خود احتسابی: کامیابی کی راہ

قرآن و حدیث کی روشنی میں، خود احتسابی ایک لازمی جزو ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے

خود احتسابی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اپنی ذات کا جائزہ لینے اور اپنی زندگی کے اعمال کا محاسبہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں خود احتسابی کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے کیونکہ یہ عمل انسان کو اپنی غلطیوں سے آگاہ کرتا ہے اور توبہ کے ذریعے اصلاح کا راستہ فراہم کرتا ہے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں، خود احتسابی ایک لازمی جزو ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا انسان کو اپنی زندگی کا جائزہ لینے اور اپنے اعمال پر غور کرنے کی ترغیب دی ہے۔ سورۃ الحشر کی آیت18میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔‘‘

یہ آیت واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی آخرت کے لیے کیا تیار کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں انسان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ غفلت کا شکار نہ ہو اور ہمیشہ اپنے اعمال پر غور و فکر کرتا رہے۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی اور احادیث مبارکہ بھی خود احتسابی کے اصول کو واضح کرتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’(آخرت کے معاملے میں)گھڑی بھر غورو فکر کرنا60سال کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘(کنز العمال:5710) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے اُخروی معاملات کے بارے میں مراقبہ اور غور و فکرکرتا رہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے اعمال کو تول لو قبل اس کے کہ وہ تمہارے خلاف تولے جائیں۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:35600)

یہ حدیث اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ ایک مسلمان کو ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن اس کا حساب آسان ہو جائے۔ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور ہمیں ہر لمحے اپنے اعمال اور نیتوں کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہم اپنی آخرت کو بہتر بنا سکیں۔خود احتسابی کا عمل صرف ظاہری اعمال تک محدود نہیں بلکہ اس میں انسان کے اندرونی خیالات، نیتیں اور اخلاقیات بھی شامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:’’اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘(سورۃ الشمس:7-8)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفس کی تخلیق اور اس کے اندر پیدا ہونے والی بدی اور نیکی کی صلاحیت کو بیان کیا ہے۔ انسان کو ہر لمحے اپنے نفس کا جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ نیکی کی راہ پر گامزن ہے یا بدی کی طرف جھک رہا ہے۔

اسی طرح خود احتسابی کا ایک اہم پہلو توبہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں، اللہ تعالیٰ نے انسان کو بار بار توبہ کرنے کی تلقین کی ہے تاکہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اصلاح کی طرف قدم بڑھائے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘(سورۃ البقرۃ: 222) یہ آیت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے توبہ کرتے ہیں اور خود کو پاک صاف رکھتے ہیں۔

توبہ کا عمل دراصل خود احتسابی کا ہی نتیجہ ہے، کیونکہ جب انسان اپنے گناہوں کا جائزہ لیتا ہے تو وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے بھی توبہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے:’’ہر ابن آدم خطا کار ہے، اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘(ابن ماجہ:4251) یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ہر انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، لیکن ان غلطیوں کو قبول کر کے اللہ کی طرف رجوع کرنا اور توبہ کرنا انسان کی عظمت کا ثبوت ہے۔

خود احتسابی کا عمل انسان کو غرور اور تکبر سے بھی بچاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’تو تم خود اپنی جانوں کی پاکیزگی بیان نہ کرو، وہ خوب جانتا ہے اسے جو پرہیزگار ہوا۔ ‘‘(سورۃ النجم:32)یہ آیت انسان کو اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ وہ اپنے اعمال پر غرور نہ کرے بلکہ ہمیشہ اللہ سے ڈرتا رہے اور اپنے نفس کا جائزہ لیتا رہے۔

اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور قول ہے: ’’اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔‘‘(سنن ترمذی: 2459)حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول خود احتسابی کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ وہ اپنے دور خلافت میں بھی ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ مسلمان اپنے اعمال کا محاسبہ کریں تاکہ آخرت میں آسانی ہو۔

خود احتسابی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو بہتر اخلاقی شخصیت بننے میں مدد دیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا اخلاقیات کی بہتری کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’بے شک مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘(سنن الکبریٰ للبیہقی: 21301)یہ حدیث ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک مسلمان کی شخصیت کا سب سے اہم حصہ اس کے اخلاق ہیں، اور خود احتسابی ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان اپنے اخلاق کو بہتر بنا سکتا ہے۔

خود احتسابی کا ایک اور اہم پہلو معاشرتی اصلاح بھی ہے۔ جب ہر فرد اپنے اعمال کا جائزہ لے گا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کریگا، تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔‘‘(سورۃ الرعد: 11)اس آیت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی تبدیلی کا آغاز ہر فرد سے ہوتا ہے۔

جب ہر فرد اپنی زندگی کا محاسبہ کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا، تبھی معاشرہ مجموعی طور پر بہتر ہو سکتا ہے۔خود احتسابی کے عمل سے انسان کے اندر عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک کمزور اور خطاکار مخلوق ہے اور صرف اللہ کی رحمت اور بخشش پر منحصر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’آپ فرمادیجیے:اے میرے وہ بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘(سورۃ الزمر: 53)یہ آیت انسان کو خود احتسابی کے بعد توبہ کرنے اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنے کا درس دیتی ہے۔

الغرض، خود احتسابی کا یہ عمل ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے، اپنے گناہوں سے بچنے اور نیکی کی راہ پر استقامت اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ہم ہر لمحے اپنے افعال کو بہتر بنا سکیں اور اللہ کے قریب ہو سکیں۔ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف اور ان کی اصلاح کا عزم ہمیں نہ صرف دنیا میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے بلکہ آخرت میں سرخروئی اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔

Load Next Story