جنگی جرائم اور بین الاقوامی عدالت انصاف
انسانی تاریخ کا ہر دور جنگ، تباہی اور ظلم کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن کچھ جرائم ایسے ہیں جو نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ امن کے دور میں بھی انسانیت کے نام پر داغ بن جاتے ہیں۔ ان ہی جرائم کو روکنے اور ان کے مجرموں کو سزا دلانے کے لیے جنگی جرائم کے عالمی قوانین ترتیب دیے گئے ہیں۔ جنگی جرائم میں نسل کشی، شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا، خواتین اور بچوں پر مظالم اور دیگر غیر انسانی اقدامات شامل ہیں جنھیں عالمی معاہدوں اور اصولوں کے تحت ناقابل معافی قرار دیا گیا ہے۔
آج کا دور ایسا ہے کہ جنگ اور ظلم کو نہ صرف ریکارڈ کیا جا سکتا ہے بلکہ ان جرائم کو منظر عام پر لا کر عالمی عدالتوں میں انصاف کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف (International Court of Justice - ICJ) کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ICJ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت 1945 میں قائم کی گئی تھی، جس کا مقصد دنیا میں امن و انصاف کو فروغ دینا اور بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنا ہے۔ ICJ کے فیصلے عالمی سطح پر ایک نظیر کا درجہ رکھتے ہیں اور دنیا کی توجہ اس وقت اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف جاری مقدمے پر مرکوز ہے۔
نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انھوں نے فلسطینی شہریوں پر مظالم کی کھلی اجازت دی، جن میں غزہ کے بے گناہ مرد، خواتین اور بچے شدید متاثر ہوئے۔ اسرائیلی فضائی حملے، بچوں کا قتل، اور گھروں کا مسمار کیا جانا ایسے جرائم ہیں جو انسانیت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسے اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، اور نیتن یاہو کو ICJ میں اس سلسلے میں جواب دہ ٹھہرایا گیا ہے۔
اس کیس میں فلسطینی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ICJ سے اپیل کر رہی ہیں کہ اسرائیل کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ فلسطینیوں کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ICJ کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ کسی بھی ملک یا عالمی تنظیم کو اس عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا حق ہے۔ عدالت درخواستوں کا جائزہ لیتی ہے اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتی ہے۔
تاہم، اکثر طاقتور ممالک ICJ کے فیصلوں سے بچنے کے لیے سیاسی چالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی اہم کیسز جیسے بوسنیا کے مسلمانوں، روانڈا کی نسل کشی اور کشمیر کے مظالم کے معاملات ICJ میں زیر غور آئے، لیکن ان میں فیصلہ آنے تک ایک طویل عدالتی عمل سے گزرنا پڑا۔
اسرائیل اور نیتن یاہو کے خلاف ICJ میں دائر حالیہ کیس میں دنیا کی نظریں اس بات پر ہیں کہ آیا عدالت ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی کرے گی۔ موجودہ کیس میں، فلسطینی قیادت نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ منظم طریقے سے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، ان کی زمینوں کو قبضے میں لے رہا ہے، اور غزہ جیسے علاقوں میں جنگی جرائم کر رہا ہے۔ ICJ کی جانب سے اگر اسرائیل کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ عالمی قوانین کی پاسداری کے حوالے سے ایک اہم قدم ہو گا اور جنگی جرائم کی روک تھام میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے ماضی میں کئی اہم فیصلے دیے ہیں جو انصاف اور امن کی خاطر مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1993 میں بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر عدالت نے سرب سربراہوں کو مجرم ٹھہرایا، جس کے نتیجے میں سربیا کو بین الاقوامی سطح پر جواب دہ ہونا پڑا۔ اسی طرح، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر ICJ نے یہ فیصلہ دیا کہ میانمار کی حکومت نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ان کے انسانی حقوق کی پامالی کی گئی ہے۔ ان فیصلوں نے یہ ثابت کیا کہ ICJ دنیا کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کا ادارہ ہے۔
اس وقت نیتن یاہو کے خلاف ICJ میں چلنے والا کیس نہ صرف فلسطینیوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے انصاف اور امن کی جانب امید کی ایک کرن ہے۔ اگر عدالت اس کیس میں اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو یہ فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہو گا اور اس سے یہ پیغام جائے گا کہ کوئی بھی حکومت، چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، انسانی حقوق کی پامالی کے بعد محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اس کے علاوہ، ICJ کا یہ فیصلہ مستقبل میں دیگر ممالک کے لیے ایک نظیر بن سکتا ہے، اور جنگی جرائم کے خلاف عالمی سطح پر ایک مضبوط پیغام دے سکتا ہے۔
اسرائیل کے معاملے میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جو اسرائیل کے دفاع میں کھڑے ہیں، جب کہ دوسری جانب انسانی حقوق کے حامی ممالک ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ ICJ کا فیصلہ اس تنازعے کو مزید اجاگر کرے گا اور عالمی سطح پر انسانیت کے حق میں انصاف کی جیت کا پیغام ہوگا۔
اس کیس میں جو الزامات ہیں، ان میں خاص طور پر غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں شامل ہیں، جہاں عام شہریوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مظالم کو جنگی جرائم قرار دے چکی ہیں، اور یہ کیس ICJ کے سامنے اس بات کا امتحان ہے کہ آیا وہ اسرائیل کے خلاف مضبوط قدم اٹھا سکے گا یا نہیں۔ فلسطینی عوام نے اپنی امیدیں ICJ سے باندھ رکھی ہیں اور دنیا کے انصاف پسند افراد بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ان کی توقعات پر پورا اترے گا یا نہیں۔
اگرچہ ICJ کا ہر فیصلہ فوری نتائج نہیں دیتا، مگر یہ عالمی سطح پر قانون اور انصاف کے حق میں ایک آواز ہوتی ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف کیس کا فیصلہ اگر فلسطینیوں کے حق میں آتا ہے تو یہ ایک تاریخی اقدام ہو گا، جو دنیا کو یہ بتائے گا کہ ظلم و بربریت کی ایک حد ہے اور مظلوموں کے لیے انصاف کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ عدالت کا فیصلہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک نئی امید کا پیغام بنے گا، اور ICJ کا یہ کردار عالمی امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔