پاکستان میں حالیہ عرصے میں ٹیک بیسڈ انٹرپرینیورشپ میں اضافہ ہوا ہے۔اس میں انفرادی اور ادارہ جاتی سطح دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ مستقبل انہی شعبوں میں بہتر کارکردگی کے ساتھ مشروط ہے لہذا ان شعبوں میں نمایاں اور کامیاب افراد کے ساتھ بات چیت کا سلسہ شروع کیا جا رہا ہے جنہوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے جدیدٹیکنالوجی او رمہارتیں سیکھ کر کاروبار کیا یا اپنے لیے روزگار کے مواقع ڈھونڈے۔
اس سلسلے میں پہلی شخصیت ہیں ثاقب اظہر جو پاکستان میں ڈیجیٹل لرننگ اور ای کامرس کا ایک نمایاں نام ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے یوتھ ایمبیسڈر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے گفتگو کا احوال قارئین کی نذر ہے۔
٭٭٭
سوال: آپ پیشہ وارانہ سطح پر کیا سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں؟
جواب: یہاں پر پاکستان میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ٹیلنٹ ہے، ہنر ہے یا پھر ایسا بھی ہے کہ بہت ساری چیزیں انہیں معلوم نہیں ہوتیں اور انہیں مزید پالش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا کئیریر بنا سکتے ہیں۔ اس وقت بہت سارے لوگ پاکستان میں ایسے ہیں جو ہاتھ پھیلانے والے ہیں۔ ان لوگوں کو کس طرح قابل بنایا جائے۔ تو یہی مقصد میرے پیش نظر ہے جس کے لئیدو ہزار اٹھارہ میں ہم نے ادارہ بنایا۔
سوال۔ آپ کو یہ خیال کیسے آیا کہ جو کچھ آپ نے سیکھا ہے اس کو میں اپنے ہم وطنوں سے شئیر کروں؟
جواب۔ دو ہزار اٹھارہ سے پہلے میں دس سال سے زائد عرصے سے انگلینڈ میں تھا۔ وہیں پر میں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ کچھ کاروبار کیے اور ای کامرس کے بزنس سٹارٹ کیے ۔ جس میں اللہ نے بڑی کا میابی دی۔ ای کامرس ایسا بزنس ہے جس کو کہیں سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ تو اپنا وطن چونکہ پاکستان تھا۔ والدین بھی یہیں تھے تو فیصلہ کیا کہ پاکستان چلتے ہیں۔ کیونکہ میرے پاس یہی ایک ہنر تھا۔ تو یہاں آکر جب بہت سارے لوگوں سے بات چیت کی۔ تو انہیں اس چیز کا خیال نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ آن لائن خرید وفروخت کو فراڈ سمجھتے تھے۔ ابھی بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں لو گوں کو عملی طور پر یہ کر کے دکھایا۔ کیونکہ دنیا اس طرف جا چکی تھی۔ اور ہم اب بھی پرانے طور طریقوں میں تھے۔ لو گ سمجھتے تھے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ پھر انہیں سمجھایا، بتایا اور دکھایا تو پھرایک موومنٹ تیار ہوئی۔مارکیٹ میں ایک گیپ تھا۔ جب آپ پرابلم اسٹیٹمینٹ لا کر حل بتاتے ہیں، تو پھر وہ کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ معاملہ چلا۔
سوال۔ اپنے پلیٹ فارم سے آپ کس طرح کی سروسز مہیا کرتے؟
جواب۔ یہ ملٹی پل ایکو سسٹم کے تحت ہوتا ہے جس میں بچوں کے لیے بھی خدمات ہیں۔ ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دیتے ہیں۔ بچے تعلیم بھی لے رہے ہیں، تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔ دس سال بعد جو بچہ نکل رہا ہے محض اس کے پاس اے گریڈ ہی نہیں ہے بلکہ تربیت بھی ہے۔ تربیت میں بہت سے پہلو ہیں۔ کیسے تربیت کی جائے بچے کی۔ جیسے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ پاکستان میں شاید ہی کو ئی بچہ یا بڑا روزہ رکھ کرتوڑتا ہے۔ ایساکیوں ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی دیکھ رہا ہے یا اس کا گناہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن باقی چیزیں بھی اللہ تعالی دیکھ رہا ہے ان کا بھی گناہ ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ شروع سے سب کو سکھایا گیا کہ روزہ توڑنا گناہ ہے۔ شروع سے ہی بچوں کو یہ سکھایا گیا کہ آپ یہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح باقی کام بھی انہیں شروع سے ہی سکھانے ہوں گے۔ تو اس طرح بہت ساری تربیت عملی سرگرمی پر مبنی ہے۔ سٹوری ٹیلنگ سے بہت کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے ایک جاپانی ماڈل کو بھی سکولنگ میں اپنایا گیا ہے۔ جب بچہ دو سا ل یا چار سال بعد ڈگری لے کر نکل رہا ہے تو وہ ایک خالی رسید لے کر نہیں نکل رہا۔
اس طرح ہم نے دو گروپس بنائے۔ ای کامرس اور ایکو سسٹم۔ جہاں ہمارے سترہ لاکھ لوگ ہیں،جہاں لوگ ای کامرس یا سکل سے متعلقہ کوئی سوال ہو تو وہ پوچھتے ہیں تو انکو ساٹھ سیکنڈز میں جواب دیا جاتا ہے۔ لو گ ایک دوسرے کے ساتھ کنیکٹ ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی کے پاس پیسے ہیں اور کسی کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تو وہ دونوں آپس میں جڑتے ہیں۔ پارٹنر شپس / شراکت دار ی ہوتی ہے۔ ایک طریقہ کار ہے کہ کیسے آپ نے ایک دوسرے کے ساتھ جڑنا ہے۔ پیسے والے نے نہ پیسے والے کو کیسے ڈھونڈنا ہے۔ اور نہ پیسے والے نے پیسے والے کو کیسے ڈھونڈنا ہے۔
روایتی کو ورکنگ سپیسز تو ہوتی ہیں۔ آپ اپنا ڈیسک لیتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ ورکنگ سپیس میں ایسا ہے کہ اگر کوئی بچہ کامیاب ہوا ہے اور اس کو اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے لوگ چاہییں تو لوگ وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس میں پارٹنزشپس کریں، اسٹارٹ اپ بنائیں، اگر وہاں ایک ہزار لوگ بھی آتے ہیں اور اس میں سے پچاس بھی کمپنیز بنا لیں۔ پچاس میں سے آہستہ آہستہ اس میں سے تین چار بڑی کمپنیز ہی بن جائیں تو یہ ہزاروں لوگوں کو ملازمت فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس طرح ایک کلچر پیدا ہوتا ہے۔ سٹارٹ اپس بنتے ہیں۔ لو گ ایک د وسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔ مرد و خواتین، بڑے چھوٹے ،سب ایک دوسرے کے ساتھ اپنا وقت گزارتے ہیں۔ یہ ایکو سسٹم ہے جہاں لو گ بنیادی طور پرایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں۔ ہم انگلینڈ، پورپی ملکوں اور امریکہ سے کام حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر یہاں کام کرتے ہیں، کسٹم ڈیویلمپینٹ، ٹول ڈیویلمپینٹ، سافٹ وئیر ڈیویلپمینٹ اور اس طرح کے کام۔ اس میں اس بات کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے، آپ کے پاس پیسے ہیں یا نہیں۔
سوال۔ آپ ای کامرس کے ماہر ہیں۔ لو گ آپ کو گورو مانتے ہیں۔آپ نوجوانوں کو تربیت بھی دیتے ہیں۔ مختلف اداروں میں جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایک خیال ہے کہ ای کامرس ایک وسیع اصطلاح ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس بہت پیسہ ہوگا تو میں ای کامرس میں کامیاب ہوں گا یا میں کسی نامی گرامی ادارے سے پڑھا ہوا ہوں گا تو کامیاب ہو ں گا۔ آپ بتائیں کیا یہ درست ہے یا پھریہ من گھڑت باتیں ہیں؟
جواب۔ یہ درست نہیں ہے۔ اگر پیسے ہیں توآپ جلدی اپنا کاروبار کر سکتے ہیں۔ اگر پیسے نہیں ہیں تو اس کے لیے میں آپ کو ایک روڈ میپ بتا تا ہوں۔ اس میں پہلا مرحلہ یہ ہے کہ آپ کوئی ایسی سکل سیکھ لیں جس کے آپ ماہر بن جائیں اور آپ وہ سکل سیکھ کر ڈالرز میں کمائی کریں ۔ اگر تین سو ڈالر ہے تو وہ لگ بھگ ایک لاکھ روپیہ ہے۔ اگر پاؤنڈ کمانا ہے۔ سکل سیکھ کر دنیا کو سروس دینی ہے تو دو سو اسی پاؤنڈ ایک لاکھ روپیہ ہے۔ کوئی بھی سکل سیکھ کر تین سو ڈالر ماہانہ کمانا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی کے پاس ایک، دو لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے۔ تو اس کے لیے سالوں لگ جاتے ہیں۔ یہاں آپ تین سو سے چھ سو ڈالر کماتے ہیں تو دو لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔آپ نے ہُنر سیکھنے پر وقت لگا نا ہے، اگر آپ نے زیادہ محنت نہیں کی ، اور اپنی سکل پر زیادہ کام نہیں کیا تو پھر بھی سال میں آپ چھ سو ڈالر کما ہی لیں گے۔ یہ طلبا کے لیے ایک اوسط آمدنی ہے۔ اگر آپ چھ سو ڈالر کماتے ہیں تو آپ کے پاس ماہانہ دو لاکھ روپے آتے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ دو لاکھ روپے خرچ نہیں کرنا ۔ آپ نے تیس فیصد رقم کو بچانا ہے۔ تیس فیصد ساٹھ ہزار روپے بنتا ہے۔ اگر آپ دو سال تک اس کو جمع کرتے رہیں تو یہ تقریبا پندرہ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ پندرہ یا بیس لاکھ روپے آپ نے اپنی سکلز سے دو سے تین سالوں میں بچا لیا۔ آپ کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اب دو سالوں بعد آپ کے پاس بیس لاکھ ہے۔ اب اس بیس لاکھ سے آپ لوکل ای کامرس کر سکتے ہیں۔ کوئی بزنس کرلیں، چار لاکھ میں کر لیں، پانچ لاکھ میں کر لیں، یہ تمام کیپٹل مینیجمینٹ ہے، فنا نشل مینیجمینٹ ہے، انکم مینیجمینٹ ہے۔ توآپ کی غریبی کا جو ایک سلسلہ چلا آرہا ہے۔ پچھلے تیس یا چالیس سالوں سے۔اس کو آپ سکل سیکھ کر دو سے تین سال میں ختم کر سکتے ہیں۔ دو تین سالوں کا سکل سیکھنے کا صبر نہیں ہے لیکن بیس، تیس سال کسی کی نوکری کرنے کا صبر ہے۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہی ہمارے نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔
سوال۔ یہ بتائیں کہ کونسی ایسی مہارتیں ہیں جن کی ای کامر س میں بہت زیادہ طلب ہے؟
جواب۔ آج کل ہر چیز کی ہی ڈیمانڈہے۔ آئی ٹی کی بہت طلب ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بہت زیادہ طلب ہے،ہرکوئی اس کو سیکھنا چاہتا ہے۔ کسی کو ای کامر س آتی ہے، کنٹینٹ رائٹنگ آتی ہے، وہ اس کو استعمال کر کے اپنی پیشہ ورانہ مہارت بڑھا ر ہا ہے۔ تو اس کی ڈیمانڈ ہے۔ اگر کوئی بچہ اے آئی کے ساتھ دو سے چارگھنٹے میں کر رہا ہے اور ایک اسی کام کو بغیر اے آئی آٹھ گھنٹے میں کر رہا ہے۔ تو کمپنیز کم وقت والے کو ترجیح دیں گی۔ اس لیے آپ کو یہ چیزیں سیکھنی ہوں گی۔ بصورت دیگر جو لوگ ڈر رہے ہیں کہ ان کی جابز ختم ہو جائیں گی۔ وہ جابز نہیں جائیں گی جب تک آپ سیکھیں گے نہیں۔ اگر نہیں سیکھیں گے تو وہ جابز چلی جائیں گی۔
پھر سائیبر سیکیورٹی ہے۔ پوری دنیا میں لوگ اپنی سیکورٹی کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔ ایسے لوگ چاہیئں ہیں جو سائبر سیکورٹی کو جانتے ہیں۔ ای کامرس ایک سدا بہار مہارت ہے جو ہروقت کام آئے گی۔ کیونکہ بالآخر ہر کاروبار کو آن لائن ہی ہونا ہے۔ جب بزنس آن لائن ہوں گے تو لوگوں کو لاجسٹکس اور لوگوں کی ضرورت ہو گی۔اوراس کے ساتھ ساتھ پروگرامنگ، ٹیک بیسڈ چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ان تمام کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنی صلاحیت میں کیسے اضافہ کرتے ہیں۔
سوال۔ اب ایسی چیزیں سکھائی جاتی ہیں، جو ہمارے معاشرے کے لیے بہت عجیب وغریب ہیں جیسے ایک کنسیپٹ ہے پیسو انکم Passive Incomeکا، اس کے بارے میں بتائیں۔
جواب۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ مایوس ہیں یا سڑیس کا شکار ہیں حالانکہ پوری دنیا میں ایسا ہی ہے۔ لوگ تنہائی کا شکار ہیں۔ لڑائی جھگڑے ہیں ان کے آپس میں۔ ان کو لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو ان کو مشاورت دے سکیں۔ ان کی باتیں سن سکیں۔ انسان کی پریشانی تب تک ختم یا کم نہیں ہوتی جب تک وہ کسی کو سنا نہ لے۔ بدقسمتی سے ان کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جنہیں وہ اپنے مسائل سنا سکیں۔ ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں لکھیں لسننگ جاب، کونسلنگ جاب، کنسلٹیشن جاب، تو لوگ کہتے ہیں کہ میری بات تیس منٹ کے لیے سنو، ایک گھنٹے کے لیے سنو۔ دیکھیں دنیا اس طرح ان پلیٹ فارمز کو استعمال کر رہی ہے۔
سوال۔ پاکستان میں معاشی اعتبار سے ای کامرس کا کتنا حصہ ہوگا ؟
جواب۔ جب ہم دو ہزار اٹھارہ میں آئے تو اس وقت ای کامرس کا والیم ایک ارب ڈالر تھا۔ اب یہ سات ارب ڈالرز سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ تو پانچ سالوں میں پانچ ارب ڈالرزکا اضافہ ہے۔اور مجھے امید ہے کہ دو ہزار پچیس تک یہ دس بلین ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔ اور آہستہ آہستہ یہ بڑھتی چلی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ دو ہزار تیس تک یہ سولہ بلین ڈالرز تک پہنچ جائیگی۔ لوگوں کو ملازمت بھی ملے گی اور مواقع بھی ملیں گے۔
سوال۔ سننے میں آتا ہے کہ کہ پاکستان فری لانسنگ کے حوالے سے ٹاپ فائیو ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب۔ جی بالکل۔ ہم اس وقت پوری دنیا میں فری لانسنگ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بیس سے تیس لاکھ فری لانسرز ہیں جو گھر بیٹھ کر، انکوبیٹرز یا کوورکنگ سپیسز میں کام کر رہے ہیں اور کما ئی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایز آف بزنس کرنا بھی بہت ضروری ہے حکومت کے لیے۔ کچھ چیزیں ہیں جو اس ملک میں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پے پال ایک بہت بڑا پیمینٹ گیٹ وے ہے جو اس ملک میں نہیں ہے جو فری لانسنگ میں چوتھے نمبر پر ہے۔ مگر زمبابوے، ایتھو پیا، ویت نام اورسری لنکا میں ہے۔ کینیا جیسے ملک میں بھی پے پال ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال۔ ای کامرس کے حوالے سے ایک بڑ ا پلیٹ فارم ایمازون ہے۔ وہ کیا ہے اور وہاں کس قسم کی سروسز کی ضرورت ہوتی ہے۔؟
جواب۔ ایمازون پر پیسے کمانے کے مختلف ماڈل ہیں۔ ایک تو جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ اپنی سکل کے ذریعے کمائی کرتے ہیں۔ جن کے پاس پیسے ہیں یا تو وہ چلتے ہوئے جو موجودہ برینڈز ہیں ان کو بیچ سکتے ہیں۔ اجازت لے کر یا بغیر اجازت بھی بیچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی بھی بڑا اسٹور ہے اس کی اجازت لے کر بیچ سکتے ہیں۔ یا کوئی اپنا برینڈ بنا سکتے ہیں۔ کسی کی کوئی پروڈکٹ اس کی تشہیر کر سکتے ہیں۔ مارکیٹنگ کر سکتے ہیں۔ اتنا بڑا پلیٹ فارم ہے۔ جس کی بلین ڈالرز کی یومیہ کی سیل ہے۔ پاکستان کی تو پچیس سے تیس بلین ڈالر سالانہ کی برآمدات ہیں۔ ایما زون کی یومیہ تین چار بلین ڈالرز کی سیل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ جس میں جتنے بھی آپ پائپ لگا لیں، اس میں پانی آنا بند نہیں ہو گا۔
سوال۔ اب تک پاکستان میں آپ کتنے لوگوں کو تربیت د ے چکے ہیں۔؟
جواب۔ آگاہی کے تناظر میں تو کروڑوں لوگ جان چکے ہیں۔ جہاں بھی جاتا ہوں۔ لوگ پہچان جاتے ہیں۔ اگر مجھے پہچان جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ای کامرس بھی کوئی چیز ہے۔ اصل مسئلہ اس کو عملی طور پر کرنا بھی ہے۔ تو لوگ ا بھی اس کو کرنے میں ہچکاہٹ کا شکار ہیں۔ ملکی حالات کی وجہ سے یا ا بھی بھی ان چیزوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگ کنفیوزن کا شکار ہیں۔یہ بنیادی طور پر پیسے کمانا نہیں ہے بلکہ سیکھنا ہے اور اپنی زندگی میں ویلیو ایڈ کرنا ہے سکل سیکھ کر۔ کیونکہ ہمارے پاس لوگ ماسٹرز کر کے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ تو میں کہتا ہوں کہ اگر آپ ماسٹرز کر کے بھی کسی چیز کے ماسٹر نہیں ہیں تو پھر یہ کس قسم کا ماسٹرز کیا ہے۔
ہمارا اگر کمیونٹی سائز دیکھا جائے تو سترہ لاکھ لوگوں کی تو ہماری صرف کمیونٹی ہے۔ جو دو فیس بک گروپس ہم نے بنائے ہوئے ہیں سترہ لاکھ لوگ تو ہمارے ممبرز ہیں جو فری میں سوالات پوچھ کر ہم سے مدد لے رہے ہیں۔ تو ابھی بھی میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ہم ایک سے دو فیصد لوگوں تک پہنچ پائے ہیں۔ ابھی بھی بارہ کروڑ یوتھ ہم تک نہیں پہنچ سکی۔ ہمیں نہیں جان سکی۔
سوال۔ جتنے بھی یہ پلیٹ فارمز ہیں ان میں ہمارا انحصار نیٹ کی دستیابی پر ہے۔ اگر کسی وجہ سے نیٹ دستیاب نہیں ہوتا تو اس کا کیا اثر ہے؟
جواب۔ اثر تو واضح ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد تو فوڈ ڈلیوری کے رائڈرز ہیں۔ جو فوڈ ڈلیور کرتے ہیں۔ نیٹ جانے سے وہ فوڈ ڈلیور نہیں کر سکتے۔ بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ جیسے بیس سے تیس لاکھ کے درمیان فری لانسرز ہیں۔ وہ لوگ اپنا کام نہیں کر پاتے۔بارہ کروڑ موبائل فون یوزرز ہیں تو اس میں سے ساڑھے پانچ کروڑ تو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک پر اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور اس میں سے چار کروڑ لوگ ایسے ہیں جو موبائل سے ادائیگی کرتے ہیں۔ تو کروڑوں لوگوں کی روز مرہ کی زندگی رک جاتی ہے۔ اگرآپ انٹرنیٹ بند کرتے ہیں تو بنیادی طور پر ایسا ہی ہے جیسے آپ پانی بند کرتے ہیں۔ جیسے کسی گھر میں اگر پانی بند ہوجائے تو وہ گھر نہیں چل سکتا۔ اگر ملک میں انٹرنیٹ بند ہوجائے تو یوتھ یا وہ لوگ جو اس کو استعمال کر رہے ہیں وہ نہیں چل سکتے۔
سوال۔ آپ پاکستان کے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے تا کہ وہ معاشی طور پر خود مختار ہو جائیں اور ایک بہتر طرززندگی گزاریں۔
جواب۔ جو لوگ پاکستان سے مایوس ہیں، حالات ٹھیک نہیں ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ خدانخواستہ اگر گھر میں آگ لگ جائے تو آپ اس کو چھوڑ کر نہیں جاتے۔ بلکہ اس آگ کو بجھاتے ہیں۔ اگر پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ یہاںسے چلے جائیں یا یہاں سے جانے کا سوچیں۔ آپ سوچیں کہ آپ بہتری کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ایک فرد ٹھیک ہو گیا تو معاشرے میں بہتری کا عمل شروع ہو جائے گا۔