امریکا کے حالیہ الیکشن میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکی سرزمین میں بستے غیرقانونی مہاجرین میں خوف وتشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ ان سب کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں ۔
ان غیرقانونی مہاجرین کی تعداد سوا کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ مہاجرین ناجائز طور پہ امریکا میں داخل ہوئے مگر سّکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ان کی وجہ سے بھی امریکا میں کاروبار ِ زندگی رواں دواں ہے۔ اگر یہ ملک بدر کر دئیے گئے تو بہت سے چھوٹے موٹے کام کرنے والے لوگوں کی قلت جنم لے گی۔ تب سفید فام آقاؤں کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
مہاجرین پر کریک ڈاؤن
مذید براں ٹرمپ جن سفید فاموں کا رہنما ہے، ان کے اجداد کیا قانونی طور پہ امریکا میں داخل ہوئے تھے؟ سرزمین امریکا کے اصل باشندے ریڈ انڈین ہیں۔ برطانیہ اور یورپ کے سفید فاموں نے امریکا پہنچ کر ان کا قتل عام کیا اور زبردستی ریڈانڈینوں کی سرزمین پر قابض ہو گئے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ ان غاصب سفید فاموں کی اولاد اب امریکا میں بستے غیرقانونی مہاجرین کو زبردستی اور بذریعہ تشدد نکالنا چاہتی ہے۔
ٹرمپ مگر مہاجرین پر کریک ڈاؤن کر کے رہیں گے، کیونکہ امریکی سفید فاموں نے انھیں یہی کام کرنے کے لیے ووٹ دئیے ہیں۔ بلکہ بہت سے سفید فام چاہتے ہیں کہ امریکا سیکولر نظریات کو خیرباد کہہ دے اور خود کو عیسائی مملکت قرار دے ڈالے۔ اس نظریے سے ٹرمپ بھی ہمدردی رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ عیسائی انتہاپسندوں کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ انتہاپسند غیرملکیوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان امریکا آ کر بس جائیں۔ ان کا بس چلے تو وہ سبھی امریکی مسلمانوں کو نکال باہر کریں۔
متنازع نامزدگیاں
سفید فام عوام کے نظریات سے قربت رکھنے کی وجہ ہی سے مسٹر ٹرمپ نے ان اہم عہدوں پر ایسی شخصیات کو نامزد کر دیا جو سفید فاموں کے نظریات کا پرچار کرتی یا ان سے ہمدردی رکھتی ہیں۔ ٹرمپ نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اسے دنیا بھر کے اعتدال پسند، لیفٹسٹ اور مسلمان تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ٹرمپ کی زیرقیادت امریکی سفید فام انتہا پسندی کی سمت مائل ہو سکتے ہیں جو معاشرے میں نفرت ، دشمنی اور تشدد کے منفی جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔
یہ یاد رہے کہ قدامت پسندی (جسے بنیاد پرستی بھی کہا جاتا ہے) ، انتہا پسندی (یا شدت پسندی) سے مختلف ہے۔ ایک حقیقی اور معتدل قدامت پسند اپنی روایات ، مذہب اور رسوم ورواج سے محبت کرتا ہے۔ مگر وہ اپنے نظریات زبردستی دوسروں پر نہیں ٹھونستا ۔ اسلام میں بھی پیروکاروں کو کہا گیا ہے کہ جو غیرمسلم تم سے لڑتے ہیں، ان سے ضرور جنگ کرو۔ مگر امن پسند غیر مسلموں سے کوئی تعرض نہ کرو۔ ان میں تبلیغ سے اسلام پھیلانے کا حکم ہے۔ تب بھی کہا گیا کہ محبت و پیار سے انھیں راغب کرو۔اگر وہ اسلام نہیں لاتے تو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جبکہ انتہا پسند کی کوشش ہوتی ہے کہ زور زبردستی سے اپنے نظریات سبھی پر ٹھونس دے۔ اور جو ان کو تسلیم نہیں کرتا، وہ اس کے خلاف صف آرا ہوجاتا ہے۔ غرض انتہا پسندی انسانی معاشرے میں منفی جذبے پروان چڑھاتی ہے۔
امریکی جنگیں بند ہو سکیں گی؟
بدقسمتی سے ڈونالڈ ٹرمپ گو شدت پسند نہیں مگر اپنے کاروباری ، سیاسی یا ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے وہ امریکی انتہا پسندوں کے آلہ کار، مددگار ومعاون بن سکتے ہیں۔ اسی لیے امریکا میں اعتدال پسند، لیفٹسٹ اور مسلمان شہری ٹرمپ کی نامزدگیوں اور پالیسیوں کو دیکھ کو پریشان و حیران ہیں۔ ٹرمپ کے بعض دعوے تو اچھے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ غیرممالک میں امریکی جنگیں بند کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ کیا وہ یہ کام کر سکیں گے؟
وجہ یہ ہے کہ امریکا میں تو جنگیں کرنااور کرانا بہت بڑا اور نہایت منافع بخش کاروبار بن چکا۔ اس کاروبار سے کئی کھرب پتی سفید فام اور یہودی وابستہ ہیں جسے عرف عام میں ’’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘کہا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں بڑے بڑے سرمایہ داروں، بینکاروں اور صنعت کاروں نے کثیر پیسا لگا رکھا ہے۔ نیز اس کاروبار سے امریکی افواج کے جرنیلوں اور دیگر اعلی فوجی افسروں کے مالی و سیاسی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ امریکی معاشرے کی طاقتور ہستیاں کبھی ٹرمپ کو غیر ممالک میں امریکا کی چھیڑی جنگیں ختم نہیں کرنے دیں گی۔ ان شخصیات کی تو کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ تنازعات جنم لیں تاکہ ان کا کاروبار چمک اٹھے۔ جیسے یوکرین اور روس جنگ اور اسرائیل و ایران جنگ شروع ہوئی تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ان جنگوں کی وجہ سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اربوں ڈالر پچھلے دو تین برس میں کما چکیں۔
ایک منفرد صحافی
تالیہ لوین (Talia Lavin)امریکا کی اعتدال پسند یہودی صحافی ہے جس کی تخلیقات نامور امریکی اخبارات میں شائع ہو چکیں۔ اس کی تحقیق کا خاص میدان امریکی انتہا پسندوں اور قدامت پسندوں کی سرگرمیاں ہیں۔ اس سرگرمیوں پر تالیہ دو کتب ’’کلچر وارلارڈز ، وائٹ سپرمیسی کے ڈارک ویب میں میرا سفر‘‘( Culture Warlords: My Journey into the Dark Web of White Supremacy) اور ’’جنگلی ایمان ، امریکا میں کرسچن قدامت پسند کیسے غلبہ پا رہے ہیں‘‘(Wild Faith: How the Christian Right Is Taking Over America.)تصنیف کر چکی۔
یہ کتب افشا کرتی ہیں کہ امریکا میں کروڑوں سفید فام چاہتے ہیں کہ امریکی آئین میں ریاست اور مذہب کو جس طرح الگ کیا گیا ہے، یہ علیحدگی ختم ہو جائے ۔ ان کی خواہش ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں کی کلاسوں میں بائیبل پڑھائی جائے ۔ نیز سیکولر آئین کی وجہ سے غیر عیسائیوں کو جو مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں، وہ بھی ختم کر دی جائیں۔ غرض یہ سفید فام امریکا کو پاپائی ریاست یا تھیوکریسی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جہاں صرف اکثریت کی حکومت قائم ہو جائے ، چاہے اس کے اقدامات اخلاقی بنیاد پہ غلط ہوں یا صحیح! انہی سفید فاموں کو اب ٹرمپ کی صورت ایک رہنما مل گیا ہے جو اپنے قدامت پسند بلکہ کسی حد تک انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے امریکا کو زیادہ سے زیادہ تھیوکریسی بنا سکتے ہیں۔
بعض مطالبے جائز
امریکی قدامت پسندوں کے بعض مطالبات مسلم رہنماؤں کی نظر میں جائز ہیں۔ مثلاً وہ امریکی معاشرے سے ہم جنس پرستی، زنا، شراب نوشی اور بے مہار آزادی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسلامی قوانین بھی ان چیزوں کے خلاف ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ انتہا پسند یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مساجد تعمیر نہ کرنے دی جائیں۔ وہ اعلانیہ اپنی رسوم بھی ادا نہ کریں۔ اس قسم کے مطالبات غیرفطری اور ناجائز ہیں۔ سبھی اسلامی ممالک میں عیسائیوں کے چرچ واقع ہیں جہاں وہ آزادانہ اپنی رسوم انجام دیتے ہیں۔ لیکن امریکی انتہا پسند اپنے دیس میں مسلمانوں کو آزادی دینے کے مخالف ہیں کیونکہ انھیں خطرہ ہے، اسلام کی حقانیت دیکھ کر ان کے بہت سے بھائی بند مسلمان ہو رہے ہیں۔ وہ امریکا میں اسلام کو پھیلتا دیکھ کر گھبرائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وہ اب مزید مسلمانوں کا امریکا میں داخلہ نہیں چاہتے۔
انتہا پسندانہ نظریات کی مقبولیت
ماضی میں غیر سفید فام اقلیت میں تھے اور عوام ان کی طرف کم ہی دھیان دیتے۔ مگر جوں جوں امریکا میں ایشیائی ، افریقی اور جنوبی امریکن باشندوں کی تعداد بڑھی، بہت سے سفید فام قدامت پسندی یا انتہا پسندی کی جانب راغب ہونے لگے۔ قدامت پسند سفید فام گو مسلمانوں اور دیگر مہاجرین سے نفرت نہیں کرتے مگر ان کی بھی تمنا ہے کہ مزید مسلمان و مہاجر امریکا میں آباد نہ ہوں۔ اس سوچ کو معاشی وجہ نے بھی جنم دیا کہ سفید فام سمجھتے ہیں، مہاجرین آ کر ان سے ملازمتیں ، مراعات اور سہولتیں چھین لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اب امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں ڈاکٹر سے وقت لینا بہت بڑا مسئلہ بن چکا۔ وجہ آبادی کا پھیلاؤ ہے۔ اب ہر ڈاکٹر کے پاس اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ وہ نئے مریضوں کو کئی دن بعد کا وقت دیتا ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں میں یہ باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ آپ عام بیماری مثلاً زکام، بخار، کھانسی میں مبتلا ہیں تو ڈاکٹر کے پاس نہ آئیں بلکہ گھر پر ہی ادویہ لے کر علاج کر لیں۔ وہاں ڈاکٹر صرف انہی مریضوں کو دیکھتے ہیں جوموت کے قریب جا پہنچیں۔
کملا ہیرس کیوں ہاریں؟
امریکی سفید فاموں میں پھیلے قدامت پسندانہ نظریات ہی کملا ہیرس کی شکست کا بڑا سبب بن گئے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ڈیموکریٹک پارٹی نے اس بھارتی نژاد رہنما کو صدارتی امیدور بنایا تو پارٹی کے کئی سفید فام ووٹر ناراض ہو گئے۔ انھیں محسوس ہوا کہ اگر کملا صدر بن گئیں تو ان کے دور میں کئی بھارتی اور دیگر ایشیائی اسٹیبلشمنٹ کا حصّہ بن جائیں گے۔ یوں وہ سیاسی و مالی طور پہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور یہی سفید فام نہیں چاہتے۔ وہ اپنے ہی ملک میں غیر سفید فاموں کو رفتہ رفتہ قوت پاتا دیکھ کر پریشان ہیں ۔ انھیں اپنی طاقت ختم ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ اسی لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا ناراض سفید فام ووٹر الیکشن والے دن گھر سے نہیں نکلا اور ٹرمپ کو جتوانے کا سبب بن گیا۔
ٹرمپ کی فتح کا ایک اور بڑا سبب یہ ہے کہ پچھلے ایک عشرے سے امریکا میں قدامت پسند و انتہا پسند سفید فام کافی متحرک ہو چکے۔ ان کی سیکڑوں تنظیمیں بن گئی ہیں جو ایک دوسرے سے سرگرم رابطہ رکھتی ہیں۔ لہذا انھوں نے بھرپور مہم چلائی تاکہ ان کے ہم نوا سبھی سفید فام ووٹر الیکشن والے دن گھر سے نکلیں اور ٹرمپ کو ووٹ دیں۔ یوں ٹرمپ کے تقریباً سبھی حامی گھر سے نکلے اور ان کو ووٹ ڈالا۔ اسی لیے انھیں سات کروڑ چونسٹھ لاکھ ووٹ پڑے جبکہ کملا سات کروڑ سینتیس لاکھ ووٹ لے سکیں۔ یہ مگر یاد رہے کہ تقریباً دس کروڑ امریکی ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ گویا ٹرمپ کو سبھی امریکی باشندوں کا نمائندہ صدر نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت ان کے انتہا پسندانہ اقدامات کی مخالفت کرتی ہو۔
انتخابی اعداد وشمار
بہرحال تقریباً آٹھ کروڑ امریکی باشندوں نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔ انھوں نے پچھلے الیکشن میں سات کروڑ بیالیس لاکھ اور اس سے پچھلے الیکشن میں چھ کروڑ تیس لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ انتخابی اعداد وشمار سے عیاں ہے کہ امریکا میں ٹرمپ کے نظریات اور شخصیت کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سفید فام اکثریت کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے وعدے کرتے ہیں، گو حکومت میں پہنچ کر وہ ڈھیلے پڑ سکتے ہیں کیونکہ ضروری نہیں، اسٹیبلشمنٹ ان کے سبھی نظریوں سے اتفاق کرے۔ پچھلے دور میں اسی لیے ان کا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ رہا۔ اور یہی وجہ ہے، موصوف نے صدر بننے سے قبل ہی ایک کمیٹی بنا دی تاکہ بیوروکریسی کی طاقتیں کم کی جا سکیں۔ اس کا لیڈر دنیا کا امیر ترین انسان، ایلن مسک ہے جسے ٹرمپ ہی کی طرح کچھ ’’ کھسکا ہوا رہنما ‘‘سمجھا جاتا ہے۔
ٹرمپ انتہا پسندوں کے محبوب کیسے بنے؟
یہ یاد رہے ، امریکا میں لاکھوں سفید فام نزول مسیح ؑ کے منتظر ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ جب یروشلم میں ہیکل سیلمانی تعمیر ہو جائے گا، تب مسیح ؑ نازل ہوں گے۔ اسی لیے یہ امریکی سفید فام یہود کے حامی اور مسلمانوں کے مخالف ہیں۔ وہ مسجد اقصی اور گنبد صخرہ شہید کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کی جگہ ہیکل سلیمانی بنایا جاسکے۔ 2016 ء میں ٹرمپ کے حامیوں نے ان سفید فاموں میں اس بات کا چرچا کیا کہ ٹرمپ موجودہ دور کے سائرس اعظم ہیں، وہ ایرانی بادشاہ جس نے بابل میں مقید یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی تھی۔ بائیبل کی کتاب یسعیاہ باب 45میں سائرس اعظم کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ چونکہ ٹرمپ کو امریکا کا 45 واں صدر بننا تھا، لہذا انھیں مثل سائرس قرار دے دیا گیا جو یہود کو فتح دلوا کر مسیح ؑ کی آمد یقینی بنائیں گے۔
صدر بن کر ٹرمپ نے ان امریکی سفید فاموں کی خوشنودی کے لیے بعض ٹھوس قدم بھی اٹھائے۔ مثلاً یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کی بسائی غیر قانونی بستیاں قانونی قرار دے ڈالیں۔ سپریم کورٹ میں قدامت پسند جج بھرتی کیے تاکہ وہ لبرل طبقے کے اقدمات روک سکیں۔ انہی کاموں کی وجہ سے انتہا پسند سفید فاموں میں ٹرمپ کی حمایت بڑھ گئی۔
پروجیکٹ 25 کیا بلا ہے؟
امریکا میں فی الوقت ایک پُراسرار منصوبے’’پروجیکٹ 25 ‘‘کا بڑا چرچا ہے۔ یہ منصوبہ امریکا کے ایک بڑے غیر سرکاری اور قدامت پسند ادارے، ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ماہرین نے تیار کیا ہے۔ یہ منصوبہ ایسی سفارشات پر مبنی ہے جنھیں صدر امریکا کو نافذ کر دینا چاہیے تاکہ وفاقی حکومت کے ڈھانچے میں دوررس تبدیلیاں لائی جا سکیں۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کئی بار کہا کہ وہ اس منصوبے سے متعلق نہیں تاہم ان کے مخالفین دعوی کرتے ہیں کہ حکومت میں آ کر ٹرمپ پروجیکٹ 25کی سفارشات پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔ اس منصوبے کی اہم سفارشات یہ ہیں:
٭…بیوروکریسی مکمل طور پہ صدر کے قبضے میں ہونی چاہیے۔ اس لیے صدر کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ افسر شاہی میں سیاسی تقرریاں کر سکے۔ مقصد یہ ہے کہ اسے وفادار سرکاری ملازم مل جائیں۔ نیز وہ افسر شاہی کا کنٹرول حاصل کر لے۔ تاہم مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح حکومت کے ایک اہم بازو، بیوروکریسی کی خودمختاری اور آزادی ختم ہو جائے گی اور وہ صدر کی ملازم بن بیٹھے گی۔
٭…حکومت اور معاشرے، دونوں میں عیسائیت کے قوانین متعارف کرائے جائیں ۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح امریکا ایک تھیوکریسی میں بدل جائے گا اور وہاں غیر عیسائی کئی حقوق سے محروم ہو سکتے ہیں۔ جبکہ وکلا تنظیموں کا کہنا ہے کہ تھیوکریسی بننے سے قانون پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا۔ نیز شہری آزادیوں کو نقصان پہنچے گا۔
٭…وفاقی سطح پر محکمہ تعلیم اور ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی ختم کر دئیے جائیں۔ ان محکموں کے کام ریاستوں کے سپرد کر دئیے جائیں۔ جبکہ محکمہ انصاف، ایف بی آئی، محکمہ کامرس اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن صدر کے ماتحت آ جائیں۔
پروجیکٹ 25کے مندرجات سے عیاں ہے کہ صدر بن کر ٹرمپ نے اس پہ عمل درآمد کیا تو وہ امریکا کی وفاقی حکومت میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت بن جائیں گے۔ یوں امریکا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا جس کی وجہ سے صدر پر چیک اینڈ بیلنس رہتا ہے۔ یہ توازن ختم ہونے سے امریکی صدر ایک ڈکٹیٹر یا آمر بن بیٹھے گا۔ امریکی حکمران طبقے نے دنیا بھر میں دنگا فساد مچا رکھا ہے۔ اگر وہ آمر بن گیا تو اس کی جارحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ تب دنیا تیسری جنگ عظیم کے الاؤ میں بھی بھسم ہو سکتی ہے۔
مسلمانان فلسطین کے لیے بڑی خبر
ٹرمپ نے اسرائیل میں مائک ہکابی نامی سفارت کار کو امریکی سفیر مقرر کیا ہے۔ یہ امریکی سفارت کار کھلے عام فلسطینی مسلمانوں کو دشمن اور اسرائیلی حکومت کا دوست ہے۔ یہ ماضی میں کئی بار کہہ چکا کہ فلسطینی قوم کا کوئی وجود نہیں۔ اس قوم کو اسرائیلی قوم سے مقابلہ کرانے کے لیے تخلیق کیا گیا۔ وہ مغربی کنارے اور غزہ کو بھی فلسطین کے علاقے قرار نہیں دیتا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ علاقے یہود کی قدیم سلطنتوں ، سامریہ اور یہودا کے حصے ہیں۔ لہذا ان کو جدید یہودی ریاست، اسرائیل کا حصہ ہونا چاہیے۔
یہ خبریں ہیں کہ غزہ کا علاقہ اسرائیل ہتھیانا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کی نسل کشی انجام دی۔ امت مسلمہ خاموشی سے یہ ظلم ہوتا دیکھتی رہی کہ زبانی کلامی تو بلند وبالا دعوی کیے گئے مگر انھیں بچانے کے لیے ایک ٹھوس عمل بھی انجام نہیں پایا۔ اس صورت حال میں صدر ٹرمپ کے دور میں مسلمانان فلسطین کی حالت زار بد سے بدتر ہو سکتی ہے۔ اب صرف ان کے بھائی بند عربوں کے حکمران ہی انھیں اسرائیلی حکمران طبقے کے ہاتھوں مکمل نسلی صفائی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ
مجوزہ امریکی صدر ٹرمپ نے اب تک جو اہم تقرریاں کی ہیں، وہ مسلمانوں اور پاکستان کے لیے خوشگوار نہیں بلکہ وہ مستقبل میں مضر ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹرمپ مارکو روبیو کو نیا وزیرخارجہ بنوانا چاہتا ہے۔ یہ امریکی چاہتا ہے کہ امریکا بھارت کو عسکری و معاشی تعلقات میں وہی اعلی حیثیت دے جو فی الوقت اسرائیل اور جاپان کو حاصل ہے۔ اس نے ماہ جولائی میں امریکی سینٹ میں ’’یو ایس انڈیا ڈیفنس کوآپریشن ایکٹ ‘‘پیش کیا تھا تاکہ بھارت کی سلامتی کو کبھی کہیں سے بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو امریکا کو اس کی بھرپور عسکری امداد کرنی چاہیے۔ گویا یہ قانون منظور ہونے کے بعد دنیا کی اکلوتی سپرپاور بھارت کی بھی عسکری محافظ بن جائے گی، جیسے وہ اسرائیل کی بنی ہوئی ہے۔اس قانون یا بل میں ایک شق یہ بھی ہے کہ اگر ثابت ہو جائے کہ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کروا رہا ہے تو اس کی سیکورٹی امداد روک دی جائے۔
اسی طرح ٹرمپ نے امریکا میں اندرون ملک و بیرون ممالک مصروف کار امریکی اینٹلی جنس ایجنسیوں کا سربراہ ایک ہندو خاتون ، تلسی گیبرڈ کو بنایا ہے۔ یہ امریکی خاتون ہے مگر اس نے ہندومت اختیار کر لیا۔ اس لیے بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ یہ ماضی میں مشرقی پاکستان میں افواج پاک کے کردار کو لے کر ان پہ تنقید بھی کر چکی۔ یہ عیاں ہے کہ وہ اینٹلی جنس معاملات میں بھارتی نقطہ نظر کو ترجیح دے گی اور پاکستان کے مفادات پس پشت ڈال دے گی۔ سچ یہ ہے کہ لگتا ہے، جو بائیڈن دور حکومت میں امریکا نے پاکستان کی نمایاں مدد نہیں کی تو اس کے خلاف بھی نہیں گیا۔ مگر ٹرمپ دور میں پاکستان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان کو محتاط ، مدبر اور باخبر رہنا ہو گا۔