ہماری قیادت اور خاموش استقامت

کامیابی کا سورج طلوع کیا جا سکتا ہے مگر فی الحال قومی سطح پر آپ کو بہانے باز قیادت کے سوا اور کوئی نظر نہیں آئے گا۔


Syed Talat Hussain July 23, 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

کل صبح ایک خبر نے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ ایک جاننے والے کے بیٹے نے برطانیہ کی ایک بہترین یونیورسٹی میں سپیس انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا۔ خوشگوار حیرت داخلہ کی وجہ سے نہیں ہوئی اس بچے کا سن کر ہوئی جس کو اپنی زندگی سنوارنے کے لیے یہ موقع ملا۔ یہ بچہ انتہائی کم گو اور عام شکل و صورت کا ڈھیلا ڈھالا انسان ہے۔ خاندانی حالات ان تمام مشکلوں سے اٹے ہوئے ہیں جوآپ تصور کر سکتے ہیں۔

قابلیت سے عاری والد دنیا کے مختلف کونوں میں رزق کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے ، قریبی رشتے داروں نے ہاتھ چھوڑ دیا جس کے بعد اوپر خدا اور نیچے تین بھائی اور ایک ماں۔ نہ کوئی سہولت اور نہ خوشی کا کوئی موقع وہ تمام محفلیں جو اجتماعی قہقہوں سے سجتی ہیں ان میں شریک ہونے کے باوجود یہ بچے عملا غیر حاضر ہوتے ہیں۔ کھیل کا شوق رکھنے کے باوجود ہمیشہ منصوبے ہی بناتے رہتے ہیں۔ میدان میں جا کر اپنے جوش کا اظہار کرنا ان کی قسمت میں نہیں رہا۔ اسکول کی فیس وظیفے کے بغیر ادا نہیں کی جا سکتی تھی۔

نہ بجلی ، نہ پانی ، نہ رہنمائی اور نہ سر پر کسی کا ہاتھ۔ ایک بڑی بہن تھی جو کسی پْر اسرار بیماری کا شکار ہو کر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اس کے بعد پیدا ہونے والے جذباتی دبائو اور مسائل کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ مگر اس بچے نے ان تمام غیر معمولی مسائل کو زندگی کے امتحان میں پہلی پوزیشن لینے کی سیڑھی بنا دیا۔ڈھگمگاتے قدموں کے ساتھ یہ اوپر دیکھتا اور چڑھتا چلا گیا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ برآمدے میں گھنٹوں بیٹھ کر ذہنی سستی کے مزے لیتا ہے یا ٹھنڈی آہیں بھرتاہے یا پھر شاید پڑھنے کے بارے میں سوچتا ہے۔

نتائج آئیں تو معلوم ہوا کہ جب سب لوگ سو جاتے تھے تو یہ راتیں کتابوں میں غرق ہو کر گزارتا تھا۔ یہ کام اس نے دس سال کی عمر میں کرنا شروع کیا۔ آج دیے ہوئے امتحان کا نتیجہ آنے سے پہلے پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں اس کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔ یہ بچہ پہلی مرتبہ اسکول اور گھر کے مدار میں سے نکل کر ائر پورٹ کی شکل دیکھے گا۔ اور ایسے سفر پر روانہ ہو جائے گا جو اس کی تمام خاندان کی زندگی بدل دے گا۔

میرا نقطہ ایک عام بچے کی غیر معمولی کارکردگی کے بارے میں نہیں ہے۔ میں صرف یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ مشکلات اور تنگی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ جو اشخاص یا حکومتیں " موافق حالات " کی تلاش میں وقت ضایع کرتے ہیں وہ بہانے باز ہیں۔ جو عوام و خواص ہر وقت مشکلات کا رونا روتے رہتے ہیں وہ کاہل ، سست اور عزم و ہمت سے مکمل طور پر عاری ہوتے ہیں، ان کا مسئلہ حالات نہیں ہیں نہ ہی وہ واقعات سے جس سے ظاہرا ان کے حالات متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا مسئلہ وہ خود ہیں۔

بالکل ایسے ہی جیسے ایک فلسفی نے اپنے بہترین دوست اور دشمن کی صورت کی بارے میں بتلایا۔'' اپنے دشمن اور دوست کی تلاش کرتے ہوئے میں تھک گیا تو میں نے آئینہ اٹھا لیا' ایک نظر میں میں نے دونوں کو پا لیا''۔پاکستان میں ہر حکومت طاقت میں آتے ہی سینہ کوبی شروع کر دیتی ہے۔ انتخابات کے وقت جنت کے نظارے دکھاتے ہیں اور طاقت میں آنے کے بعد جہنم کے داروغہ بن جاتے ہیں۔ عوا م پر عذاب توڑتے رہتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ تاکید کرتے ہیں کہ وہ مجبور ہیں ، ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

حالات ساز گار نہیں ہیں۔ بجلی کا بحران کوئی بحران نہیں ہے۔ یہ نا اہلی کا نتیجہ ہے۔ ان کو حل کرنے کے لیے دماغ بھی موجود ہے اور وسائل بھی۔ مگر یہ دونوں نیت نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہیں۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان میں لاکھوں بچے ان بیماریوں کا شکار ہوں جو دوسرے ملکوں میں ختم کر دی گئیں۔ پولیو صرف غریب کے بچے کو ہی کیوں ہوتا ہے۔ مختلف درجوں پر حکومت کرنے والے ہزاروں افراد کی اولاد تو بیساکھی استعمال نہیں کرتی۔ ظاہر ہے اپنی نسل کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کی سر توڑ کوشش کامیاب ہوتی ہے۔

ملکی سطح پر اشتہاری مہم اور نعروں اور وعدوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ دہشت گردی ، بد امنی ، غربت، غیر فعال قومی اداروں کے حالات سے متعلق ہے۔ کھیل کے میدان میں بد حالی بھی اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ خارجہ پالیسی میں مشکلات کا سامنا تن آسانی کا نتیجہ ہے۔ زمین میں چھپے ہوئے لا محدود وسائل سے مستفید نہ ہونا قیادت کی ناکامی ہے۔ اگر صحیح جذبے کے ساتھ کام کرنے والی قیادت ہو تو حالات پلٹا کھا سکتے ہیں۔ ستاروں کی گردش رک سکتی ہے ، کامیابی کا سورج طلوع کیا جا سکتا ہے۔ مگر فی الحال قومی سطح پر آپ کو بہانے باز قیادت کے سوا اور کوئی نظر نہیں آئے گا۔

خیبر پختونخوا میں بڑی تبدیلی لانے کی امید دلوانے کے بعد وہاں کی حکومت ایسی ہی باتیں کرتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ جیسے وفاقی حکومت کی زبان سے نکلتی ہے۔ شہباز شریف کی طرح پرویز خٹک واپڈا کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ موجودہ ترقیاتی فنڈز میں سے 70 فی صد استعمال نہیں کیا۔مگر شور مچا رہے ہیں کہ ان کے پیسے وفاق نے روکے ہوئے ہیں۔

روز مرہ امن و امان قائم کرنے کی ذمے داری نہ پوری کرنے کی وجہ فاٹا میں دہشت گردی بیان کر کے جان چھڑوا لی جاتی ہے۔ یعنی ہر خرابی کا ذمے دار کوئی اور ہے۔ اپنی ناکامی دوسروں کی ذمے داری ہے۔ پرویز خٹک اور خواجہ آصف میں اس طرح سے کوئی فرق نہیں کہ ایک اپنے مسائل کے حل کے لیے وفاق کی طرف دیکھ رہا ہے اور دوسرا عوام کو سہولت مہیا کرنے کے لیے آسمان کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہے کہ ایک مینہ برسے گا ، دریا بھریں گے اور بجلی کی پیداوار میں کچھ اضافہ ہو گا۔

قیادت نے اپنے حیلوں کو ملک گیر عادت میں تبدیل کر دیا ہے۔ عام زندگی میں آپ کو بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں اور مشکلات و حالات میں سے مواقعہ کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ لہذا عمومی طور پر ہر کوئی روتا ہوا ملتا ہے اور ہمیشہ کسی دوسرے کو مورد الزام ٹھراتا ہوا پایا جاتا ہے۔ سیاسی کارکنان نے بھی یہی طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ اپنی قیادت کو ہمیشہ احتساب اور نقائص سے بالا تصور کرتے ہیں۔ دوسروں کے شہد زہر کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔

کوئی اپنے گریبان میں جھانکتا ہے نہ اپنی قیادت کا گریبان پکڑتا ہے۔ لہٰذا کہیں پر کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ باوجود اس کے ہر کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کا دامن صاف ہے اور وہ بہترین کام کر رہا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان ترقی کے تمام پیمانوں پر غیر اطمینان بخش معیار کے قریب ترین ہے۔ مگر قیادت کے قصے سنیں تو جیسے دنیا میں ان سے بڑھ کر عقلمند پیدا ہی نہیں ہوا۔ اس ملک کو خودپسند بڑبولے اور خود غرض لیڈران کی نہیں اس بچے جیسی قیادت چاہیے جو خاموش استقامت کے ذریعے سخت ترین صورت حال کو بہترین موقع میں تبدیل کر دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں