آشاؤں کا ساگر کبھی شانت نہ رہ سکا۔ بے انت تمناؤں اور ارمانوں کے سنگ ریزے اس ساگر میں ہلچل کا کارَن بنتے رہتے ہیں۔ اور شاید ان گنت صدیوں پر مشتمل اسی ہلچل کے بطن سے وجود پانے والی اضطراری کیفیت نے جنگلوں میں رہ کر فقط شکار پر گزارا کرتے ہوئے خوب سے خوب تر کی تلاش میں بھٹکتے انسان کو رفتہ رفتہ زرعی ماحول سے آشنا کردیا۔
اس آشنائی نے تو گویا اس کے جیون کی دھارا ہی بدل دی۔ اب اس نے اپنی پسند کی مطلوبہ اجناس اگانے کا گُر سیکھ لیا۔
دھرتی کی پیداواری جبلت نے بھی اپنی گود وا کی، تو یہ اجناس اس کی ضرورت سے زیادہ اگنے لگیں۔ اب اس فاضل پیداوار کو اس نے معاشرے کے دیگر ہنرمندوں سے بارٹر سسٹم سے بدلنے کا گر آزمایا۔
یوں کچھ اور صدیاں بیتنے پر زراعت کے ساتھ جب ہنرمندوں کے دست ہنر سے وجود میں آنے والی اشیاء کا حجم بڑھنے لگا۔ تو اسے ان فاضل اشیاء کو بارٹر کے اصول پر سمندر پار بھیجنے کی راہ سجھائی دی۔
کرۂ ارض پر پھیلے سمندر کے دیگر کناروں کے باسی بھی شاید کسی ایسے ہی تبدل کے منتظر تھے۔ یوں رسد اور طلب کے معاشی فارمولے کے تحت سمندر کے راستے بین الاقوامی تجارت کی راہ ہموار ہو رہی تھی۔
اب گہرے پانیوں اور کئی ایام کے اس مطلوبہ تجارتی سفر نے سمندر کے سینے پر بادبانی سفینوں کو تیرتے دیکھا۔
نقل و حمل کے اس منفرد وسیلے کی معرفت ان وقتوں میں روئے زمین پر بکھرے ناقابل رسائی دوریوں پر بسے آباد خطوں کے اجنبیوں میں نہ صرف اب کچھ کچھ آشنائی ہو رہی تھی، بلکہ ہنرمندی کے تبادلے کی صورت میں ان کی زندگیاں سخت مشقت اور بے کیف شب و روز کی بجائے انواع اقسام کے رنگوں سے آشنا ہو رہی تھیں۔
راحتوں کے رسیا انسان کے دھیرے دھیرے ان سَت رنگیوں کے عادی ہونے پر سمندری راستے سے تجارت پروان چڑھنے لگی۔
تجارتی اشیاء سے لدے یہ سفینے جب منزل انداز ہونے کے لیے کسی گہرے ساحل پر رکتے، تو وہ کنارہ اور اس سے ملحق قصبہ بندرگاہ کے نام کا جھومر اپنے ماتھے پر سجا کر گویا ممتاز ہوجاتا۔
بندرگاہوں کے حامل کئی شہر اس تجارت کی بنیاد پر اپنی خصوصی شناخت دنیا بھر میں منا رہے تھے۔
روم، یونان، مصر اور سندھ کے ساحلوں پر ملنے والے قدیم بندرگاہوں کے آثار سمندر کے راستے اسی بین الاقوامی تجارت کا عندیہ دیتے ہیں۔
یہ معروف بندرگاہیں اپنے طور پر کئی المیے بھی سہتی آئی ہیں۔
کبھی شَر کی فطرت سے معمور جنگجو لٹیرے قبائل ان بادبانی جہازوں پر مال تجارت کے بجائے جنگی ہتھیار لاد کر نکلتے اور بندرگاہ کے حامل کسی خوش حال بستی پر آناً فاناً قیامت ڈھا دیتے۔
اور کبھی کوسوں دور سے آئی غیرملکی طاقت ور فوج نہ صرف اسے لوٹتی بلکہ اس بندرگاہ اور ملحق شہر پر قبضہ کرلیتی۔
حملے اور قبضے کی وجہ سے مقامی معاشرت اور سماج دباؤ کا شکار ہوجاتی۔ قابض فوج اپنی زبان کی صوتی ادائیگی کی بناء پر اس بندرگاہ کا نام بگاڑ دیتی۔
یہی المیہ کراچی کی بندرگاہ کے ساتھ ہوا۔ اسے کبھی در بو، کرو کالا، واگودر، قلاچی، کبھی اسے دھاروجہ، سکندری جنت اور کبھی مورن ٹو بارا و قلاتی بندر کے نام سے بھی پکارا گیا۔
نام بدلتے رہے لیکن نقشے کی لکیروں میں اس کا مقام وہیں موجود رہا۔
کچھ قدیم بندرگاہوں کے ساتھ وقت نے ایک اور ستم یہ بھی کیا کہ ان سے سمندر ہی روٹھنے لگا۔ عروج کا ایک دور دیکھنے والی کچھ بندرگاہیں اسی طرح سک سک کر دم توڑ گئیں۔
پانی دریا کی صورت ہو یا سمندر کی شکل میں، وہ کسی مقام سے روٹھ جائے تو وہاں دہائیوں سے بسی نہ صرف آباد بستیاں ویران ہوجاتی ہیں، بلکہ وہاں تشکیل پا یا تمدن ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔
لاہڑی بندر اور بھنبھور کی بندرگاہوں سے سمندر اسی طور رُوٹھ گیا۔ گو کہ یہ تبدیلی ارضیاتی و موسمی تغیر کی بنا پر ہی ظہور پذیر ہوئی۔
بھنبھور کی بندرگاہ پر تو آج بھی انتظامی امور کے شکستہ دفاتر کی کچھ نشانیاں موجود ہیں، جو ویران آنکھوں سے دور گئے سمندر کو حسرت سے تکتی رہتی ہیں۔
اسی طرح صحرائے تھر کے قریب بہنے والے دریائے ہاکڑا اور دریائے سرسوتی کا پانی ان سے کیا روٹھا کہ ان کے آس پاس جنم لینے والی قدیم تہذیب بھی ڈوب گئی۔
کیسے کچوکے دے رہا ہوگا یہ احساس کم مائیگی ان زمینوں کو، کہ لہردرلہر پانی سے کھیلنے والی وہ زمینیں آج برسات کی صورت پانی کی ایک بوند کی منتظر رہتی ہیں۔
بہرحال یہ تغیر قانون فطرت ہے، اسِ سے مفر ممکن نہیں، کہ آج کے پُرشور دریاؤں اور سمندروں میں بھی کیا معلوم کل خاک اڑ رہی ہو۔
ارضیاتی تبدل، موسمی تغیر اور تاریخ کے جبر سہتی کراچی کی بندرگاہ ’’کیماڑی‘‘ کا اب ذکر کریں گے۔
اب مخمصہ یہ درپیش ہے کہ کیماڑی کا ذکر کس دور سے شروع کیا جائے، کہ کیماڑی کے تانے بانے تاریخ میں اتنے مضبوط ہیں کہ اس کی قدامت کو سرسری انداز میں نہیں لیا جاسکتا۔
کم از کم ڈھائی ہزار سال قبل کی تاریخ میں اس کی موجودگی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ جب سکندر اعظم کی فوجیں یہاں سے گزرتی ہوئی خلیج فارس میں داخل ہوئی تھیں۔
معروف تاریخ داں ’ایچ ٹی لمبرک‘ نے ‘‘AARIAN’’کے حوالے سے سکندراعظم کی فوج کے بحری بیڑے کو جو کمانڈر نیار کس کے زیر کمانڈ تھا، کے دریائے سندھ کے دہانے سے گزر کر سمندر میں داخل ہوجانے کے بعد کا سفری احوال بیان کیا ہے۔ اس احوال میں کیماڑی کے ساتھ کراچی کے کچھ ساحلی علاقوں کے نام بھی ہیں۔
احوال اس طرح ہے۔
ایک سو پچاس کشتیوں پر مشتمل بحری بیڑا بحیرہ عرب میں داخل ہونے کے بعد KiLLATA جزیرے کا چکر کاٹ کر پہلے کارو کالا‘‘ جزیرہ اور پھر BiBAKTA (منوڑہ) جزیرہ پہنچا تھا۔ یہاں سے وہ مزید مغرب کی سمت سفر کرتا ہوا ' SAKA ' (ابراہیم حیدری) اور گسری (گزری) سے گزر کر OYESTER Rocks (کلفٹن) کے درمیان سے گزر کر ’’کیا ماڑی‘‘ (کراچی بندرگاہ) پہنچا تھا۔ پھر یہاں سے وہ مزید شمال مغرب کی جانب سفر کرتا ہوا خلیج فارس میں داخل ہوا تھا۔
اب ڈھائی ہزار سال کے زینے سے اتر کر پانچ سو سال کے قدمچے پر قدم رکھتے ہیں۔
جب 1557 عیسوی میں کیپٹین سعید علی نامی ترک جہاز راں نے برصغیر کی بندرگاہوں کے مطالعاتی دورے کے بعد اپنی سفری روئیداد کو ’’محیط‘‘ نامی کتاب کی صورت میں مرتب کیا۔ اسِ سفر میں انہوں نے دیو، کاٹھیاواڑ کے علاوہ خلیج کی مسقط و ہرمز سمیت کئی بندرگاہوں کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ کتاب مکہ میں شائع ہوئی۔
کیپٹن سعید علی ’’محیط‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ بحیرۂ عرب میں جب تمہیں محسوس ہونے لگے کہ تمہارا جہاز ’’جا سک‘‘ (ایک ایرانی بندرگاہ) کی طرف سمندری گرداب کی جانب جا رہا ہے تو تم اسے اس گرداب فنا سے بچانے کی کوشش کرو اور اپنے جہاز کو ساحل مکران سے یا تو گوادر بندرگاہ کی طرف لے جاؤ یا پھر بندرگاہ ’’کراشی‘‘ (کراچی) میں پناہ لو، تاکہ تم جاسک میں غرق ہونے سے بچ سکو، اور سمندری گرداب سے نجات حاصل کرو۔
صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے اس بندرگاہ اور اس سے ملحق شہر کو قدامت کی ایک اور سند عطا ہوئی۔
وہ اس طرح کہ جب ندی کے دہانے پر معروف بندرگاہ ’’کھڑک‘‘ بندر جہاں بارشوں کے سب رفتہ رفتہ ندی سے سمندر میں ریت کی منتقلی کے سبب گہرائی کم ہوتی گئی اور بالآخر یہ بندرگاہ نا قابل استعمال ہوگئی۔
اب دوسری بندرگاہ کی تلاش کے لیے وہاں کے معروف تاجر ’’سیٹھ بھوجھومل‘‘ کے کارندوں کی جوہر شناس نگاہوں نے 1729ء میں’’کیاماڑی بندر' کو تلاش کرلیا۔
یہ اور اس جیسے دوسرے حوالے بتا رہے ہیں کہ سندھ، پنجاب، کشمیر اور بلوچستان کی خلیج کے ملکوں، چین اور یورپ تک کی بین الاقوامی سمندری تجارت کے صدیوں سے جاری بحری ٹرانسپورٹ کے اس واحد راستے کے بارے میں جہاں روزگار کے وافر ذرائع موجود ہوں اور وہاں کوئی آبادی نہ ہو۔
یہ تاریخی شواہد نہ صرف بندرگاہ کی قدیم حیثیت کی گواہی دے رہے ہیں، بلکہ اس سے ملحق شہر کراچی کی قدامت کو بھی آشکار کر رہے ہیں۔ اور بتا رہے ہیں کہ یہ شہر تاریخ کے دھندلکوں سے اچانک نہیں ابھرا، بلکہ مختلف زمانوں میں یہ مختلف انداز میں سامنے آتا رہا ہے۔
اُن دنوں دریائے سندھ گھارو سے ہوتا ہوا ابراہیم حیدری کے قریب سمندر میں گرتا تھا۔ دریا کے سمندر میں گرنے کے قریب گزری، واگودر، ریڑھی، ابراہیم حیدری اور رتو کوٹ جیسی سرگرم بندر گاہیں موجود تھیں۔ پھر صدیوں بعد دریائے سندھ کے پیچھے ہٹ جانے سے قریب ہی موجود سمندر ان علاقوں میں چڑھ دوڑا۔
سرگرم بندر گاہوں کے ساتھ کم گہرائی کے چھوٹے چھوٹے مچھلی بندر بھی موجود تھے۔ اسی سبب شہر کے کافی حصوں میں سمندری پانی موجود تھا۔ پھر موسمی اور ارضیاتی تغیر کے سبب سمندر پیچھے ہٹنے لگا، تو یہ بندر گاہیں بھی کارآمد نہ رہیں۔ آج بھی صدر سے ملیر جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر نیپئیر بیرکس کے عقب میں کچھ دور تک کے علاقوں میں گہری کھدائی کے دوران سیپیاں اور گھونگھے برآمد ہوتے ہیں۔ کیا ماڑی (کیماڑی) کی بندرگاہ پر پانی موجود رہنے اور گہرائی کے سبب یہ قائم بھی رہی اور تاحال کارآمد بھی ہے۔
حیرت ہے کہ صدیوں سے موجود اتنی اہم اور فعال بندرگاہ اور اس سے وابستہ علاقے کی حیثیت کو مغلوں، کلہوڑوں سے لے کر تالپور حکم رانوں تک کسی نے نہیں سمجھا نہ اس پر توجہ دی۔
اس بندرگاہ کی فعالیت اور جغرافیائی پوزیشن کو پرتگالی، فرانسیسی اور برطانوی سمجھ چکے تھے۔ اور بندرگاہ سے آگے کھلے سمندر میں ان یورپی طاقتوں کے بحری بیڑے سندھ پر قبضے کے لیے نظریں گاڑے بیٹھے تھے، بس وہ موقع کی تاک میں تھے۔ اور 2 فروری 1839ء کو یہ سنہری موقع انگریزوں نے حاصل کرلیا۔
قبضے کے بعد انگریزوں نے اس گوہرنایاب کو تراش، سنوار کر نہ صرف اس کی تجارتی حیثیت بحال کی بلکہ بندرگاہ سے ملحق شہر کے ترقیاتی امور پر بھی توجہ دی۔
انگریز انتظامیہ نے بندرگاہ پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کردیا۔ سب سے پہلی ضرورت شہر سے کیماڑی جزیرے تک آسان رسائی تھی۔ برآمدی اشیاء کو کیماڑی جزیرے تک پہنچانے یا کیماڑی پر آنے والے درآمدی مال کو کشتیوں کے ذریعے ’’جونا بندر‘‘ (پرانی بندرگاہ) یعنی موجودہ نیٹو جیٹی تک لانا لے جانا دقت طلب امر تھا۔ جب کبھی پانی اتر جاتا تو کشتیاں تیر نے جتنا پانی بھی نہ بچتا، اب ناچار سامان کو کندھوں پر اٹھا کر دلدلی زمین پر چلنا پڑتا۔ اس کے حل کے لیے ’’چارلس نیپئیر‘‘ نے 1847ء میں کازوے تعمیر کروائی، جس سے جزیرہ کیماڑی کراچی شہر سے منسلک ہوگیا۔ اب تاجر بہ آسانی اپنی اشیاء یہاں سے وہاں منتقل کرسکتے تھے۔ برطانوی حکام کو بھی اپنی بھاری جنگی مشینری کی نقل و حمل میں آسانی ہوگئی۔ اس کاز وے کی بہتر کارکردگی سے متاثر ہوکر انہوں نے اس کے برابر لوہے کا ایک مضبوط پل بنانے کا فیصلہ کیا۔ اور 1864ء میں ’’نیپئیر مول برج‘‘ نامی پل عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
دوردراز کے ممالک سے آنے والے جہاز اگر رات کے اوقات میں کراچی کی سمندری حدود میں داخل ہوجاتے، تو ان کی سلامتی اور حفاظت کے لیے کسی انتباہی اشارے کی اشد ضرورت تھی کہ کہیں یہ جہاز کم گہرے پانی کی طرف جا کے پھنس نہ جائیں یا بندرگاہ کے قریب زیرسمندر چٹانیں انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ اس کے تدارک کے لیے ابتدا میں تالپور حکم رانوں نے 1786ء میں اور بعد میں انگریزوں نے 1888 ء میں کیماڑی کے قریب منوڑہ جزیرہ پر لائٹ ہاؤس تعمیر کروایا۔
دنیا بھر میں بندرگاہوں کو طوفانی لہروں سے بچانے کے لیے برتھوں سے کچھ دور سمندر میں کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں بھی اسی ٹیکنک پر عمل کیا گیا۔ اور منوڑہ کے قریب اس کام کا آغاز کردیا گیا۔
1829ء میں بریک واٹر کی دیوار کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ 1874ء میں اس کی تکمیل پر لوگوں نے سمندر کی موجوں کو اس دیوار سے ٹکرا تے اور ان کا زور ٹوٹتے دیکھا۔
ان کے علاوہ مختلف برتھوں کی تعمیر بھی بندرگاہ کی ترقی کی باعث بنتی رہی۔
سکندری جنت، مورن ٹو بارا سے ہوتے صدیوں کا سفر طے کرتے دربو، کر و کالا، واگو در کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے اپنوں اور بیگانوں کے وار سہتے یہ بندرگاہ اور یہ شہر پوری توانائی کے ساتھ آج دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔
1843 ء میں تاج برطانیہ کے نام زدکردہ سندھ کے پہلے گورنر ’’سر چارلس نیپئیر‘‘ اس بندرگاہ کی جغرافیائی حیثیت کو سمجھ چکا تھا۔ اس کی دوربیں نگاہیں کراچی اور اس کی بندرگاہ کا تاب ناک مستقبل دیکھ رہیں تھیں۔ اور یکم اکتوبر 1847ء کو بحری جہاز سے مصر کے لیے روانہ ہونے سے قبل چارلس نیپئیر نے کیماڑی میں اپنے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نہایت غم گین لہجے میں کراچی کے متعلق مندرجہ ذیل تاریخی الفاظ کہے تھے:
’’کراچی! عنقریب تو مشرق کی ملکہ ہوگی۔ اے کراچی! جب تو اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے تو میری تمنا ہے کہ میں تجھے ایک بار دیکھ سکوں!‘‘
بلاشبہہ کراچی کو یہ عظمت، یہ شہرت اسے اسِ اس کی بندرگاہ نے ہی عطا کی ہے۔