خواتین کیخلاف جرائم ریڈ لائن ...روک تھام کیلئے انقلابی اقدامات کرنا ہونگے!!
25 نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
حنا پرویز بٹ
(چیئرپرسن، پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی)
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ خواتین کے خلاف جرائم ان کی ریڈ لائن ہے، وہ ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں گی۔ خواتین پر گھریلو تشدد، ہراسمنٹ، زیادتی سمیت دیگر جرائم کے خلاف سخت ایکشن لینا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اس حوالے سے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔
بطور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے دور میں 2016ء میں پہلی مرتبہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ، 2017ء میں ویمن پروٹیشن اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور پنجاب کا پہلا وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر، ملتان میں قائم کیا گیا جس میں ایک ہی چھت تلے خواتین کو شکایت، تفتیش، میڈیکل، لیگل و دیگر سہولیات میسر ہیں۔ حکومت تبدیل ہوئی تو یہ منصوبہ روک دیا گیا مگر اب اسے دوبارہ فعال بنایا جا رہا ہے۔
آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں پہلے وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر کا افتتاح کیا جا رہا ہے، اس کے بعد راولپنڈی اور فیصل آباد میں بھی جلد یہ سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ بطور چیئرپرسن پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی میرے لیے خواتین کے خلاف جرائم ریڈ فلیگ ہے۔ افسوس ہے کہ چھوٹی بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایسے درندوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی یقینی بنا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے تیزاب گردی کے واقعات آج بھی رونما ہو رہے ہیں۔ میں نے پنجاب اسمبلی میں ایسڈ کنٹرول ایکٹ کا بل جمع کروا دیا ہے، امید ہے جلد اس پر پیشرفت ہوگی۔ زیادتی کے کیسز میں ریاست خود مدعی بنتی ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جا رہی، خواتین کے خلاف جرائم کرنے والوں کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کی جاتی ہے ۔
خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھا م کسی ایک ادارے کا کام نہیں لہٰذا میں تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ ہمارا محکمہ فالو اپ کرتا ہے، ہم مثالی کووارڈی نیشن سے خواتین کے مسائل حل کرنے میں ہر ممکن کام کر رہے ہیں۔ میں خود ہر متاثرہ لڑکی/ خاتون سے ملاقات کرتی ہوں، اس سے نہ صرف اسے حوصلہ ملتا ہے بلکہ مجھے اصل حقائق کا علم بھی ہوتا ہے۔ میرا دفتر پولیس کی کھلی کچہری کی طرح ہے جہاں کوئی بھی، کسی بھی وقت آسکتا ہے ۔ میرے پاس حال ہی میں ایک لڑکا آیا جس کی بہن کو جلا دیا گیا تھا، وہ لڑکی جناح ہسپتال لاہور میں زیر علاج تھی، میں ہسپتال گئی، اس کی تیمارداری کی ،24 گھنٹے کے اندر اندر 5ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ ثانیہ زہرہ کیس میں لڑکی کو بے دردی سے قتل کرکے خود کشی کا رنگ دے دیا گیا۔ یہ معاملہ سنگین تھا جس میں دباؤ بھی تھا۔ میں نے وزیراعلیٰ مریم نواز سے بات کی، انہوں نے واضح ہدایت کی وہ خواتین کے معاملے میں بالکل واضح ہیں، کسی کو ریڈ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کی ہدایت پر ہم نے اس کیس میں دن رات ایک کیا۔ اس لڑکی کی قبر کشائی کروائی ، پوسٹ مارٹم اور فارنزنک کیا گیا اور یہ سامنے آیا کہ اس لڑکی کا قتل ہو ہے جس میں اس کا خاوند اور ساس ملوث ہیں۔ خواتین میں ایک بڑا مسئلہ بے یقینی کا ہے کہ اگر وہ رپورٹ کریں گی تو انہیں تحفظ اور انصاف ملے گا یا نہیں۔ ہم نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ شکایت سے لے کر انصاف کے حصول تک اور اس کے بعد بھی، ہم متاثرہ خاتون کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا ادارہ اس حوالے سے مکمل رپورٹ رکھتا ہے، ضرورت پڑنے پر متاثرہ خاتون سے بات چیت بھی کی جاتی ہے۔ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ویمن سیفٹی ایپ، پولیس پروٹیکشن ایپ، ورچوئل پولیس سٹیشن و دیگر اقدامات اٹھائے گئے ہیں، سیف سٹیز اتھارٹی کے ذریعے معاملات میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ خواتین ہمارے ادارے کی ہیلپ لائن 1737پر بھی شکایت درج کروا سکتی ہیں، ان کی مکمل معاونت کی جائے گی۔ ہم جینڈر بیسڈ وائلنس کا ٹریکنگ سسٹم بھی لا رہے ہیں، اس سے بھی بہتری آئے گی۔ ہم نے پراسیکیوشن جنرل اور محتسب کے ادارے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے ہیں، ہم خواتین کو ہر ممکن تحفظ اور انصاف فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ متاثرہ خواتین کی بحالی انتہائی اہم ہے۔
اس کے لیے دارالامان موجود ہیں، ہم ان کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ پہلے گھریلو تشدد کو جرم نہیں سمجھا جاتا تھا، اب اس حوالے سے باقاعدہ قانون موجود ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے، جرم کرنے والوں کو سزا بھی دی جا رہی ہے۔ ہم خواتین کے حقوق و تحفظ اور ان کے بارے میں موجود قوانین اور سہولیات کی آگاہی کیلئے بھی کام کر رہے ہیں، اس حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال پر آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
سلوت سمرانہ
(انچارج ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، لاہور)
ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن خواتین کی سہولت کیلئے قائم کیا گیا تاکہ انہیں جرائم کے خلاف رپورٹ کرنے میں آسانی ہو اور کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اب خواتین کو معلوم ہوچکا ہے کہ گھریلو تشدد بھی جرم ہے لہٰذا وہ اس کے خلاف شکایات بھی کرتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے رواں برس 22 اپریل کو ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کا افتتاح کیا جس کے بعد سے اب تک خواتین کو ہر ممکن مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ گھریلو تشدد، تیزاب گردی، اغواء، زیادتی، زبردستی کی شادی، تعلیم سے محروم کرنے سمیت مختلف جرائم کے خلاف خواتین کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
خواتین کے تحفظ کیلئے ویمن سیفٹی ایپ اور پنجاب پولیس ایپ بھی موجود ہے جس میں خواتین فوری شکایت درج کروا سکتی ہیں۔ اس ایپ کے ذریعے ان کی لوکیشن ٹریس ہو جاتی ہے، فوری طور پر متعلقہ پولیس کو الرٹ جاری ہوتا ہے اور وہ حرکت میں آتی ہے۔ سیف سٹیز کے کیمروں کی مدد سے بھی مجرم کو ٹریس کیا جاتا ہے اورزیادہ تر کیسز میں فوری گرفتاری ہوجاتی ہے۔ خواتین ملزم ، اس کی گاڑی یا بائیک کی تصویر بھی فوری پولیس کے ساتھ شیئر کر دیتی ہیں،ا سی ایپ میں اپ لوڈ ہو جاتی ہے، جس سے ٹریس کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے۔ ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن سے روایتی تھانہ کلچر ختم ہوگیا۔ خواتین ہمارے ساتھ با آسانی اپنے مسائل شیئر کر لیتی ہیں، ان سے بذریعہ کال اور ویڈیو لنک ، بات چیت اور تفتیش کا عمل ہوتا ہے۔
6 ماہ کے دوران اب ہر پولیس سٹیشن کو ہمارے کام کا اندازہ ہوگیا ہے، ہم ان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ جہاں کہیں ضرورت ہو تو ویمن پولیس ساتھ بھیجی جاتی ہے تاکہ خواتین کو تحفظ کا احساس ہو۔ گھریلو تشدد کی شکایت پر بھی فوری کارروائی کی جاتی ہے، ہمارا مقصد خواتین کو ہر طرح کے تشدد سے محفوظ رکھنا ہے۔ ہم صرف کارروائی ہی نہیں کرتے بلکہ معاشرتی اقدار کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ گھریلو تشدد کی صورت میں اگر خاتون اپنے گھر میں رہنا چاہتی ہے تو ہم گھر والوں کو ساتھ بٹھا کر بات چیت سے مسئلہ حل کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر خاتون گھر نہ رہنا چاہے تو اسے دارالامان بھیجا جاتا ہے۔ دارالامان کا پورا ریکارڈ ہمارے پاس ہوتا ہے اور ہم فالو اپ رکھتے ہیں اور خاتون سے بات چیت بھی کی جاتی ہے۔ ورچوئل ویمن پولیس سٹیشنز سے خواتین کے تھانوں کے چکر ختم ہوگئے ہیں، ہم شکایت کے اندراج سے لے کر عدالت تک، متاثرہ خاتون کے ساتھ ہوتے ہیں، ہر مرحلے میں ہر ممکن تعاون کرتے ہیں۔
خواتین سے زیادتی کے کیسز افسوسناک ہیں، اسی طرح غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے ، یہ تمام جرائم کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ تشدد ہو یا قتل، شکایت کی صورت میں وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر فوری ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اب تک ہمیں خواتین پر جرائم کے حوالے سے 2 لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں گھریلو تشدد کی شرح زیادہ ہے۔ خواتین کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے، ہم نے 20 ہزار سے زائد ایف آئی آرز درج کی ہیں، راجن پور، مظفرگڑھ سمیت دور دراز علاقوں سے شکایات موصول ہورہی ہیں۔
ہمارے لیے یہ باعث اطمینان ہے کہ خواتین ہم پر اعتماد کر رہی ہیں، اب عورت، عورت کے تحفظ کیلئے موجود ہے۔ خواتین سے ویڈیو کالز کے ذریعے جو تفتیش کی جاتی ہے یا جو بھی ثبوت وہ شیئر کرتی ہیں، انہیں خفیہ رکھا جاتا ہے، کسی مرد افسر سے شیئر نہیں کیا جاتا۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی آگاہی کیلئے بھی کام کر رہی ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا سے عوام خصوصاََ خواتین کو آگاہی دی جا رہی ہے۔ اب شادی شدہ خاتون میں اعتماد جبکہ خاوند میں ڈر پیدا ہوا ہے کہ تشدد کرنے پر سزا ملے گی اور کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
آمنہ افضل
(نمائندہ سول سوسائٹی)
25نومبر کو نہ صرف دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے بلکہ اسی حوالے سے 16 روزہ عالمی آگاہی مہم کا آغاز بھی کیا جاتا ہے۔ 25نومبر 1960ء کو ڈومینین رپبلک میں آمریت کے خلاف آواز اٹھانے والی تین بہنوں کو جرنیل نے قتل کروا دیا۔ اس ظالمانہ قتل کے خلاف مہم بنی، سول سوسائٹی بھی اس میں شامل ہوئی جس کے بعد اس وقت سے آج تک، خواتین پر تشدد کے خاتمے کی مہم جاری ہے۔ 16 روزہ مہم کے دوران نہ صرف سال بھر میں کی حکومت اور اداروں کی کارکردگی اور اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کیا جاتا ہے اور سول سوسائٹی کی جانب سے نئے مطالبات بھی رکھے جاتے ہیں۔ دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کے باعث نئے چیلنجز سامنے آرہے ہیں۔
میڈیا، ریاست اور حکومت نے جب بھی ہمارا ساتھ دیا، خواتین کی حالت بہتر ہوئی اور اچھے اقدامات اٹھائے گئے ۔ نئے دور کے ساتھ نئے جرائم جنم لے رہے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے بڑے اقدامات کرنا ہونگے۔ گلوبل جینڈ گیپ انڈیکس رپورٹ 2023ء کے مطابق خواتین معاشی شمولیت کے حوالے سے پاکستان، 146 ممالک میں سے 145ویں نمبر پرہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے 149، صحت اور بقاء کے حوالے سے 132 جبکہ سیاسی شمولیت کے حوالے سے 112 ویں نمبر پر ہیں۔ افسوس ہے کہ ہم دنیا میں آخری نمبروں پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کی حالت اتنی بری کیوں؟ کیا ان کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے ؟ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جو کام ہو رہا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے، ابھی بہت سارا کام کرنا ہے۔ اگر ہم ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہتری چاہتے ہیں تو صنفی مساوات کو فروغ دینا اور خواتین کے استحصال کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ کام کی جگہ پر ہراسانی کے حوالے سے موجود قانون کے مطابق تمام سرکاری و نجی اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیوں کا قیام اور ضابطہ اخلاق آویزاں کرنا لازمی ہے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی 2023ء میںشائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 31 فیصد ضلعی دفاتر میں ضابطہ اخلاق آویزاں ہے اور 34 فیصد دفاتر میں ہراسمنٹ کمیٹیاں موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ برس کی نسبت خواتین پر تشدد میں 89 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
2023ء میں پنجاب میں خواتین سے زیادتی کے 6 ہزار624، اغواء کے 562 اور تشدد کے 1201 کیسز رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ نہ ہونے والے کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ غیرت کے نام پر سال میں 120 خواتین کو قتل کر دیا گیا، روزانہ کی بنیاد پر 25سے زائد خواتین تشدد کا شکار ہو رہی ہیں، زیادتی کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ اب لوگوں کو آگاہی ملی ہے اور کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ ابھی بھی ایک خاصی تعداد ہے جو شکایت درج نہیں کرواتی جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ہم نے جب پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے دفتر کا دورہ کیا تو بتایا گیا کہ 100 دن میں خواتین پر تشدد کے شکایت کیلئے ایک لاکھ 37 ہزار کالز موصول ہوئیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواتین میں پہلے کی نسبت آگاہی اور حوصلہ بڑھا ہے۔ سول سوسائٹی ہمیشہ ہر اچھے کام میں حکومت کو سپورٹ کرتی ہے۔
خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے جہاں بھی حکومت کو ہماری مدد چاہیے، ہم ساتھ ہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں اور معاشرے میں آگاہی دے رہے ہیں۔ اس عالمی دن کے موقع پر ہمارے مطابات ہیں کہ خواتین پر تشدد اور دیگر جرائم کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر موثر عملدرآمد کیا جائے۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کو بذریعہ کال موصول ہونے والی شکایات مختلف محکموں میں بھیجی جاتی ہیں، ان شکایات کی مانیٹرنگ اور فالو اپ کا میکنزم بنایا جائے، اداروں سے رابطہ رکھا جائے اور کیسز کو جلد نمٹا یا جائے۔اس کے علاوہ تشدد کا شکار خواتین کی بحالی کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ تمام اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیوں کا قیام یقینی بنایا جائے اور ضابطہ اخلاق آویزاں کیا جائے۔
پنجاب میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 16 برس ہے، اسے 18 برس کیا جائے۔ خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک اور استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے ڈے کیئر سینٹرز بنائے جائیں۔ شادی میں جہیز کی رسم کا خاتمہ کیا جائے اور وراثت میں خواتین کا حق یقینی بنایا جائے۔ خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں، ان کی تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور تحفظ سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق یقینی بنائے جائیں۔