لانگ مارچ اور انقلاب
اکیسویں صدی محض ایک نئی صدی نہیں ‘یہ ایک نئے عہد کا شاندار آغاز ہے۔
اکیسویں صدی محض ایک نئی صدی نہیں 'یہ ایک نئے عہد کا شاندار آغاز ہے ۔ یوں تو ہر دور اور زمانہ پچھلے سے مختلف اور جدا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ مختلف عوامل انسانی تاریخ کے ارتقائی سفر کو تیز تر کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا منقلب ہوجاتی ہے ۔یوں کہہ لیں کہ 21 ویں صدی ایک نئی دنیا کے وجود میں آنے کا اعلان اور پرانے عہد کااختتام ہے ۔ وہ افراد ' گروہ اور اقوام جو اس حقیقت کو جتنی جلد سمجھ لیں گی وہ دوسروں سے کہیں آگے نکل جائیں گی۔
پاکستان میں اس انقلابی تبدیلی کا ادراک کم لوگوں کو ہے جو پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور ہم بھی اس کی زد میں ہیں ۔ اس وقت بھی بعض سیاسی قوتیں 20 ویں صدی کی سیاسی نفسیات سے خود کو باہر نہیں نکال پائی ہیں اور مسلسل 'انقلاب اور تبدیلی' کے نعرے لگاکر لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔ اگر دنیا تبدیل نہ ہوئی ہوتی تو پاکستان میں جمہوریت نہیں آسکتی تھی'امریکا میں سیاہ فام افریقی نژاد صدر نہ ہوتا' سوویت یونین تحلیل نہ ہوتا اور چین تیزی سے اپنے نظام کو تبدیل نہ کررہا ہوتا ۔
کل کی دنیا اور تھی یہی وجہ تھی کہ اس کی سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی جدا تھے ۔ یہ دنیا صنعتی انقلاب کے ذریعے وجود میں آئی تھی اور آج سترھویں صدی میں رونما ہونے والا صنعتی نظام دم توڑ چکا ہے اور اس کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حیرت انگیز انقلاب سے تشکیل پانے والے نظام نے لے لی ہے ۔کل کی سیاست کے نعرے آنے والے دور میں قطعاً معدوم ہوجائیں گے ۔ مغرب میں صنعتی انقلاب آیا تو وہاں کے ملکوں نے خام مال اور منڈیوں کی تلاش شروع کردی ۔ یورپ کے صنعت یافتہ ملکوں کی کوشش تھی کہ دنیا کے کمزور اور صنعتی اعتبار سے پسماندہ ملکوں پر جلد از جلد قبضہ کرلیا جائے ۔
وہ وقت بھی آیا جب چند یورپی ملکوں نے امریکا سمیت تقریباً پوری دنیا کو زیرنگیں کرلیا ۔ برطانیہ سب سے بڑی نو آبادیاتی طاقت بن کر ابھرا اور ہمارا خطہ بھی اس کا حلقہ بہ گوش ہوگیا ۔ عالمی منڈی پر قبضے کے لیے دو عظیم جنگیں ہوئیں جن میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے ۔ ان دو عالمی جنگوں نے نو آبادیاتی طاقتوں کو کمزور کیا ۔ غلام ممالک کی آزادی کی جدوجہد کے اعتبار سے 20ویں صدی کا زمانہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور منفرد دور تھا جب دنیا کے ہر بر اعظم میںغلام اقوام نے قابض اقوام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ۔ آزادی کے لاکھوں متوالوں نے جان دے دی' قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں اور اپنے گھر بار اور اپنی راحتیں تج دیں۔
اس دور میں خوابوں سے لبریز گیت اور نغمے تخلیق ہوئے ' شاندار مزاحمتی ناول اور افسانے لکھے گئے اور ایک سے بڑھ کر ایک عظیم رہنما پیدا ہوا ۔ اس دور اور نسل سے تعلق رکھنے والا آخری عظیم رہنما نیلسن منڈیلا گزشتہ برس ہم سے جدا ہوا ہے۔ 21 ویں صدی میں اب ایسے عظیم الشان رہنما پیدا نہیں ہوں گے کیونکہ اس صدی کی سیاست اور معیشت بالکل مختلف ہے ۔ جو لوگ 'عظیم انقلابی رہنما ' بننے کے خبط میں مبتلا ہیں انھیں خود کو اس فریبِ نفس سے نکال لینا چاہیے۔
یہ بات درست ہے کہ آنے والا وقت اور زمانہ گئے وقتوں اور زمانوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاید مہذب دنیا کی تاریخ میں 20 ویں صدی کی جھلک اب ہمیں کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گی ۔ خوش نصیب ہیں وہ تما م لوگ جنہوں نے خوابوں سے بھرپور اس تاریخ ساز صدی کا کچھ حصہ دیکھا ہے ۔ 21 ویں صدی میں جوان ہونے والی نسل بالکل مختلف نفسیات رکھتی ہے ۔ اسے گزری ہوئی صدی کی رومانیت میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی اور نہ وہ اس کے بارے میں زیادہ جاننے کی خواہش رکھتی ہے ۔
ان دنوں پاکستان میں بعض کل وقتی اور جز وقتی سیاستدانوں کی طرف سے انقلاب اور لانگ مارچ کی آوازیں بلند کی جارہی ہیں ۔ عاصمہ جہانگیر کا تعلق بھی میری ہی نسل ہے جس نے گزری ہوئی صدی کے انقلابی رومانوی دھندلکے میں زندگی گزاری ہے ۔عاصمہ کے کانوں میں جب یہ آوازیں آئیں تو ان سے نہ رہا گیا اور انھوں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے دل کی بھڑاس خوب نکالی ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج کل انقلاب اور مارچ کے نعرے لگارہے ہیں انھیں سیاست 'انقلاب اور ان اصطلاحات کی الف بے بھی نہیں معلوم ہے۔
عاصمہ کہتی ہیں کہ کتنا بُرا زمانہ آگیا ہے کہ وہ لوگ جو آمروں کے پروردا ہوا کرتے تھے آج ہم کو انقلاب اور تبدیلی کا سبق پڑھارہے ہیں ۔ وہ سیاسی کارکنوں کو بتا رہے ہیں کہ جدو جہد کس طرح کی جاتی ہے ۔ عاصمہ نے بالکل ٹھیک کہا کہ کوئی پاکستان کے عوام کو سبق پڑھانے کی کوشش نہ کرے ۔ وہ سیاسی جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ رکھتے ہیں ۔ انھوں نے آمریت کو شکست دینے کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ ہزاروں کوڑے کھائے اور اپنی زندگی کے خوبصورت ترین سال انھوں نے جیلوں کی تاریک اور تنگ کوٹھریوں میں گزار دیے۔
آج کل جو لوگ انقلاب لانے اور جمہوریت کا تختہ الٹنے کے لیے لوگوں کو اکسارہے ہیں وہ جس انقلاب سے ہمیں روشناس کرانا چاہتے ہیں وہ 'انقلاب' پاکستان میں ایک نہیں چار بار آچکا ہے ۔ انقلاب لانے والے ہر آمر ' نے میرے عزیز ہم وطنو ' کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سیاستدان چور اور لٹیرے ہیں' جمہوریت ایک ڈھونگ ہے' آئین کاغذ کے چند پرزوں کا نام ہے'دعویٰ یہ کیا کہ میں تبدیلی لائوں گا' قوم کا مقدر بدل کر رکھ دوں گا۔
'انقلاب' لانے والے ہر آمر نے ملک کے ساتھ کیا کیا؟ وہ تبدیلی ضرور لائے لیکن اس طرح کے ہر آمر نے ملک کا جغرافیہ کم اور تبدیل ضرورکیا ۔ کسی نے چھوٹی یا بڑی جنگ میں پاکستان کی زمین یا پہاڑ یا ساحل کا کچھ ٹکڑا گنوایا تو کسی نے جوش میں آکر پورے پاکستان کا جغرافیہ تبدیل کردیا ۔ ملک کے اندر سے ایک نیا ملک وجود میں آگیا ۔' انقلاب' لانے والے ان آمروں کی وجہ سے پاکستان آج اس مقام پر کھڑا ہے اور ان کے حامی انقلابی سیاستدان انقلاب کا نعرہ مارتے ہوئے ایک بار پھروہی دور واپس لانا چاہتے ہیں۔
20 ویں صدی میں غلام قوموں نے آزادی حاصل کی لیکن غیر ملکی آقائوں کے جانے کے بعد ایک نیا عذاب ان کا منتظر تھا ۔ دو عالمی جنگوں نے قابض اقوام کو کمزور کیا اور انھیں عجلت میں اپنی نو آبادیوں کو چھوڑ کر جانا پڑا جس سے نو آزاد ملکوں میں طاقت کا خلا پیدا ہوگیا جسے پُر کرنے کے لیے مختلف طاقت ور گروہ سامنے آگئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے کم از کم 95 فیصد نو آزاد ملکوں میں فوجی افسران اور سخت گیر نظریاتی جماعتیں اقتدار پرقابض ہوگئیں۔ کہیں فوجی انقلاب آیا' کہیں یک جماعتی' کہیں شخصی آمریت مسلط ہوئی اور کہیں طاقت ور قبیلوں کے سردار بادشاہ بن کر اقتدار کی مسند پر جا بیٹھے۔
جہاں جہاں بھی 'انقلاب' کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قبضہ کیا گیا وہاں ایسی بھیانک آمریتیں قائم ہوئیں جنہوں نے سب سے پہلے ان لوگوں کا صفایا کیا جنہوں نے 'انقلاب' لانے میںاہم کردار ادا کیا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسے لوگ بر سر اقتدار افراد اور گروہ کے لیے خطرہ تھے اور وہ انقلاب کے مقاصد اور وعدوں کو پورا کرنے پر زور دیتے تھے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کے باعث یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ انقلاب سب سے پِہلے اپنے بچوں کو کھاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی مثال اٹھاکر دیکھ لیجیے ہر جگہ یہ بات سچ ثابت ہوگی ۔ ہمارے یہاں 1999میں 'انقلاب' لانے والے رہنما نے بھی سب سے پہلے اپنے ان رفیقوں کا ستھرائوکیا جنہوں نے اس کے لیے فوجی انقلاب کی راہ ہموار کی تھی ۔
ان آمروں کو عوام بہت جلد نکال باہر کرسکتے تھے لیکن ستم یہ ہوا کہ سرد جنگ کے بعد دنیا دو منطقوں میں تقسیم ہوگئی ۔ امریکا اور مغرب ایک طرف سوویت بلاک اور چین دوسری جانب ۔ دونوں نے اپنے حلقہ اثر میں آنے والے ہر آمر کی خوب آئو بھگت کی' جب تک سرد جنگ جاری رہی یہ 'انقلابی ' اپنے عوام پر مسلط رہے ۔ جیسے ہی اس جنگ کا خاتمہ ہوا دنیا میں جمہوری تبدیلی کی زبردست لہر آئی اور عوام نے بڑے بڑے اور نامور ترین ڈکٹیٹروں کے بت گرادیے ۔25برس کے اندر دنیا کا نقشہ بدل گیا اور اب 95 فیصد ملکوں میں جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور ہمارا شمار بھی ان ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔
20ویں صدی خوابوں اور عذابوں سے بھرپور تھی ۔ اس صدی میں نو آبادیاتی نظام جس نے پچھلی صدیوں میں قوموں کو غلام بنایا تھا' ان سے قوموں نے آزادی واپس چھینی ۔ اس صدی کی آخری دہائیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ہر شعبۂ حیات کو بدل کررکھ دیا اور دنیا ایک گائوں میں تبدیل ہونے لگی ۔ اب دنیا میں ایسے انقلاب کی گنجائش نہیں جس سے آمریت جنم لیتی ہو ۔ اب تنازعات مکالمے سے حل ہوں گے اور انتہا پسندی اور جنگ کا خاتمہ ہوگا ۔ نئی صدی کی نئی دنیا اور نئے پاکستان میں ' لانگ مارچ اور انقلاب' کی اب کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہتر ہے ہمارے' نئے انقلابی' صبر کریں کیونکہ تاریخ سے ٹکرانا دانش مندی نہیں۔