موجود منتخب حکومت اپنا ایک سال پورا کرنے جا رہی ہے،اپنی نوعیت کی پہلی اتحادی حکومت۔اس حکومت سے پہلے جو اتحادی حکومتیں بنیں، وہ بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان تھیں۔ پیپلز پارٹی مرکز میں اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں تھی۔کچھ عرصے تک مسلم لیگ (ن) وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بنی،وہ چھوڑ کر چلے گئے جب صدر زرداری نے مشرف صاحب کو سرکاری انداز میں رخصت کرنا چاہا۔
اس سے پہلے جب کابینہ سے پرویز مشرف نے حلف لینا تھا تو خواجہ آصف اور تمام مسلم لیگ (ن) کے وزیروں نے اپنے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں۔پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ممبران کی ضرورت نہیں تھی۔
پہلے اختلافات میں تیزی آئی ، پھر بہتری آئی اور پھر انھوں نے مل کر 18 ترمیم منظور کی۔ پاکستان میں اقتدار و سیاست کے اپنے نشیب وفراز ہیں۔اب مسلم لیگ(ن) کا پیپلز پارٹی کے بغیر چلنا محال ہے۔پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں مگر دو صوبوں میں ان کی حکومت ہے اور مسلم لیگ کے اثر کو توڑنے کے لیے پنجاب کے دو صوبے بنانے کی بات بھی پیپلز پارٹی نے کی، اب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کے گورنر ہیں۔
انھوں نے مل کر چھبیسویں ترمیم پاس کرائی، اب دونوں کو دراصل پی ٹی آئی نے جوڑ کر رکھا ہوا ہے،کیونکہ پیپلز پارٹی کبھی پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکو متی گٹھ جوڑ نہیں بنا سکتی جب تک کہ اسٹبلشمنٹ کا کوئی سگنل نہ موصول ہو اور وہ آئے گا بھی نہیں۔پھر خاں صاحب کا انداز سیاست اورحکومت ، ٹرمپ جیسا ہے۔ٹرمپ امریکا کی تباہی کا سامان ہے اور خان صاحب پاکستان کی تباہی کا، لہٰذا ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد ممکن نہیں۔
ادھر مسلم لیگ(ن) نے سی سی آئی کو بائی پاس کرکے نہروں کا پروجیکٹ لے کر سیدھے ECNEC پہنچ گئی اور بھی بہت سی باتیں ہیں، جن کا ذکر بلاول بھٹو نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔
یقینا یہ اتحاد رہے گا۔یہ اتحاد ایسے وقتوں میں ہوا ہے جب اس ملک میں مکمل کیا معذور جمہوریت بھی قائم نہیں تھی۔اب ہائبرڈ جمہوریت رائج ہے۔یہ ہائبرڈ جمہوریت خان صاحب کے دور میں بھی رائج تھی مگر آج یہ اس لیے بہتر ہے کہ ملک میں آج جمہوری قوتوں کی حکومت ہے اور ملک کو فاش ازم سے بچانے کے لیے ساتھ بیٹھی ہیں۔
میاں صاحب کے کچھ اس طرح کے بیانات بھی آ رہے ہیںکہ دونوں اتحادی اندرونی طور پر ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔یہ ایسا وقت نہ تھاکہ وہ لندن جا کر ایسے بیا نات دیتے کہ ان کے خاندان کے ساتھ جنرل مشرف اوربھٹو صاحب نے اچھا نہیں کیا۔بلاول بھٹو نے کبھی یہ نہیں کیا کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف میاں صاحب ،جنرل ضیاء کے اتحادی بنے ۔اب یہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔میاں صاحب نے اپنے دوسرے دور حکومت میںبے نظیر صاحبہ کو جلا وطن ہونے پر مجبور کیا تھا۔
یہ ہائبرڈ جمہوریت جو اسٹبلشمنٹ کی ایماء پر چل رہی ہے، اس لیے کہ اب کوئی بھی سادہ اکثریت حکومت بنانے کے لائق نہیں رہی۔پھر وہ چاہے پی ٹی آئی ہی کیوں نہ ہو یا پھر شفاف انتخابات ہوں۔ستر کی دہائی سے لے کر نوے کی دہائی بلکہ 2010 تک کے انتخابات کا رجحان اب نہیں رہا ،اب وفاق میں اتحادی حکومتیں ہی بنیں گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نے معجزاتی طور پر اپنی معیشت کو سنبھال لیا ہے۔افراط زر پر قابو پانا،چار مہینوںبرآمدات کے اندر24% اضافہ ہونا ۔زرِ مبادلہ کا مجموعی حجم اٹھارہ ارب ڈالر تک چلا جانا۔ان چار مہینوں میںترسیلاتِ زر میں 36% اضافہ ہونا۔
ان چھ مہینوں میں افراطِ زر میں کمی کی وجہ سے شرح سود بائیس فیصد سے کم ہو کر پندرہ فیصد پر آگئی ہے۔آئی ایم ایف کا سہارا دینا، ٹیکسز میں اضا فہ ہونا لیکن اس کا افراطِ زر پر اس کا منفی اثر نہیں پڑ نا۔اسٹاک ایکس چینج کا ایک لاکھ پوائنٹ کی سطح کو چھونا، یو ں سمجھیے کہ ایسا کم از کم دو دہائیوں کے بعد ہوا ہے، ایسے وقتوں میں جب امریکی امداد پر ہمارا انحصار ویسا نہیں جیسا کہ جنرل مشرف یا پھر جنرل ضیاء کے ادوار میں تھا۔
پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ اب یہ ریاست کسی ملک کے لیے پراکسی اسٹیٹ بن کر کام نہیں کرے گی،جو بحران اس ملک کی جڑوں کو کھا گیا ہے ۔ہم نے اس ملک کا کوئی ریاستی نظریہ ہی نہیں بنایا کہ ہم کوئی نظریاتی ریاست ہیں،لیکن اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری معیشت ہمارا مرکز کل ہے،لیکن اس مقصد کو پانے کے لیے ہمارا بجٹ وہ نہیں جس سے انسانی وسائل میں بہتری آسکے۔
ہمارے برعکس ہندوستان اور بنگلہ دیش نے HDI کے انسانی وسیلوں کی ترقی کا پیمانہ بنایا اور وہ اہداف پانے کی کوشش کی۔انسانی وسائل کو بہتر بنانے کی وجہ سے بنگلہ دیش ڈیڑھ دہائی سے سات فیصد شرح نمو کے ساتھ آگے بڑھا اور تین دہائیوں سے ہندوستان سات فیصد شرح نمو سے آگے بڑھا۔اس وقت پاکستان اپنے وفاقی جزسے خطرہ رکھتا ہے۔
چاروں صوبوں کے مابین ہم آہنگی کا فقدان وفاق کو پریشر میں رکھتا ہے خصوصاًبلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انتہا پرستوں کا سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا۔ سندھ میں پنجاب کے اندر نئے کینالوں پر تضاد اور اس بحران کے حوالے سے سندھ میں بہت تیزی سے ابھار آ یا ہے۔پانی کی منصفانہ تقسیم اور سسٹم کا فقدان، ماحولیاتی تباہی ان تضادات میں اضافہ کرے گی اور پھر پیپلز پارٹی اس بات پر مجبور ہو جا ئیگی کہ اس اتحاد کوتحلیل کیا جائے ،ورنہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنا وجود کھو دے گی۔
خان صاحب نے اگر اپنی سیاست کاطریقہ کار نہیں بدلا تو یہ اتحاد ایسے ہی برقراررہے گا۔یہ اتحاد تب تک جاری رہے گا جب تک خان صاحب جمہوری طرز کی سیاست کریں یا پھر حقیقتاہی نہ رہیں۔نو مئی کے واقعات کو جنم دینے والی سوچ یا پھر خاں صاحب کے لیے پکا توڑ ہے۔
ٹرمپ کے آنے سے اس ملک کے بیرونی دشمن مضبوط ہوئے ہیں۔پاکستان اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت منظم ہے اور اگر خان صاحب کسی بیرونی گیم کا حصہ ہیں تو وہ ان کے لیے بے حد نقصان کا باعث ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریقین جو وفاق میں رتبہ رکھتے ہیں، ان سب کو آن بورڈ لے کر تمام فیصلے کیے جائیں۔