57 اسلامی ممالک اور لہو لہو فلسطین کی فریاد

دنیا کے ایک ارب نوے کروڑ مسلمان آخر فلسطینیوں کی کھل کر مدد کیوں نہیں کر رہے؟

دنیا کے ایک ارب نوے کروڑ مسلمان آخر فلسطینیوں کی کھل کر مدد کیوں نہیں کر رہے؟ ۔ فوٹو فائل

21 اگست 1969 ء کو جب فلسطینی مسلمان روتے چیختے چلاتے مسجد اقصٰی کی طرف آگ بجھانے دوڑے تو اس خبر سے دنیا بھر کے مسلمان رنجیدہ ہو گئے تھے کہ مسجد اقصٰی، خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔

خانہ کعبہ کی یہ تعمیر جو ہمیں نظر آتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل ذبیح اللہؑ نے کی تھی ۔ پھر حضرت ابراہیمؑ فلسطین کی جانب چلے گئے۔

 اُن کو حضرت بی بی سارہ کے بطن سے دوسرا بیٹا حضرت اسحاق علیہ السلامؑ اللہ نے عطا کیا اِن کی نسل سے بہت سے انبیا پیدا ہوئے جن میں حضرت یعقوب علیہ السلام ، یو سف علیہ السلام ،حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہاروؑن ، حضرت یونسؑ ،حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت زکریاؑ ، حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ جو بغیر باپ کے فلسطین ہی میں پیدا ہوئے ، یہاں بنیادی طور پر تو فلسطین کا ذکر زیادہ ہے مگر شام، عراق اور مصر وغیرہ بھی اس علاقے ہی میں شمار ہوتے رہے۔

فلسطین آج کے مقبوضہ علاقے یوروشلم میں مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس مقام مسجد اقصیٰ ہے، روایت کے مطابق خانہ کعبہ کی طرح یہ مسجد بہت پہلے موجود تھی ، پھر یہودیوں پر انبیاء کرام کا سلسلہ خصوصاً حضرت ابراہیمؑ ، حضرت اسحاقؑ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتبار سے اہم ہے ، واضح رہے کہ حضرت داؤدؑ پر زبور نازل ہوئی ۔ حضرت موسیٰؑ پر تورات نازل ہوئی ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے معجزہ دکھایا اور بی بی مریم کے بطن سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا جن پر انجیل مقدس نازل ہوئی ، یہودی قوم جو ہمیشہ ہی سے گمراہ ہوتی رہی اور انبیا پر بھی ظلم کئے، تو اِن لو گوں نے حضرت عیسیٰؑ کو نہ صرف اللہ تعالیٰ کا نبی ماننے سے انکار کر دیا ، بلکہ اُن کے خلاف رومی حکمرانوں کے ساتھ مل گئے ،آخر اُن کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔ مسلمان یہودیوں کے برعکس حضرت عیسیٰؑ کو نہ صرف اللہ کا نبی مانتے ہیں بلکہ عیسائیوں کی طرح مسلمان بھی حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیںکہ قیامت سے ذرا پہلے حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی علاقے میں آسمان سے اتریںگے ، یوں مسجد اقصٰی بیت المقدس کا علاقہ یہودیوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے لیے بھی مذہبی اعتبار سے مقدس ہے ، مذہبی اور الہامی کتابوں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم اور عنایات فرمائیں مگر یہ قوم اللہ تعالیٰ کے حکامات کی نافرمانی کرتی رہی ۔

اللہ تعالیٰ اِن پر عذاب بھی نازل کرتا رہا اور معاف بھی فرماتا رہا ۔ 587 قبل میسح میں بابل کا بادشاہ بخت نصر فلسطین پر حملہ آور ہوا، اُس نے ہیکل ِسلیمانی کو تباہ و برباد کر دیا، مقدس تابوت سکینہ غائب ہو گیا ، ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا اور بڑی تعداد میں یہودیوں کو قید کر کے بابل لے آیا جہاں اُن کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر رہی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہودی قوم پر رحم فرمایا اور معافی قبول کی ایرانی شہنشاہ سائر س اعظم نے تقریباً 40 سال بعد عراق، شام، مصر اور فلسطین کو فتح کیا ، بابل سے تمام یہو دیوں کو واپس لا کر فلسطین میں دوبارہ آباد کیا اُنہوں نے پھر اس مقام پر سیکنڈ ٹیمپل تعمیر کیا کچھ عرصے بعد یہودی پھر اللہ کے نافرمان ہو گئے ، پھر تقریباً دوہزار سال پہلے پہلی رومی یہودی جنگ میں یہ سیکنڈ ٹیمپل تباہ و برباد ہو گیا۔

 اس کا نشان بھی مٹ گیا پھر رومن کا عظیم بادشاہ کانسٹائن دی گریٹ ایک بڑی فتح کے بعد عیسائی ہو گیا تو رومن عیسائی حکمران یہودیوں کے دشمن رہے، اسلام کی آمد پر مسلمان 624 ء تک نہ صرف بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تھے تو اسی مسجدا قصٰی میں بنی کریمؐ نے تمام انبیا کی امامت فرمائی تھی اور یہاں سے معراج پر تشریف لے گئے تھے، یوں بیت مقدس مسجد اقصٰی مسلمانوں کے لیے بھی مقدس ہو گیا، 15 ہجری 637 ء میں بیت المقدس حضرت عمرؓ کے دور میں فتح ہوا ، عیسائیوں نے آپؓ کو مدینہ سے بلوا کر شہر کا قبضہ دیا تو عیسائیوں نے یہ معاہدے میں شامل کروایا کہ شہر میں یہودی آباد نہیں ہونگے۔

 عیسائیوں نے نفرت کی وجہ سے قبتہ الصخرۃ (Dome of Rock ) پر کچرے کا ڈھیر بنا دیا تھا، اس کو حضر ت عمرؓ نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا کہا جاتا ہے یہی وہ مقام تھا جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے ۔ مسلمانوں کی فتح کی وجہ سے صدیوں بعد یہودیوں کو زیارت کی اجازت دی پھر صلیبی جنگوں میں کچھ عرصہ یورپی عیسائی فلسطین بیت المقدس پر قابض ہو گئے ۔ 1187 ء میں فلسطین کو سلطان صلاح الدین نے فتح کر لیا، اس کے بعد یہ مسلمانوں کی خلافت کا حصہ رہا، آخری خلا فت ترکی کی سلطنت عثمانیہ کی تھی، 1918 ء میں جنگ عظیم اوّل میں ترکی کو شکست ہوئی تو فلسطین بھی ہاتھوں سے نکل گیا، اس سے ایک سال پہلے یعنی 1917 ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور نے جنگ کے دوران یہودیوں کی جانب سے مالی امداد کرنے کے بدلے میں اعلان بالفورکیا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل کے قیام میں معاونت کا اعلان کیا۔

اس معاہدے کو اعلان با لفور Balfour Declaration کہا جاتا ہے ، واضح رہے1882 ء میں فلسطین میں یہودی آبادی کا تناسب صرف 8 فیصد تھا جو 1922 ء میں17 فیصد ہو گیا، 1946 ء میں یہاں کل آبادی 1810037 تھی جس میں مسلمان اور غیر یہود ی آبادی 1267037 تھے اور یہودی 543000 تھے، یعنی یہودیوں کا تناسب 30 فیصد تھا، 1948 ء میں جب اقوام متحدہ نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا ، پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جو 20770 مربع کلومیٹر علاقہ اسرائیل کا تھا اُس میں یہودی آبادی کا تناسب 82.1 فیصد ہو گیا، اس علاقے سے سات لاکھ فسلطینی مسلمانوں کوجبر اً نکال دیا گیا ۔

1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے اردن کے علاقے یوروشلم بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہودی یہ کہتے ہیں کہ مسجد اقصٰی کے ایک حصے میں ہیکل ِ سلیمانی ہے جس کو وہ تعمیر کریں گے اور یہیں تابوت سیکنہ کہیں دفن ہے، اب وہ حیلے بہانے کرتے جنگیں لڑائیاں ، فسادات کرتے ہیں۔ 21 اگست 1969 ء کو اسرائیلی حکومت نے ایک سازش کے تحت مسجد اقصٰی میں آگ لگا دی ،آگ ایک آسٹریلیا نژاد ایک یہودی ڈینس مائیکل روہن نے لگائی تھی جسے ذہنی مریض قرار دیا گیا، اس موقع پر مفتی اعظم نے دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں سے متحدہ ہونے کی اپیل کی جس کے نتیجے میں رباط میں پہلی مسلم سربراہوں کی کا نفرنس ہوئی ۔ OIC ( اسلامی ملکوں کی تنظیم) قائم ہوئی ۔

مسجد اقصٰی میں آتشزدگی کے 55 سالہ واقعہ پر ہر سال مسلمان دنیا میں احتجاج کرتے ہیں اور 21 اگست کو یوم الاقصٰی مناتے ہیں ، افسوس یہ ہے کہ ایک جانب تو اقوام متحدہ سیکو رٹی کونسل اپنی قرار دادوں پر عملدر آمد کرانے سے قاصر رہی ہے، تو دوسری جانب امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، برطانیہ ، بھارت اور یورپی یونین سب ہی اسرائیلی ظلم و ستم پر نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ آج بھی دنیا بھر کے احتجاج کے باوجود ، اسرائیل کو ہر قسم کی مالی اور فوجی امداد فراہم کرتے ہیں ۔آج غزہ میں اسرائیل 50 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے جن میں سے70 فیصد بچے اور خواتین ہیں تو بھی امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کے دفاع اور حفاظت کے لیے میدان میں ہیں ، پھر یہ بھی المیہ ہے کہ دنیا بھر کے تقریباً 54 اسلامی ممالک اب بھی بھر پور انداز میں اپنے فلسطینیوں مسلمان بھائیوں کے لیے 1974 ء کی طرح اُ ن کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں۔

 واضح رہے کہ 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد پاکستان کے شہر لاہور میں OIC کے تحت اسلامی سر براہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور تیل کو عالمی قوتوں کے مقابلے میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ پاکستان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا آج بھی مسلمانوں کو اسلامی ممالک کو متحد ہو کر فلسطینیوں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ قبلہ اوّل کا پورا تحفظ ہو۔ 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد دنیا کا دو طاقتی نظام عدم توازن کا شکار ہو گیا ۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ ، کینیڈا مغربی یورپ تھے ، اہل مغرب کو تیل کی بندش کی وجہ سے انڈسٹری اور صنعت کو نقصان پہنچا ، جنگ 1973 ء کے بعد سابق سوویت یونین وارسا بلاک امریکہ اور نیٹو بلاک کی الگ الگ ، اسٹرٹیجی ، حکمت عملی اور منصوبہ بندی اپنائی گئی ، اگر سابق سوویت یونین جس کی اپنی آبادی میں بشمول سنٹرل ایشیا تقریباً 18% سے زیادہ مسلمان آبادی تھی ، سوویت یونین لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس اور نئے مستحکم اسلامی بلاک سے خائف ہوئی کیونکہ اس میں مشرق وسطیٰ میں شام ، عراق ، مصر ، لیبا ، سوڈان اور یمن وغیرہ سوویت یونین کے زیرِ اثر تھے۔

 لاہور کی اسلامی سر براہ کانفرنس میں شریک ہوئے تھے ۔ جبکہ عرب امارات ، سعودی عرب ، بحرین، سلطنت عمان اور ایران میں اُس وقت امریکہ بہت مضبوط پوزیشن میں تھا، ایران کے علاوہ سعودی عرب اور عرب امارت بھی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی تھی کہ انہوں نے اسلامی بلاک تشکیل دے دیا تھا ۔ سوویت یونین کو یہ بھی تشویش تھی کہ سنٹرل ایشیا کے اسلامی ممالک جو اُس وقت سوویت یونین کا حصہ تھے ، یہ ماضی قریب میں آزاد اسلامی ملک رہ چکے تھے اس لیے سابق سوویت یو نین نے لاہور کی اسلامی کانفرنس کو اپنے اشترکی نظریاتی وجود کے لیے خطرہ محسوس کیا اور خصوصاً مصر کی حمایت اور امدا د سے ہا تھ کھنچ لیا اور پھر صدر انوار السادت کو امریکہ کی جانب جھکنا پڑا اور اس پر اُن کو لیبیا کی مدد سے قتل تو کر دیا گیا مگر مصر میں سابق سوویت یونین کی سیاسی گرفت بہت کمزور پڑ گئی ، دوسری جانب نیٹو ، امریکہ اور اس کے گروپ کے دیگر ممالک نے اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے اِن اسلامی ملکوں میں جہاں سی آئی اے کا مضبوط نیٹ ورک تھا، اُن ملکوں کے وہ سربراہان جو اسلامی کانفرنس لاہورمیں اہم کردار تھے۔

وہ ستر کی دہائی کے وسط ہی میں مٹا دئیے گئے ، 1990 ء میں پاکستان کی مدد سے افغانستان میں سابق سوویت یونین کی شکست کے بعد نہ صرف سابق سوویت یونین بکھر گئی بلکہ دنیا سے اشتراکیت کا خاتمہ ہو گیا مگر چین نے سیاسی عالمی خلا کو اقتصادی معاشی اصلاحات کے ذریعے نہ صرف پُر کیا بلکہ نیو ورلڈ آرڈر ڈبلیو ٹی اوکی عالمی اقتصادی تجارتی تبدیلیوں کے درمیان اپنا راستہ بنایا، مگر دوسری جانب ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بدقسمتی سے عراق کے آمر صدر صدام امریکہ کی سیاسی چال کا نشانے بنے ، پہلے آٹھ سال ہمسایہ ملک ایران سے جنگ کی جس کی وجہ سے نہ صرف دونوں ممالک کمزور ہوئے بلکہ ایران سے جنگ بندی کے بعد کویت کی جانب سے قرضے کی واپسی کے تقاضے پر صدام نے کویت پر حملہ کر کے خود کو تباہ کر دیا اور ساتھی شام ، یمن ، لیبیا اور سوڈان میں بھی تباہی پھیلی اور لبنان اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت بڑھتی گئی اور یہاں عراق ، شام جیسے ملک چونکہ تباہی کا شکار ہو چکے تھے۔

اس لیے اب اسرائیل کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ پانچ سال قبل جب سابق امریکہ صدر ٹرمپ نے سیاسی طور پر مذاہب کو اسرائیلی امریکی مفاد کے تحت استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب ، عرب امارات ،کویت ، سلطنت عمان ، بحرین اورخطے کے دیگر ملکوں اور اسرائیل کے درمیان ابراہم اکارڈ یعنی ابراہیمی معاہدہ کروایا کہ عرب اور اسرائیل دونوں حضرت ابراہیمؑ کی نسل اور ان کے ماننے والے ہیں تو اس کے بعد خطے میں رہنے والے ساٹھ لاکھ فلسطینی مہاجرین سے اُن کا جینے کا اور آزادی کا بنیادی حق بھی چھینا جانے لگے تو ایران نے یہاں غزہ اور لبنان میں فلسطینیوں کی مدد کی اور پھر 7 اکتوبر 2023 ء کو حماس کے سینکڑوں فلسطینی مجاہدین اسرائیل میں داخل ہوئے اور 1200 افراد جن میں بیشتر یہودی فوجی تھے اِن کو ہلاک کیا اور240 کو یرغمال بنا لیا، اُس کے بعد اسرائیل نے غزہ اور لبنان میں قتل عام شروع کر دیا۔

 اس سے ہٹ کر اسرائیل ایران کے خلاف بھی جارحیت کر چکا ہے اور اب ایران نے اُس کاجواب بھی دیا ہے اور اسرائیل یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اس کا خطرناک جواب دے گا جس سے خطے میں ایٹمی جنگ کا بھی اندیشہ ہے ، یوں اگرچہ اس وقت مجموعی طور پر اسرائیل 55 ہزار فسلطینیوں کو شہید کر چکا ہے جن میں 70% سے زیادہ بچے اور عورتیں شامل ہیں مگر ساتھ قرآن و احادیث کی پیش گوئیاں بھی ہمیں واضح طور پر سامنے آتی دکھائی دیتی ہیں۔

 یوں ہم جذبہ ایمانی کی بنیاد پر دیکھتے ہیں کہ اگرچہ مسلم ممالک کے حکمران جرات کا مظاہرہ نہیں کر رہے مگر امت محمد ﷺ کے ماننے والے برقرار ہیں ، اب ایک برس ہونے کو آیا ، مظلوم فسلطینی نہایت بہادری سے حق کی خاطر مصروف جہاد ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اللہ کی جانب سے نصرت کا وقت قریب تر ہے ، ہمیں دعاؤں کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کی ہر طرح سے مددکر نی ہے ۔

Load Next Story