صاحبو! تاریخ کے بھی دلچسپ نشیب و فراز ہوتے ہیں، تاریخ کے ساتھ کھلواڑکرنے کی کوششیں ہر دور میں کی جاتی رہی ہیں مگر تاریخ ہے کہ اپنی ثابت قدمی پر استقامت سے مضبوط قدموں سے کھڑی رہی اورکھڑی ہے۔ زمانے کے مدو جزر اور موسموں کی تبدیلی نے انسانی سماج میں ہلچل پیدا کی، زمین کے پاؤں اکھڑے یا بستیاں برباد ہوئیں۔
تاریخ نے ان حقائق ہی کو رقم کیا جو اس وقت کی تلخ حقیقت تھے، پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ جنھوں نے تاریخ کا منہ موڑنے کی کوشش اپنی مرضی و منشا کے مطابق کرنے کی کوشش کی تو تاریخ کے حقیقت بھرے تھپڑ نے ان تاریخ نویسوں کو نشان عبرت بنا دیا جن شاہوں کے درباریوں نے تاریخ کی ہرزہ سرائی کی یا کسی شاہ و حکمران کے اردلی یا غلام بنے۔
بادشاہوں کی حکمرانی کے ادوار قصے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بادشاہ کے حرم سے لے کر دربار تک بادشاہ اور رانی کے سونے’’گولڈ‘‘ سے بنائے گئے لباس اور زیورات کا قصہ ہر خاص و عام کی زبان پر رشک اور تعریف کے ساتھ ہوا کرتا تھا جب کہ زرق برق بادشاہ کی پوشاک اور زرہ سب کی توجہ کے لیے ریاست کا لازمی جز قرار پاتا تھا۔
حد تو یہ تھی کہ جنگ کے دوران بھی بادشاہ کے سینے کی ڈھال بھی سونے’’گولڈ‘‘ کی بنائی جاتی تھی کہ بادشاہ کا جاہ و جلال میدان جنگ میں بھی قائم رکھا جائے، پھر بادشاہت کے اقتدارکا کروفر ختم ہوا، اور دنیا کے سماج نے اپنی معاشرتی ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا شروع کیا اور سائنسی ترقی نے انسان کی جگہ پر ’’روبوٹ‘‘ سے کام لینا شروع کیا اور انسانی محنت سے چھٹکارا پانے کی راہ نکال کر انسانی محنت کا استحصال کیا اور ’’روبوٹ‘‘ کی ایجاد کو سائنسی کارنامہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
سائنسی ترقی کی اس دوڑ میں سائنس داں جانتے تھے کہ ان کے بنائے گئے ’’روبوٹ‘‘ میں انسانی صفات پیدا نہیں ہو سکتیں اور سائنسی روبوٹ صرف مشینی عمل کی جلد تکمیل کا ایک پرزہ ہے جس پر مکمل انحصار نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ رہی کہ سائنسی روبوٹ کی تکمیل سے لے کر اس کے چلانے میں انسانی محنت کو شامل رکھا گیا تاکہ روبوٹ کے نقص یا ترتیب کو انسانی مدد سے ہی آگے بڑھایا جائے۔
روبوٹ کی اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالیں تو روبوٹ آپ کو ایک ایسا سائنسی غلام نظر آئے گا جو انسان کے اشارے بنا ہلنے جلنے یا آگے بڑھنے سے بھی محروم کردیا گیا ہے، ہاں! مگر اس درمیان میں سائنسدانوں نے یہ ہرگز نہ سوچا تھا کہ سوچتا، سانس لیتا ہوا انسان چاپلوسی، لالچ، خود غرضی اور مفاد پرستی کی ایسی حدیں پارکر لے گا کہ خود میں سونے کی مانند چمک پیدا کرنے کی کوشش میں خود سونے’’گولڈ‘‘ کا غلام ہو جائے گا اور اپنے اندر سے سوچنے سمجھنے ایسی تمام انسانی صفات کا خاتمہ کر کے خود دوسروں کے اشاروں کا محتاج ’’روبوٹ‘‘ ہو جائے گا۔
گولڈ کی اہمیت بادشاہتوں کے خاتمے کے بعد آج بھی جدید ترقی میں کم نہیں ہو پائی ہے، ملکوں کی معاشی ترقی ماپنے کا اہم ذریعہ آج بھی ’’گولڈ‘‘ کو سمجھا جاتا ہے، شاید اسی لیے دنیا اور خاص طور پر غیر ترقی یافتہ پاکستان میں گولڈ کی اہمیت زیادہ جانی جاتی ہے، اب اگر’’گولڈ‘‘ کے سحر میں جب کوئی کھلندڑا پڑ جائے تو وہ نہ صرف خود سونا ’’گولڈ‘‘ بن پائے گا اور نہ ہی وہ ’’گولڈ‘‘ کے ہوتے ہوئے، گولڈ کی اہمیت و حیثیت سمجھ پائے گا، کہتے ہیں نا کہ ’’ہر چمکتی ہوئی شے سونا نہیں ہوتی۔‘‘ بسا اوقات تپتی دھوپ میں دورکی سڑک بھی سونے کے رنگ بکھیرتی ہے مگر قریب جا کر احساس ہوتا ہے کہ وہ سونے ایسی چمکتی سڑک محض دھوکا اور سراب تھی۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں اکثر سیاستدان آپ کو غلامانہ طرز کا اعلانیہ اظہار کرتے نظر آئیں گے مگر یہ قسمت کسی نے نہ پائی کہ وہ ’’گولڈ‘‘ کا غلام ہو اور اس نے ’’گولڈ‘‘ کی چمک میں جھوٹ اور فریب کی زرہ چھپا لی ہو، یہ تمغہ ہمارے ہاں کے قیدی کے علاوہ کسی کے پاس نہیں، یوں تو ہمارے ہاں لاتعداد سیاسی بونے پائے جاتے ہیں جو ہمیشہ اشرافیہ کا چارہ کھا کر عوام کی نمایندگی کا لولی پوپ ہماری ترستی ہوئی خواہش زدہ عوام کو دیتے رہے، مگر ملکی سیاست میں ’’گولڈ‘‘ میں لپٹے جھوٹ کی ابتدا 2011 سے ہوئی جو آج بھی جاری و ساری ہے اور خالی الذہن عوام اسی ’’قیدی‘‘ کے اقوال کو سونا ’’گولڈ‘‘ سمجھ کر نسلوں کا مستقبل تاریک کرنے پر جتے ہوئے ہیں۔
غلامانہ ذہنی قید میں مبتلا عوام پاکستان کی ابتدائی سیاست میں قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کا ذکر کرتے ہوئے اکثر اس بات کو بھلا بیٹھتے کہ قائد اعظم نے جس خواہشات کے غلام افسر کو کورٹ مارشل کا مستحق قرار دیا تھا، لیاقت علی خان نے اسی کو پروموٹ کیا، جس نے جمہوری نظام کو تاراج کر کے ملک کا پہلا مارشل لا نافذ کرکے نہ صرف تمام جمہوری روایات کو دفن کیا بلکہ ملک کی بنیاد کے جمہوری وطن کو ’’سیکیورٹی اسٹیٹ‘‘ بنانے کا عوام دشمن کام کیا اور ملک میں آئین کی بالا دستی کے خلاف آمریت نافذ کی۔
اسی ایوبی مارشل لا نے ’’بھٹو‘‘ کی شکل میں سوشل ازم کی عوامی سیاست کو داغدارکیا جب کہ جنرل ضیا نے لسانی و مذہبی تعصب کے بطن سے نئے سیاستدان پیدا کیے، جن کو جنرل مشرف نے اپنے ریفرنڈم کا سہولت کار بنایا اور بعد کی اشرافیہ نے ’’گولڈ روبوٹ‘‘ کی چمک میں طالبان کے مذہبی تڑکے میں مبتلا قیدی کو دودھ پلایا کہ جس نے ملکی سیاست سے لے کر ملکی سماجیات اور تہذیب کو تار تار کیا اور اسی وہی قیدی اب ’’گولڈ روبوٹ‘‘ بن کر گولڈ کی چمک کے سہارے دن رات عوام کے شعور کو چندھیا رہا ہے۔
اس مقام پر سیاسی تاریخ کے تناظر میں یہ بات نہیں بھلائی جائے کہ نہر سوئز پر قبضہ کرنے اور مشرق وسطی کے مضبوط ملک مصر کو غلام بنانے میں امریکی پینٹاگون کی’’روبوٹ‘‘ اسرائیلی وزیر اعظم ’’گولڈ میئر‘‘ تھیں گویا امریکا کی روبوٹ گولڈ میئر نے فسطائیت قائم کرکے مشرق وسطیٰ کو تہس نہس کر دیا تھا تو ہمارے ہاں کے کھلندڑے گولڈ روبوٹ کے کیا کچھ اس ملک کو برباد کرنے کے مقاصد ہو سکتے ہیں؟ بس یہی سوچنا ہے قوم کو…!