کراچی:
روئی کی درآمدات پر سیلز ٹیکس کے استثنی کے باعث کاٹن ایئر 2024-25 کے دوران ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ روئی درآمد ہونے کی اطلاعات زیرگردش ہیں، ملک میں روئی کے بڑھتے ہوئے درآمدی رجحان کے باعث مقامی روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مندی کا رجحان غالب ہونے سے کاشت کاروں اور کاٹن جنرز میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ وفاقی بجٹ2024-25 میں برآمدی ٹیکسٹائل سیکٹر کے لئے درآمدی روئی اور سوتی دھاگے کو 18فیصد سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن اندرون ملک سے خریداری پر ان پر یہ سیلز ٹیکس لاگو رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جبکہ کاٹن زونز میں گنے کی غیر معمولی کاشت سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے باعث کپاس کا معیار بھی متاثر ہونے سے رواں سال ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے روئی درآمدی رجحان میں زبردست اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے باعث کاٹن ایئر 2024-25 میں ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ 60لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ درآمدی معاہدے ہونے کے امکانات ہیں جن میں سے 30لاکھ گانٹھ کے قریب درآمدی معاہدوں کو حتمی دیئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں اب تک 13لاکھ سے زائد درآمدی روئی کی گانٹھیں پہنچ چکی ہیں جس کے باعث اندرون ملک روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں مندی کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مقامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کی فی من قیمتوں میں 500روپے کی کمی واقع ہوئی ہے جس سے پنجاب میں فی من روئی کی قیمت 17ہزار 500روپے جبکہ سندھ میں 17ہزار 300روپے کی سطح پر آگئی ہیں۔
اسی طرح پھٹی کی قیمتوں میں بھی بڑی نوعیت مندی کا رححان ہے جس کے باعث کاشت کاروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اندرون ملک ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے روئی خریداری سرگرمیاں گھٹنے سے جننگ فیکٹریوں میں روئی کے ذخائر بڑھتے جارہے ہیں اور اسی طرح منڈیوں میں پھٹی کے ذخائر میں بڑا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل ملوں کی روئی کی درآمدات میں ریکارڈ اضافے کے باعث تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان امریکی روئی کا بھی سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔ رواں کاٹن سیزن کے دوران پاکستان امریکا سے 45 سے 50لاکھ گانٹھ روئی درآمد کرسکتا ہے جبکہ باقی ماندہ روئی کی ضروریات کو برازیل، ارجنٹائن، تنزانیہ اور افغانستان سے درآمد کرکے پورا کیا جارہا ہے۔