میں نے ایسا کیوں سوچا ؟؟

جاپان میں انسان کوانسان سمجھاجاتا ہے، خواہ اس کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ہو


شیریں حیدر November 24, 2024

بہت پرانے زمانے کی بات ہے، لگ بھگ سات آٹھ برس پہلے، میںنے کہیں یہ خبر پڑھی تھی- جاپان کے شمالی ترین علاقے Hokkaido میں ایک ریلوے اسٹیشن اس سال بند ہونے والا تھا، وہ ریلوے اسٹیشن، جس کا نام Kami- Shirataki  تھا، اس سے چند سال پہلے سے ایک ٹرین کے لیے کھلا تھا۔

وہ ٹرین ہر روزدو دفعہ اس اسٹیشن پر رکا کرتی تھی، ایک دفعہ صبح اور ایک دفعہ شام کو۔ صبح اس اسٹیشن سے مسافروں کو سوارکرنے اورشام کو واپس اتارنے کے لیے، اس قصے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس ٹرین پر سوار ہونے والی مسافر فقط ایک لڑکی تھی جو ہر روز اس ٹرین سے اسکول جاتی تھی، ہفتے کے جتنے بھی دن اسکول کھلا ہوتا تھا۔

ایک مقام پر سوچاگیا کہ اس اکلوتے اسٹیشن اور اس پر چلنے والی ٹرین کو بند کردیا جائے مگر جب علم ہوا کہ اس پر سوار ہونے والی واحد مسافر ، حصول تعلیم کے لیے جاتی اور آتی ہے تو اس فیصلے کو اس وقت تک کے لیے موخر کر دیا گیا جب تک کہ وہ بچی گریجویشن نہ کرلے۔

 وہ ٹرین اپنے معمول کے مطابق اس ایک بچی کے لیے اپنے روٹ پر چلتی رہی، جب میں نے یہ خبر پڑھی تھی، لگ بھگ 2016کی بات ہو گی، اس وقت خبر یہ تھی کہ وہ بچی اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے قریب تھی اور یہ کہ وہ اسٹیشن اگلے چار ماہ میں بند ہونے والا تھا، ایک طرف یہ خبر تھی تو ساتھ ہی اس کی تردید کے لیے بھی میڈیا پر کچھ نہ کچھ موجود تھا کہ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے، وہاں سے ایک نہیں بلکہ دس اور طالب علم بھی اس کے ساتھ اس ٹرین پر جاتے ہیں۔

چلو مان لیا کہ ایسا ہی ہو گا، دس نہیں، بیس کرلیں، تیس چالیس یا پچاس کرلیں یا سو طالب علم کرلیں، اس صورت میں بھی ایک ٹرین کا چند سال تک چلتے رہنا، ہمارے ہاں کے عام الفا ظ میں سمجھیں تو خسارے میں چلناہی ہوا مگر جاپان جیسی قوم کے لیے تو یہ خسارہ ہر گز نہیں تھا، ایک بچی ہوتی تو بھی وہ ٹرین چلتی رہتی۔

کئی بار اور کئی حالات میں مجھے یہ خبر یاد آتی ہے، آج بھی جانے کیوں اچانک یاد آ گئی۔ اچانک تو کچھ بھی یاد نہیں آتا، کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوتی ہے، اس کی آج یاد آنے کی وجہ وہ وڈیو بنی ہے جو مجھے بھی موصول ہوئی ہے اور آپ میں سے بھی بہت سے لوگوں کو موصول ہوئی ہو گی۔ اس وڈیو میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک بچی اسکول کے یونیفارم میں ہے، اسے نہر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ، ایک آدمی اپنے کندھوں پر سوار کرکے لے کر جا رہا ہے، بچی نے پوری کوشش کی ہے کہ اس کے یونیفارم کی سفید شلوار پر گدلے پانی کا چھینٹا تک نہ پڑے اور وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہی ہے، اسے نہر پار کرانے والا آدمی، کیپشن کے مطابق اس کا باپ ہے ، اس نے صرف شلوار پہن رکھی ہے۔

اسی وڈیو میں اس کے بعد ایک دو بچے خود نہر کو پار کر رہے ہیں، انھوں نے اپنے بستے سروں پر اٹھا رکھے ہیں، ان میں سے بھی ایک نے فقط شلوار پہن رکھی ہے، قمیض شاید وہ نہر پار کر کے پہنے گا، دوسرے نے قمیض کو سمیٹ کر بغلوں میں دبا رکھا ہے۔ نہر کے اس پا ر بھی ابھی کچھ بچے کھڑے ہیں جنہو ں نے نہر کو پار کرنا ہے، لڑکے خود کر لیں گے، چھوٹے بچوں کو کوئی بڑا کرائے گا اور لڑکیوں کو شاید ان کے باپ۔ ان سے وڈیو بنانے والا جب سوال پوچھتا ہے تو وہ اپنی جماعت اور اسکول کا نام بتاتے ہیں ۔

پہلی حیرت تو یہ ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اکیسویں صدی کے بھی چوبیس برس گزرنے کے بعد ہمارے ملک میں ہو رہا ہے، پسماندگی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ کتنا بڑا پاٹ ہے نہر کا کہ جس پر سے پکا تو کجا ، کچا سا پل بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ سندھ کے علاقے میں ایسی ایک نہیں سیکڑوں داستانیں بکھری پڑی ہیں ، ناخواندگی کے اندھیرے ہیں اور انھیں چھٹانے کی کوئی کاوش اسی لیے نہیں کی جاتی کہ ناخواندہ لوگ تو انھی نمایندوں کو بار بار ووٹ دے دیتے ہیں، جھوٹے وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں مگر علم حاصل کر کے کوئی اتنا باشعور نہ ہوجائے کہ اپنے حق کے لیے کھڑا ہوجائے۔

دوسری بات یہ کہ اس نہر کو موسم گرما میں پار کرنا تو شاید ممکن ہو مگر موسم سرما میں کون خود کو یوں سرسام میں مبتلا کرنے کی کاوش کرسکتا ہے۔ میانہ موسم ہو تو بھی ٹھیک ہے ، موسم سرما میں یہ بچے کس طرح اسکول جاتے ہوں گے؟

جب بھی وڈیو بنانے والا ان بچوں سے سوال کرتاہے اور وہ جواب دیتے ہیں تو میں نے سنا کہ ہر بچہ اور بچی اپنے اسکول کا نام ایک ہی بتاتے ہیں، … بوائز ہائی اسکول ، یقینا کوئی سرکاری اسکول ہی ہو گا۔ ا س کا مطلب غالباً یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں یا قرب و جوار میں لڑکیوں کے لیے کوئی علیحدہ اسکول نہیں ہے، یا تو وہ لڑکوں کے اسکول میں پڑھتی ہیں یا ممکن ہے کہ اسکول میں لڑکیوں اور لڑکوں کے علیحدہ حصے ہوں۔اسی وڈیو میں ہمیں پس منظر میں موٹر بائیک کی آواز بھی آتی ہے اور پھر نہر کے پار سے موٹر بائیک جاتی ہوئی دکھائی بھی دیتی ہے، یعنی ترقی کے کچھ اثرات تو وہاں تک پہنچے ہیں مگر اس غربت کدے میں لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کوئی پل یا سڑک بنانے کی کہاں طاقت ہو گی۔

ان بچوں اور ان کے باپوں کی عمومی صحت سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ خط غربت سے کتنے درجے نیچے کے لوگ ہیں۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ ان لوگوں میں غربت اور تنگی حالات کے باوصف اتنا احساس ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی کشٹ اٹھایا جائے۔

میرا ندازہ ہے کہ یہ وڈیو جس علاقے سے ہے، وہ غالباً سندھ کا کوئی علاقہ ہے- سوال یہ اٹھتاہے کہ وہاں سے کون اس وقت حکومت میں ہے اور یہ علاقہ کس حکومتی نمایندے کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے، انھوں نے اس علاقے کے لیے آج تک کیا کیا ہے؟؟میں جب اس وڈیو اور آج سے آٹھ نو سال پرانی خبر کا موازنہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ہم ان آٹھ نو سالوں میں غالباً ریورس گیئر میں ہی گئے ہیں، دنیا آگے کو چلتی ہے مگر ہم جیسے کیچڑ میں چل رہے ہوں کہ ایک قدم آگے بڑھاؤ تو تین قدم پھسل کر واپس چلے جاتے ہیں۔ کیسی بے وقوفی ہے کہ ان دونوں صورت حال کا موازنہ کیا جائے، ان دونوں صورت حال میں قدر مشترک تو کسی ایک بچی یا چند بچوں کا اسکول جانا ہی ہے… اور تو کچھ بھی نہیں-

کہاں شمالی جاپان کا علاقہ اور کہاں سندھ کاکوئی دوردراز دیہی گاؤں، کہاں ایک اسکول کے بچوں یا بچی کے لیے کئی سال تک ایک ریلوے اسٹیشن کو فعال رکھاجاتا ہے اور کہاں ٹرین تو کجا کوئی کشتی نہیں… کہاں اس ریلوے اسٹیشن کو بند کرنے کا سوچا بھی جاتا ہے تو حکومت کی طرف سے فیصلہ سازی ہوتی ہے اور کہاں ہماری حکومت جو فیصلہ سازی کی قوت سے بھی محروم، ہمارے تو فیصلے بھی جانے کہاںکہاں ہوتے ہیں۔

وہ ووٹر جن کے کندھوں پر بیٹھ کر نمایندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، انھیں اگلے انتخابات سے پہلے پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے، جس صوبے سے ان کا تعلق ہے، انھیں تو شاید ووٹ کے عوض بریانی کی پلیٹ بھی نہیں ملتی ہو گی-ایسی قدامت… اس کا موازنہ کرنے چلی ہوں میں جاپان کی ترقی کے ساتھ، جہاں صرف مادی ترقی ہی نہیں ہے بلکہ سوچ بھی بہت بلند ہے۔ چڑھتے سورج کی سرزمین نے سورج کی بلندی جیسی ترقی کی ہے اور اقدار کی ترقی میں دنیا بھر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

جاپان میں انسان کوانسان سمجھاجاتا ہے، خواہ اس کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ہو، کسی بھی جماعت کا ووٹر ہو، کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، کسی بھی ملک کا باشندہ ہو۔ ہم لوگ کتنی ہی بنیادوں پر بٹے ہوئے، شناخت کے کتنے ہی اسباب اور طریقے، پہلے ہم مسلمان ہیں، پھر شیعہ ، سنی یا وہابی- پھر اہل … پھر پاکستانی، پھر پنجابی، پھر گجرات کے، پھر بڑے چوہدری، پھر ذات براداری اور قبائلے ، پھر ہمارا گاؤں، پھر سیاسی دھڑے، پھر کن کن خاندانوں میں رشتہ داریاں ہیں۔ ہمیں تو خود علم نہیں ہے کہ ہماری شناخت کا اصل پیمانہ کیا ہے تو پھر میںنے ایسا کیوں سوچا کہ کوئی بچی جاپان میں ہو یا پاکستا ن میں، اسے ایک جیسا ماحول ملنا چاہیے، ایک جیسے مواقع، ایک جیسی تعلیم، ایک جیسی سہولیات، ایک جیسی خوراک… میں نے جانے ایسا کیوں سوچا؟؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں