ہے جب یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے تو پھر اس پر چیخنا چلانا کیسا، رونا کیسا ، دہائیاں دینا کس لیے کرپشن، لوٹ مار، انتہا پسندی، دہشت گردی پر غم و غصہ کس لیے ظاہر ہے جو آپ بوئیں گے وہ ہی توکاٹیں گے جب آپ محبت اخوت، رواداری، مساوات، برداشت، احترام کے بجائے نفرت، تعصب، تنگ نظری، جہالت کے بیج ڈالیں گے تو وہ ایک دن دیو بن کر زمین پھاڑکر ہی تو نکل آئیں گے اور جب نکل آئے ہیں تو رونا دھونا چھوڑیں۔
آئیں ! مل کر جشن منائیں کہ ہم کامیاب ہوگئے سر خرو ہوگئے۔ ہماری خود کی وجہ سے آج شرافت ایک گالی بن چکی ہے، ایمانداری قابل نفرت جرم بن کے رہ گئی ہے، سچائی کی ہر چوراہے پر بے حرمتی ہورہی ہے۔
اخلاقی اقدار، تہذیب و تمدن اور اصولوں کوگلی،گلی ننگا گھسیٹا جا رہا ہے، رواداری اور برداشت کی لاش کو نوچ نوچ کر ادھیڑا جا رہا ہے، ہم سب کو ایک دوسرے کو رشک، تعریف اور تحسین کی نگاہوں سے دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنا حال کیا سے کیا کر دیا ہے اورکیا معصومیت ہے ہماری کہ ہم اپنی ساری خرابیوں اور برائیوں کا ملبہ اپنے آپ پر ڈالنے کے بجائے غیر ملکیوں پر ڈال دیتے ہیں اور بڑی ہی بے شرمی سے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک غیر ملکی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔
ساری دنیا ہماری دشمن بن گئی ہے، ہمیں مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے، ہمارے خلاف دن رات سازشیں کر رہی ہے۔ معاف کیجیے گا عقل سے دشمنی کا نتیجہ اس کے علاوہ کوئی اور نکل ہی نہیں سکتا تھا، اگر آپ اب بھی اپنے حالات کو تبدیل کرنا چاہتے اور پوری دنیا کی طرح خوشحال، پرامن، ترقی سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آئیں! آج ہی عقل سے دوستی کر لیں،بوسیدہ، رجعت اور قدامت پرست خیالات کو کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیں اور روشن خیالی کو اپنا لیں اور پوری دنیا کے ہمسفر بن جائیں پھر دیکھیں کس طرح راتوں رات آپ کے نصیب بدلتے ہیں۔