دہشت گردوں کی حکمت عملی

دہشت گرد وں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے۔اس نیٹ ورک کا ایک حصہ خودکش اسکواڈز پر مشتمل ہے

پاکستان میں دہشت گردی کرانے والے کون ہیں ‘ان کے چہرے نظر نہیں آتے البتہ ان کے ٹھکانوں کے بارے میں ملک کے اداروں کے پاس بہت سے شواہد موجود ہیں ۔ حال ہی میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں‘دہشت گردوں کی حکمت عملی کثیر الجہتی ہے۔

دہشت گرد وں کا نیٹ ورک تہہ در تہہ ہے۔اس نیٹ ورک کا ایک حصہ خودکش اسکواڈ زپر مشتمل ہے۔یہ دہشت گرد براہ راست دہشت گردی کی کارروائیوں کو انجام دیتے ہیں۔ان کے ٹریننگ کیمپ ان جگہوں پر قائم ہیں جہاں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی رٹ نہیں ہے یا وہ پاکستان کی حدود سے باہر ہیں۔

خصوصاً افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے ہیں ‘ان پر کابل حکومت کی بھی کوئی رٹ نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ طالبان حکومت نے ان علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا ایک سیکشن اطلاعات کے نظام پر مبنی ہے۔

یہ نیٹ ورک پاکستان کے مختلف حلقوں میں اپنی جڑیں رکھتا ہے اور یہاں سے معلومات اکٹھی کر کے دہشت گردوں کے فیصلہ ساز نیٹ ورک تک پہنچاتا ہے۔دہشت گردوں کے نیٹ ور ک کا ایک حصہ مالی سہولت کاروں پر مشتمل ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جس کے مالی مفادات دہشت گردوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیںیعنی یہ اسمگلنگ ‘ڈرگز‘اغوا برائے تاوان اور دیگر وائٹ کالر کرائمز کرنے والوں پر مشتمل گروہ ہیں۔کالے دھن کا مالک یہ گروہ اپنے مفادات اور اپنی گردن بچانے کے لیے پاکستان کے سسٹم کو بھی کرپٹ کرنے کا ذمے دار ہے جب کہ ملک کے سیاسی کلچر کو بھی داغ دار کر رہا ہے۔

اس نیٹ ورک کاایک حصہ ان سہولت کاروں پر مشتمل ہے جو دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں‘انھیں اسلحہ یا خود کش جیکٹس وغیرہ چھپانے کے لیے جگہ کی سہولت دیتے ہیں اور پھر ہدف تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بناتے ہیں‘اس کا مقصد سیکیورٹی فورسز کا مورال ڈاؤن کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز سے زیادہ طاقت ور ہیں۔

دہشت گرد فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے اور باہمی نفرتوں کو بڑھانے کے لیے بھی مختلف مسالک کی شخصیات اور ان کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں جب کہ عام مارکیٹوں میں بھی خود کش دھماکے کرتے ہیں۔ایسا کرنے کا مقصد عوام کے اندر خوف و ہراس پیدا کرنا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ حکومت ان جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے۔

اس نیٹ ورک کا ایک حصہ ایسے گروہ پر مشتمل ہے جس کا کام تحریر اور تقاریر کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنا ‘ان کے کاز کو درست ثابت کرنا ‘ریاست اور حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنا ‘ریاست اور حکومت کی پالیسیوں پر بے جا تنقید کر کے عوام میں کنفیوژن پھیلانا ‘دہشت گردوں کے نظریات کو درست قرار دینا جیسے کام شامل ہیں۔

پاکستان میں یہ سب کچھ برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ہی وجہ ہے کہ پاکستان تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی پر پوری طرح قابو نہیں پا سکا اور ہی دہشت گردوں کی سہولت کاری کو مکمل طور پر ختم کر سکا ہے۔

بہرحال پاکستان میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ ہر گزرتے دن میں اس کی کامیابی کے امکانات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔گزشتہ روز بھی پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے 19 نومبر کو ہونے والے قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے تناظر میں پشاور کا دورہ کیا، جہاں انھیں موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور علاقے میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشنز پر پیشرفت پر جامع بریفنگ دی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے مادر وطن کے دفاع کے لیے شہدا اور غازیوں کی بے مثال قربانیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا، ان کاکہنا تھا کہ یہ قربانیاں مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیر متزلزل عزم اور فرض شناسی کا ثبوت ہیں، انھوں نے ہر قسم کے خطرات کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے جوانوں کے بلند حوصلے، آپریشنل تیاری اور غیرمتزلزل عزم کو سراہا اور دشمن نیٹ ورکس کو ختم کرنے، قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے غیر قانونی عناصر کو ختم کرنے کے لیے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا۔ 

آرمی چیف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قوم اور سیکیورٹی فورسز کے اجتماعی عزم کو اجاگر کرتے ہوئے زور دیا کہ دشمن عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بنانا ہماری اولین ترجیح ہے، انھوں نے یقین دلایا کہ ہم آہنگی اور موثر آپریشنز کے ذریعے پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر دیرپا استحکام اور سلامتی کو یقینی بنائے گی اور امن کے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیے جائیں گے۔

پاکستان کے دشمنوں کے لیے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ پورے عزم و حوصلے سے جاری رکھے ہوئے ہے اور اس میں کامیابی حاصل کر کے رہیں گے۔ادھر سیکیورٹی فورسز کے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں آپریشنز کے دوران 3 انتہائی مطلوب سمیت 7 دہشت گرد مارے گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق 22 نومبر کی علی الصبح سیکیورٹی فورسز نے بنوں میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں 3 خوارج مارے گئے اور دو زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 20 سے 22نومبر 2024کے دوران بلوچستان میں تین مختلف کارروائیوں میں چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

آواران میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے کے بعد دو دہشت گرد ہلاک ہوئے جو ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے ۔ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کے دوران ایک دہشت گرد اورکیچ ضلع میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کے دوران ایک اور دہشت گرد مارا گیا۔

ہلاک دہشت گرد فورسز کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث اور متعدد کارروائیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھے، آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز قوم کے ساتھ مل کر بلوچستان میں امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

صدر مملکت آصف علی زرداری اوروزیراعظم محمد شہباز شریف نے ضلع بنوں اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ صدر مملکت نے فتنہ الخوارج کے مکمل خاتمے تک فورسز کی جانب سے کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انسانیت کے ان دشمنوں کے مذموم عزائم کو اس طرح خاک میں ملاتے رہیں گے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں اورملک دشمنوں کے کئی گروہ مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں‘بظاہر یہ گروہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کے مقاصد اور اہداف بھی مختلف ہیں۔ان میں طالبان اور اس کی سسٹر آرگنائزیشن مذہب کے نام پر اپنے مفادات کے حصول کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے۔

یہ تنظیمیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ان علاقوں میں سرگرم ہیںجن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں۔انھیں افغانستان سے افرادی قوت میسر ہوتی ہے اوروہاں ان کے چھپنے کے لیے محفوظ ٹھکانے بھی محفوظ ہیں جب کہ بلوچستان کے اندر ایک گروپ بلوچستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔لیکن عملی طور پر کئی معاملات میں یہ گروہ مشترکہ حکمت عملی کے طور پر بھی کام کرتا رہا۔

مالی وسائل اکٹھے کرنے کے لیے دونوں کا طریقہ کاردارت ایک جیسا ہے۔دونوں گروپوں کا مقصد بھی ایک ہی ہے۔طالبان کی حکمت عملی میں مذہب اور عقیدے کو آڑ بنایا جاتا ہے لیکن ان کے عمل اور ہدف بالکل غیر مذہبی ہیں۔ان کا مقصد ریاست پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ اسی طرح قوم پرستی کے نام پر سرگرم دہشتگرد گروپوں کا مقصد بھی کسی قوم کی ترقی اور خوشحالی نہیں ہے بلکہ اپنے لیے طاقت کا حصول ہے اور اس کا مقصد بھی پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچانا ہے۔

یوں دہشت گرد ایک مشترکہ مقصد کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی پاکستان کی ایجنسیوں کو جو حکمت عملی بنانی چاہیے اس میں کسی قسم کی لچک اور دو عملی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ طالبان ہوں یا ٹی ٹی پی انھیں خیبرپختونخوا میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔یہ لوگ ووٹ کی طاقت سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔اسی طرح بلوچستان کے علیحدگی پسندبھی عوام میں مقبولیت نہیں رکھتے۔وہ بھی ووٹ کے ذریعے کبھی برسراقتدارنہیں آسکتے۔ اس لیے وہ ہتھیار کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ان کا مقصد عوام کی آواز کو دبانا اور ریاست کو مفلوج کرنا ہے۔ پاکستان کی ریاست کو ان کے ان مقصد اور ہدف کو ناکام بنانے کے لیے دو ٹوک حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔

Load Next Story