پارٹی تو خیر تھی ہی بشری بی بی کے گھر کی، پی ٹی آئی کی قیادت سنبھالنے کے بعد انھوں نے زبان کیا کھولی، گویا بھونچال آ گیا۔ کسی نے اس خود کش حملہ قرار دیا کسی نے پاکستان سعودیہ تعلقات تباہ کرنے کی سازش۔ مجھے ڈاکٹر انعام الحق جاوید یاد آئے۔ ڈاکٹر صاحب اردو اور پنجابی کے باکمال شاعر ہیں۔
وہ چوں کہ ظریفانہ شاعری کے لیے بدنامی کی حد تک مقبول و معروف ہیں، اس لیے ان کی پنجابی کلیات' نواں بشکا' کے عنوان سے شائع ہوئی تو انھوں نے اس کے سرورق پر یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ یہ سنجیدہ شاعری ہے۔ سنجیدہ اور ظریفانہ شاعری کے فرق اور اس کی وضاحت یا عدم ضرورت کا موضوع بھی اہم اور ضروری ہے جس کی تفصیل ہمیں بہت سی نئی دنیاؤں کی سیر کرا سکتی ہے لیکن سردست اس پر گفتگو مقصود نہیں، ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی ایک بولی کا ذکر کرنا ہے جو ' یہ کس کو اٹھا لائے ہو' جیسے شہرہ آفاق و آفاقی بیان کے بعد یاد آئی۔ بولی ہے:
ذرا اٹھ کے کھلو بلیے
اساں تیرا قد ویکھنا
بولی پنجابی شاعری کی ایک قدیم صنف ہے جس میں شاعر ڈیڑھ یا دو مصرعوں میں پورا ماجرا بیان کر دیتا ہے۔ پنجابی شاعری ہمارے یہاں ذرا توجہ سے محروم رہی ہے۔ عمومی خیال یہی رہا ہے کہ پنجابی شعرا حتیٰ کہ بزرگ شعرا بھی اس صنف میں معاملات حسن و عشق سے آگے نہیں بڑھ سکے لہٰذا اس مقبول پنجابی صنف سخن کا تعارف کراتے وقت عام طور پر ایک بولی سنائی جاتی ہے جو قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری سے منسوب ہے۔ بولی ہے:
گوری نہا کے چھپڑ چوں نکلی
تے سلفے دی لٹ ورگی
علم و ادب کا شعبہ ہو یا زندگی کا کوئی اور میدان کسی فرد یا معاملے پر بعض اوقات ایسی مہر لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے دیگر پہلو اوجھل ہو جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ بولی کے باب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے لیکن اگر اس زبان کے کلاسیکی شعرا کے کلام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنی شاعری میں جابر استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم سے لے کر معاشرتی مسائل و امراض تک ہر موضوع پر فکر سخن کیا ہے جیسے بابا بلھے شاہ کہتے ہیں:
اٹھ جاگ گھراڑے مار نہیں
ایہہ سون تیرے درکار نہیں
بابا بلھے زندگی بھر ظلم اور جبر کے خلاف سینہ سپر رہے اور اپنے عہد کے لوگوں کو جابر قوتوں کے جبر کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے بہ جائے اس کے خلاف جدو جہد کے لیے پکارتے رہے، ان کی فکر اور جدو جہد کے ضمن میں ان کا یہ شعر غیر معمولی ہے اور اس تاثر کو زائل کر دیتا ہے کہ پنجابی میں بڑے مقاصد کے لیے بڑی شاعری نہیں ہوئی۔
عظیم شاعری کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنے عہد کے دکھوں کا ایسا بیان بن جاتی ہے جو زمانوں پر محیط ہو۔ بابا بلھے شاہ یقینا اس کی بڑی اور عمدہ مثال ہیں جنھوں اپنے عہد کے سیاسی، سماجی اور فرقہ وارانہ جبر کے خلاف ایسی توانا آواز بلند کی جو اپنے عہد تک محدود نہیں رہی بلکہ عہد در عہد بنی نوع انسان کے دکھوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ہمارے عہد تک آن پہنچی ہے اور ہمیں اپنے ہی عہد کی ترجمان محسوس ہوتی ہے۔ کسی شاعر کے سخن میں اگر یہ عنصر مفقود ہوجائے تو اس کا ہونا نہ ہونا برابرہو جاتا ہے۔ زمانہ اسے یوں بھلا دیتا ہے جیسے یہ کبھی تھی ہی نہیں۔
مرحوم منیر نیازی کی شاعری اپنے بے پناہ جذبے اور محبت میں وارفتگی کے لیے مثالی ہے۔ ان کی بے مثل شاعری کو اگر صرف اسی یعنی رومانی جذبے تک محدود سمجھ لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یا شاعری کو نہیں سمجھتے یا پھر اپنے عہد کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ پاکستان اور اہل پاکستان مختلف ادوار میں جن مسائل سے گزرے ہیں، منیر نیازی نے اپنی ایک بولی میں اسے امر کر دیا ہے
دو پتر اناراں دے
آپنے دکھ نئیں مکدے، دکھ کیہ ونڈیے یاراں دے
زندگی کے بہت سے دکھ خاص طور پر معاشی ناہمواری ایک ایسا روگ ہے جس کی وجہ سماج میں انسانی ہمدردی اور باہمی تعاون جیسی عظیم صفات کمزور پڑ جاتی ہیں۔ منیر نیازی نے اسی المیے کو اپنی بولی میں کمال ہنر مندی کے ساتھ قلم بند کر دیا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی بولیاں بھی اسی درخشندہ روایت کو آگے بڑھاتی ہیں۔
ادب کا کوئی شعبہ ہو یا کوئی زبان، دراز قامت حسینہ کا موضوع پر جگہ موجود ہے۔ دراز قامت حسینہ کے ذکر کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے جیسے بیان کیا گیا ہے یعنی اونچی لمبی دوشیزہ لیکن شاعری صرف ظاہری سراپے ہی کو تو بیان نہیں کرتی، وہ علامتوں میں بات کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جسے محبوب مجازی سمجھ کر گزر جاتے ہیں، وہ فی الحقیقت محبوب حقیقی بن کر ہمارا دامن پکڑ لیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ بولی بھی ہماری توجہ اپنے عہد کے ایک بڑے المیے کی طرف مبذول کراتی ہے۔
ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟ ہمارے عہد کا المیہ ہے، کوتاہ قسمت لوگ۔ کوتاہ قامت لوگ زندگی کے جس شعبے میں بھی ہوں، قیامت ڈھا دیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے اگر سیاست میں آ جائیں تو کٹیا ہی ڈوب جاتی ہے۔ جرمنی اور جاپان کی صرف سرحدیں نہیں مل جاتیں، چار موسم بارہ موسموں میں نہیں بدلتے، 5 پانچ اگست 2019 کا المیہ ظہور میں آ جاتا ہے اور اہل کشمیر کی صدیوں پرانی جدوجہد پر پانی پڑ جاتا ہے۔
لیڈر اپنے مخالفین کی مخالفت کے فریب میں سی پیک جیسے دنیا کی قسمت بدل دینے والے منصوبے کا بیڑا غرق کر دیتا ہے۔ ایسے کوتاہ قیمت لوگ اپنی ذات کی عظمت کے ایسے اسیر ہوتے ہیں کہ سعودی عرب جیسے مخلص دوست اور بھائی پر زبان طعن دراز کر دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کی لگائی ہوئی آگ سے کیا کچھ بھسم ہو جائے گا۔ ماضی میں جب سی پیک کو روک پیک کیا گیا تھا یا
چین، سعودی عرب، ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے با اعتماد برادر اور دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کیا گیا تھا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ عمران خان نے سینئر اور سنجیدہ سیاست دانوں کو نظر انداز کر کے بشریٰ بی بی سے امید لگائی تو اس کا سبب بھی یہی تھا اور بشریٰ بی بی نے عمران خان کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے سعودی عرب پر الزامات کی بارش کر دی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ پاکستان جو قائد اعظم، نوابزادہ لیاقت علی خان، چودہری محمد علی، مولانا مودودی، نواب زادہ نصر اللہ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ان جیسی عظیم شخصیات کی سیاست کا وارث تھا، آج اس کی قیادت کے دعوے دار ایسے لوگ ہیں جن سے پوچھنا پڑتا ہے
ذرا اٹھ کے کھلو بلیے
اساں تیرا قد ویکھنا
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کتاب ' نواں بشکا' میں اپنے عہد کے دکھوں کی ترجمانی کرنے والی صرف بولیاں ہی شامل نہیںہیں، ماہئے، ٹپے، نظمیں اور فکر کو جلا بخشنے والی غزلیں بھی شامل ہیں۔ آج کا کالم ان کے نام اور پاکستان کی دکھی جانوں کے نام، کوتاہ قامت لوگ جن کی عقل و خرد اڑا لے گئے۔