گزشتہ دس بارہ دنوں سے سارے ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہوا تھا کہ 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دے رکھی تھی وہ اب گزر چکی ہے۔2011 سے PTI نے جو اپنا رنگ ڈھنگ بدلا ہے اس ملک میں ایک دن بھی چین سے نہیں گزرا۔ ہم اس سے پہلے MQM کی طرز سیاست سے تنگ آچکے تھے جب کہ وہ صرف کراچی اور حیدرآباد تک ہی محدود تھی۔ آئے دن کے یوم سیاہ اور احتجاجی مظاہروں سے یہاں کے لوگوں کا جینا حرام ہوچکا تھا۔
غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور جبری چندہ مہم نے مزید مصیبت ڈال رکھی تھی۔ بڑھتے بڑھتے حالات اس قدر خراب ہونے لگے کہ ٹارگٹ کلنگ میں روزانہ کی بنیاد پر دس سے بارہ افراد قتل کیے جانے لگے۔ کاروباری افراد یہ شہر چھوڑ کر جانے لگے اور شہرکا سارا بزنس ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ پچیس تیس سال ہماری قوم یہ عذاب بھگتی رہی۔ جمہوریت اور سیاست کے نام پر جو شوریدہ سری یہاں ہوتی رہی اس کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن بس عوامی مینڈیٹ کے نام پر دھونس اور دھمکیوں سے سیاست کی جاتی رہی۔ اس عرصے میں بہت سی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر کوئی بھی حکومت اس مسئلے کا حل تلاش نہ کرسکی۔1992 میں اس جماعت کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا اور کسی حد تک اس مسئلے پر قابو بھی پا لیا گیا، مگر پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور میں اس نیم جاں زخمی شیر میں نئی جان ڈال دی اور اندرون خانہ اس کی بھرپور مدد بھی کی۔
ججوں کی تحریک کے خلاف بھی اس پارٹی کو استعمال کیا گیا۔ 12 مئی 2007 میں سابق چیف جسٹس کی کراچی آمد پر سارا دن یہاں قتل و غارت گری ہوتی رہی انھیں شہر میں داخل ہونے ہی نہیں دیا گیا۔ پچاس پچپن افراد کو قتل کروا کے جنرل مشرف نے اسی شام راولپنڈی میں مکے دکھا کے قوم سے ایک خطاب میں کہا کہ ’’ دیکھا ہماری طاقت اور قوت کا مظاہرہ۔‘‘ وہ دن تھا اور2007 کا سال اس شہر نے نجانے کتنے معصوم اور بے گناہ افراد کو قتل ہوتے دیکھا۔ شہر کو ایک بار پھر امن کی آماجگاہ بنانے کے لیے میاں نوازشریف نے پھرکوشش کی اور کریک ڈاؤن کر کے اس شہر کی لندن میں بیٹھے شخص سے جان چھڑائی ۔ اس شخص نے کتنے سالوں تک اس شہر اور اس کے باسیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا۔
اس کے ایک حکم پر اس کے کارندے اس شہرکا امن و امان چند منٹوں پر برباد کر کے رکھ دیتے تھے۔ صبح کو کام پر نکلے لوگ شام کو اکثر واپس گھر بھی نہیں لوٹ پاتے تھے۔ خدا خدا کر کے اس عذاب سے اس قوم کی جان چھوٹی تھی کہ ایک دوسری پارٹی اس مشن کو لے کر سامنے آگئی۔ ایم کیوایم تو صرف سندھ کے چند شہروں تک محدود تھی لیکن PTI نے تو سارے ملک میں فساد پھیلانے کی ذمے داری اپنا لی۔ 2011 سے پہلے اسے ایک دو نشستوں سے زیادہ کا مینڈیٹ نہیں مل پاتا تھا لیکن بعض افراد کی کرم نوازیوں سے یہ جماعت سارے ملک میں مقبول اور مشہور ہونے لگی۔ اسی مقبولیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے بانی نے وہی کچھ کرنا شروع کردیا جو کبھی MQM کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ یعنی آئے دن کے احتجاج اور فساد۔
2018 کے انتخابات میں اسے زبردستی کامیاب کروا کے حکومت میں لایا گیا اور تمام نااہلیوں کے باوجود اس کی بھرپور مدد بھی کی گئی۔ ایک اچھے خاصے پھلتے پھولتے ملک کو برباد کر دیا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن یہ ملک ایسی تباہی اور تنزلی کا شکار ہوا کہ دیوالیہ ہوجانے کی حدوں کو چھونے لگا۔ جیسے تیسے کرکے ایک بار پھر اس ملک اور قوم کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کی کوششیں ہونے لگیں تو اس پارٹی کی جانب سے پھر احتجاج اور دھرنوں کی سیاست زور پکڑنے لگی۔ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ کیے جانے کی بدولت پارٹی کی قیادت مزید ہمدردیاں سمیٹنے لگی اور آج جیل میں رہتے ہوئے بھی اچھی خاصی مقبول بنی ہوئی ہے، وہ جیل سے ہی احتجاجوں کی کال بھی دیتی ہے اور ہنگاموں کے لیے ہدایات بھی۔
حکومت کی مجبوری ہے کہ اسے ملک میں امن و سکون قائم رکھنا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق حکومت کو واضح ہدایت بھی دے رکھی ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت آپ کی ذمے داری ہے۔ حکومت اگر اس جانب ذرا سی بھی غفلت دکھاتی اورکوئی بڑا معرکہ ہوجاتا تو پھر سارا الزام حکومت پر لگایا جاتا۔ شام کو سارا الیکٹرانک میڈیا حکومت پر تنقید و تنقیص کے نشتر چلارہا ہوتا۔ عدالت عالیہ کے حکم کے بعد حکومت مشکل میں پھنس گئی کہ اس احتجاج سے کیسے نمٹا جائے۔
اس نے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتی تھی۔ موبائل فونز، انٹرنیٹ کی بندش اور دفعہ 144سمیت ہراقدام کر ڈالا۔ اسلام آباد شہرکو ہرطرف سے بندکردیا جیسے وہ ایک محصور شہر ہو، وہ ایسا نہ کرتی تو اورکیا کرتی؟ معمولی سے رعایت بھی کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی تھی۔ PTI کی سابقہ سیاست کو دیکھتے ہوئے اسے کوئی رعایت دینا اپنی سیاسی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا۔ احتجاج کی آڑ میں اس نے ہمیشہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ ہی کیا ہے۔ 2014 کے دھرنوں سے لے کر آج تک اس کا کوئی احتجاج بھی پر امن نہیں رہا۔ ہم نے 9 مئی کے ہنگامے بھی دیکھے ہیں۔
سیاست دان کی گرفتاری کوئی انہونہ واقعہ نہیں ہوا کرتا۔ اس سے پہلے بھی ہمارے یہاں کئی سیاستداں گرفتار ہوتے رہے ہیں، لیکن اُن سب سیاستدانوں کے کارکنوں نے کبھی بھی ایسا رد عمل نہیں دکھایا جیسے پی ٹی آئی کے جانبازوں نے دکھایا۔ اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ انھیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ قائد کی گرفتاری پر انھیں کیا کرنا ہے اورکہاں کہاں توڑ پھوڑ کرنی ہے۔ اس لیے اس جماعت سے کوئی بھی یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ جمہوری اُصولوں کے مطابق پرامن احتجاج پر قائم رہے گی۔ جلاؤ ، مارو اور مرجاؤ کے نعرے تو اس کے لیڈر ہمیشہ ہی لگایا کرتے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت اگر کوئی حفاظتی انتظام نہ کرے تو قصور اسی کا کہلائے گا۔