آج کی شام بہت سہانی اور دل آویز ہے، سب کے چہروں پر تبسم جلوہ گر ہے، وجہ یہ ہے کہ آج ہم جس ہستی کو مبارک باد دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں ان کے نام اور کام سے اہل علم اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔ جلیس سلاسل کا سفر بڑا صبر آزما رہا، راہ میں کانٹے آئے، پیر زخمی ہوئے لیکن مقصد بڑا تھا، لہٰذا چلتے رہے اور منزل مقصود پر پہنچ گئے، عرصہ بہت طویل تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے:
نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
قصہ تو نصف صدی سے بھی زیادہ ہی کا ہے۔ انھوں نے بغیر کسی سفارش یا تعلقات کی بنا پر کامیابی اور وہ بھی شان دار کامیابی حاصل نہیں کی ہے، ان کے لیے ایک شعر یاد آگیا، جگر مراد آبادی نے ایسی ہی شخصیات کے لیے یہ شعر تخلیق کیا ہے:
زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
جلیس سلاسل نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے اور یہ تحریریں کتابوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں کہ وہ اپنے رب اور اس کے نبیﷺ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انھیں اپنے وطن سے بہت پیار ہے وہ اپنے پاکستانی نوجوانوں کو پاکستان کی کہانی، تحریک پاکستان کا قصہ ازبر کرانا اور ان میں جوش و ولولہ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ آج کی نسل نظریہ پاکستان کو مقصد سمجھ کر اس کے استحکام اور ترقی کے لیے کام کرے اور اپنا قیمتی وقت ہرگز ضایع نہ کرے۔
جلیس سلاسل نظریہ پاکستان کی تاریخی اور تعمیری حیثیت سے پوری طرح واقف ہیں اور اسی بنا پر صالح مثبت اور صحت مند روایات کی پاسداری اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے وہی شخصیات منتخب کی ہیں جو نظریہ پاکستان کی کسوٹی پر پورا اترتی ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جلیس سلاسل کی تمام ممدوح شخصیات ایک ہی عہد میں زندہ تھیں اور یہ کسی عہد کی بڑی خوش نصیبی ہے۔
ممتاز مورخ اور شاعر خواجہ رضی حیدر اپنے دوست جن سے ان کی پچاس سالہ رفاقت رہی ہے وہ ان کے بارے میں کہتے ہیں۔’’جلیس سلاسل کی تحریریں پاکستانی قوم کا ایک ایسا اعمال نامہ ہیں جو خیر و شر دونوں کی اطلاع فراہم کرتی ہیں۔ مجھے جلیس سلاسل کی تحریریں پڑھ کر جہاں ان کی یادداشت پر رشک آتا ہے۔
وہاں یہ سوچ کر مسرت ہوئی بحیثیت صحافی جلیس سلاسل کو نہ صرف اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی صحبت میسر آئی بلکہ انھوں نے ہم جیسے بے خبر لوگوں کے لیے آئینہ بنا دیا ہے، جس میں ہم اپنا ماضی بھی دیکھ سکتے ہیں اور مستقبل کو مثبت خطوط پر استوار کر سکتے ہیں۔ ‘‘خواجہ رضی حیدر کی یہ رائے جلیس سلاسل کی کتاب ’’معماران جلیس‘‘ میں پیش لفظ کے طور پر شامل ہے۔ ’’معماران جلیس‘‘ پاکستان کی نامور شخصیات کے خاکوں پر مبنی ہے۔
جلیس سلاسل نے بے مثال اور باکمال حضرات کے خاکے بہت دلچسپ اور معلوماتی قلم بند کیے ہیں۔ ان خاکوں کے ذریعے سکہ بند ادیبوں اور علما کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہو رہی ہے یہ خاکے انٹرویوز کی شکل میں سامنے آئے ہیں، سوال و جواب کا سلسلہ مکالمے کی شکل میں تکمیل کو پہنچتا ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم قوموں کے عروج و زوال یا پھر شخصیات کی پاکستان کے لیے قربانیوں کے بدلے، عظیم کامیابی کے لیے جہد مسلسل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
جلیس سلاسل نے میرا خیال ہے آٹھ یا دس ایسی کتابیں لکھ دی ہیں جو تاریخ کا سرمایہ ہیں، انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ایک اور کتاب ہے ڈاکٹر ’’عبدالقدیر خان اور کہوٹہ‘‘ اس کتاب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کی قربانیوں، دشمن کی عیاریوں اور جھوٹے الزامات کا پردہ چاک کیا ہے۔
’’کورٹ مارشل‘‘ یہ کتاب پاک بھارت جنگوں کا احوال پاکستانی قائدین کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ انٹرویوز بھی ان بڑے لوگوں کے ہیں جہاں عام لوگوں کا گزر نہیں، تو پھر قابل غور بات یہ ہے کہ یہ صحافی خود کتنا بڑا اور اس کا کام قابل رشک ہوگا۔ ان کے دوست، احباب، جن کی وہ بے حد عزت کرتے ہیں اور اپنے استاد کا درجہ دیتے ہیں انھی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، شورش کاشمیری، جسٹس حاذق الخیری اور دوسری بہت سی پاکستان کی اہم شخصیات ہیں جن سے وہ عقیدت رکھتے ہیں۔
زمانہ ساز ہستیوں سے ملنے اور ان کے انٹرویوز کرنے کے بعد بھی جلیس صاحب کے مزاج میں تکبر نہیں ہے بلکہ عاجزی اور انکساری ہے اس کی وجہ یہ کہ وہ دنیا کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ایک درویش انسان ہیں، سب کچھ پا کر بھی عجز و انکساری کا پیکر بنے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح:
دنیا میرے پڑوس میں آباد تھی مگر
میں نے دعا سلام نہ کی اس ذلیل سے
میں جلیس سلاسل کی سالہا سال کی محنت اور علم و ادب سے بے پایاں محبت کے جذبے کو سراہتے ہوئے خلوص دل کے اس شعر کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ ہر شخص زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتا ہے:
لوگ جس حال میں مزے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
(اعزازی تقریب کے موقعے پر پڑھا گیا مضمون)